شمع فروزاں :مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(د) غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت کا بھی حق حاصل ہوگا ، قرآن مجید نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ فاتحین ، مفتوحین کی عبادت گاہوں کو منہدم کردیں ( الحج: ۴۰) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے جو معاہدہ فرمایا ، اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ان کی عبادت گاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی ، ان کے مذہبی پیشواسے تعرض نہیں کیا جائے گا اور نہ انھیں ان کے دین سے ہٹایا جائے گا : لا یہدم لہم بیعۃ ولا یخرج لہم قس ولا یفتن عن دینہم (أبوداود ، حدیث نمبر : ۳۰۴۱ ) اسی طرح کی تحریریں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مختلف صلح ناموں میں مروی ہیں ، (کتاب الخراج لأبی یوسف : ۱۴۳ ) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل نجران سے معاہدہ کی تجدید میں بھی اس دفعہ کو شامل رکھا ہے ، (کتاب السیر والخراج والعشر للشیبانی : ۲۵۰) حضرت خالدؓ کے صلح ناموں میں صراحت ہے کہ وہ اوقات نماز کو چھوڑ کر جس وقت بھی چاہیں ناقوس بجانے کا حق رکھیں گے اور اپنے تیوہاروں میں صلیب بھی نکالیں گے ، ( کتاب الخراج : ۱۴۶ ) فقہاء کے یہاں یہ صراحت بھی ملتی ہے کہ ان کی جو عبادت گاہیں ٹوٹ جائیں ، وہ ان کو دوبارہ تعمیر کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ (ہدایۃ ، باب الجزیۃ )
۸- غیر مسلم شہریوں کو بھی احتجاج کا حق اور اظہار رائے کی آزادی ہوگی ؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَا یُحِبُّ اﷲُ الْجَہْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَکَانَ اﷲُ سَمِیْعاً عَلِیْماً ( النساء : ۱۴۸ ) غیر مسلموں کو مسلمان اور ان کے افکار پر سنجیدہ اور شائستہ تنقید کا بھی حق ہوگا ؛ جیساکہ قبیلۂ بنی نجران سے آپ کا مباحثہ و مناقشہ ہوا ۔
۹- غیر مسلموں کے ساتھ عمومی حسن سلوک اور مالی اعانت نہ صرف جائز ؛ بلکہ مستحسن ہوگی ، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَا یَنْہَاکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوھُمْ وَتُقْسِطُوْا إِلَیْْھِمْ إِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ: ۸) اہل ذمہ تو کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اہل مکہ کی بھی مدد فرمائی ، جو اسلام سے برسر جنگ مگر قحط سے دوچار تھے ، آپ نے ان کی مدد کے لئے پانچ سو دینار ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کو بھیجے کہ اسے اہل مکہ پر تقسیم کردیں، ( ردالمحتار: ۳؍۳۰۲ ، باب المصرف) اسی لئے فقہاء حنفیہ کے نزدیک زکوٰۃ کے سوا تمام صدقات واجبہ ، نیز صدقۃ الفطر غیر مسلموں کو دیا جاسکتا ہے اور صدقات نافلہ تو بدرجۂ اولیٰ ، (دیکھئے : درمختار مع الرد : ۳؍ ۳۰۱) پس غیر مسلم اقلیت کو تمام معاشی سہولتیں دی جائیں گی ، خاص طورپر بیمار ، معذور ، آفت زدہ ، مفلس اور قدرتی مصائب سے دوچار ملک کے تمام شہریوں کی انسانی بنیادوں پر مدد کی جائے گی ۔
۱۰- غیر مسلموں پر شخصی حیثیت سے ایک خاص ٹیکس جزیہ کا اور زرعی پیداوار پر خراج کا لیا جائے گا ، عورت ، نابالغ بچہ، فاتر العقل ، سن رسیدہ بوڑھا ، اپاہج اور دائم المریض اشخاص نیز معاشی اعتبار سے کمزور افراد پر جزیہ کا ٹیکس عائد نہیں ہوگا ، (أحکام أہل الذمۃ : ۱؍ ۴۸، ۵۲ ، ۵۳ ، ہدایۃ ، باب الجزیۃ) جزیہ کی مقدار بہت ہی معمولی ہے ، جزیہ کے عوض حکومت ان کی حفاظت کا ذمہ لیتی ہے اور چوںکہ مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے ، اگر ان سے بھی زکوٰۃ لی جاتی تو یہ ان کو ایک اسلامی عبادت پر مجبور کرنے کے مترادف ہوتا ؛ اس لئے ان پر ایک خصوصی ٹیکس عائد کیا گیا ہے ، جو پہلے سے ایران وغیرہ کے علاقہ میں مروج تھا ۔
جیسے مسلمانوں سے ان کی زرعی پیداوار میں عشر لیا جاتا ہے ، جو ایک طرح کی عبادت ہے ، اسی طرح غیر مسلموں سے بجائے عشر کے خراج لیا جاتا ہے ، جس کی مقدار معمولی ہے اور جو سیلاب یا سوکھا پڑجانے کی صورت میں معاف ہوجاتا ہے ، (ہدایۃ ، باب العشر والخراج) یہ ٹیکس غیر مسلموں کی تذلیل نہیں؛ بلکہ ملک کی انتظامی ضرورتوں کو اس طرح پورا کرنا ہے کہ ان پر زکوٰۃ و عشر جیسی خالص اسلامی عبادتیں لازم قرار نہ دی جائیں ؛ کیوںکہ یہ مذہبی آزادی کے مغائر ہوتا ۔
اسلام کی ان ہی تعلیمات کا اثر ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے زیر اقتدار غیر مسلم اقلیت یا اکثریت کے ساتھ بہتر سلوک کیا ہے اور آج بھی مسلم ممالک میں غیر مسلم بھائی پوری آزادی اور سہولتوں کے ساتھ مقیم ہیں ، اسرائیل میں صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے گھر پر بلڈوزر چلا دیئے جاتے ہیں اور بغیر کسی سبب کے انھیں جلا وطن کردیا جاتا ہے ؛ لیکن اسرائیل ہی کے پڑوس میں مصر اور شام کو دیکھئے اور ذرا آگے بڑھ کر ایران و عراق پر نظر ڈالیے کہ وہاں یہودی اور بعض قدیم عیسائی فرقے پوری راحت اور سکون کے ساتھ مقیم ہیں ، انڈونیشیا سب سے بڑی مسلم آبادی کا ملک ہے وہاں عیسائیوں کو نہ صرف آزادی حاصل ہے ؛ بلکہ یہ آزادی بعض اوقات مسلمانوں پر زیادتی کی شکل اختیار کرلیتی ہے ، ہندوستان کے مختلف خطوں میں تقریباً ایک ہزار سال مسلمانوں نے حکومت کی ؛ لیکن ہندوؤں اور بدھسٹوں کے بڑے بڑے تاریخی مندروں کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا ؛ بلکہ مسلمان حکومت نے ان کے لئے بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں اور مذہبی پیشواؤں کے لئے خصوصی مراعات رکھی گئیں، ہندو مؤرخین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے ۔
مگر بڑے افسوس کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ نامنصفانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور مغربی معاشرہ میں ’’ اسلاموفوبیا ‘‘ کی ایسی مہم برپا کی گئی ہے کہ ہر شخص اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ ہوجائے اور اسلامی شعائر و علامات سے لوگوں کے دلوں میں نفرت بیٹھ جائے ، جو ممالک جمہوریت وسیکولرزم کا نام لیتے ہیں اور اپنے آپ کو حقوقِ انسانی کا علمبردار کہتے ہیں ، ان کے یہاں حال یہ ہے کہ مذہبی شعائر اور مذہبی شخصیتوں کے احترام میں امتیاز برتا جاتا ہے ، انبیاء بنی اسرائیل کی توہین تو قانوناً ممنوع ہے اور یقینا ہونی چاہئے ؛ لیکن پیغمبر اسلام اور دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کے معاملہ میں گستاخانہ رویہ کو اظہار خیال کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے ، لوگوں کو بے لباس تو چلنے کی اجازت ہے ؛ لیکن مسلمان عورت کو حجاب یا نقاب پہننے اور مردوں کو داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے ، یہاں تک کہ مسجد کے مینارے بھی ان کی آنکھوں کا تیر بن گئے ہیں ، کیا یہی انسانی حقوق کی پاسداری ہے اور یہی اقلیت کے حقوق کی رعایت ہے ؟ پھر ہمارے ملک ہندوستان میں صورت حال یہ ہے کہ ممبئی کے فرقہ وارانہ فسادات میں جو مسلمان مارے گئے ، ان کے سلسلہ میں سری کرشنا رپورٹ کو دبا دیا گیا اورکوئی کارروائی نہیں ہوئی ؛ حالاں کہ اس کے رد عمل میں ہونے والے بم بلاسٹ کے مرتکبین کو کیفرِکردار تک پہنچایا گیا ، ہم ان کے خلاف کارروائی کے مخالف نہیں ہیں ؛ لیکن انصاف کے دو پیمانے نہیں ہونے چاہئیں ، بابری مسجد دوپہر کی دھوپ میں اور الیکٹرانک میڈیا کے سامنے شہید کی گئی اورمسجد پر حملہ کرنے والوں کی تصویریں بھی شائع ہوئیں اور اس جرم میں شریک ہونے والوں نے علی الاعلان اس کا اعتراف کیا اور اس پر فخر کا اظہار بھی کیا ؛ لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، گودھرا کے واقعہ میں ملوث لوگوں پر تو بلا تحقیق جنگل کا قانون ’’ پوٹا ‘‘ نافذ کیا گیا ؛ لیکن گجرات میں شہید ہونے والے دو ہزار مسلمانوں کی آہ کسی نے نہیں سنی اور حکومت نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی ، یہ ایک واضح مثال ہے مسلمان اقلیت کے حقوق کو تلف کرنے کی اور مظلوم کو ظالم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ، جس پر آج مغرب سے مشرق تک پوری دنیا کا عمل ہے ۔
غرض کہ سیالکوٹ میں جو واقعہ پیش آیا، وہ ایک بدبختانہ واقعہ ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے معتبر علماء نے اس عمل کی مذمت کی ہے۔