کلیدی خطاب
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب
(جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)
فیملی فرسٹ گائڈنس سینٹر (جامع مسجد ممبئی) کے افتتاح کے موقعہ پر “عائلی، نفسیاتی اورمعاشی مسائل اور ان کا حل ” کے عنوان سے انجمن اسلام سی ایس ٹی ممبئی میں مورخہ ١۸/جون ٢۰٢٢ء کو یک روزہ ورکشاپ منعقد ہوا، جس میں مفتیان کرام اورقضاۃ کرام کے علاوہ موضوع سے متعلق ڈاکٹروں نے بھی شرکت کی۔ اس میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم جنرل سیکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیانے افتتاحی خطاب فرمایا۔ احقرنے اس کو بروقت قلمبند کرلیا تھا، افادہ عام کے لئے اس کو شائع کیا جارہا ہے۔ فقط (محمد ریاض ارمان قاسمی نائب قاضی شریعت دارالقضاء ناگپاڑہ ممبئی)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!
آج بہت خوشی ہورہی کہ آج کی مجلس میں علماء ، فقہاء اور خبراء بھی ہیں ۔علماء دینی معلومات رکھنے والے کو کہتے ہیں اور فنی معلومات رکھنے والے کو خبیر کہتے ہیں ۔ بہت سے معاملات میں خبیر کی رائے پر قاضی کو فیصلہ کرنا چاہئے ۔اس سلسلہ میں ایک بات عرض ہے کہ علماء اور دانشور طبقہ وہ ہیں،جو بہت کم محسوس کرتے ہیں ،کہ ہمیں اور جاننے کی ضرورت ہے، یعنی ہر طبقہ مگن ہے، حالاں کہ علم کی پہلی منزل ہی احساسِ جہل ہے۔ ہم جو جانتے ہیں وہ بہت کم ہے اور جو نہیں جانتے ہیں وہ بہت زیادہ ہے۔اس احساس کی وجہ سے انسان سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔انسان اپنے بچوں سے بھی سیکھتا ہے ،صرف ماں باپ بچوں کو نہیں سکھاتے ہیں،بلکہ بچے بھی بعض اوقات ماں باپ کو سکھاتے ہیں ،طلاق غضبان کی ابھی بات آئی ہے ،بعض لوگ گھر میں غصہ کرنے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں ، ایک صاحب اپنی بیوی کوبہت ڈانٹتے تھے ،کچھ نہیں ملتا تھا ، تو کہتے تھے کہ تم بہت فضول خرچی کرتی ہو، بیوی جواب دیتی، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اعتراض کرنےکے لئے کچھ ملانہیں توبھی اعتراض کیاکہ آج پھر تم نے فضول خرچی کی ہے۔ بیوی نے سوال کیا کہ میں نےکہاں فضول خرچی کی ہے بتائیے؟ تو شوہر نامدار نے کہا کہ سر میں ایک چوٹی باندھ سکتی تھی تم نے دو چوٹی کیوں باندھی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ آدمی بیوی سے لڑسکتا ہے ،اپنے بچوں سے نہیں لڑسکتا ہے ،بلکہ بچوں کا غصہ برداشت کرنا پڑتا ہے،غصہ کو برداشت کرنے کے لیے ماہر نفسیات نے جو باتیں کہیں ہیں وہ باتیں حدیث شریف میں موجود ہے۔کاؤنسلنگ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔اس سے بنیادی مسائل حل ہوتے ہیں ۔ فتوی اور فیصلہ سے جواب مل جاتا ہے ، مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے اور فیصلہ کینہ اور حسد کی کیفیت پیدا کرتا ، فتوی اور فیصلہ سے مسئلہ کی نوعیت کا جواب مل جاتا ہے۔ مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے،اس سے دلوں کی دوریاں دور نہیں ہوتی ہیں،باہمی مفاہمت سے مسائل حل ہوتے ہیں،فاصلے ختم ہوتے ہیں ،دوریاں ختم ہوتی ہیں ۔آپس کی تلخیاں دور ہوتی ہیں ۔آپ ﷺ نے ضرورت کے لحاظ سے کاؤنسلنگ کی ہے ۔
ایک نوجوان آپﷺ کی مجلس میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اسلام کی تمام باتوں پر عمل کروں گا ،البتہ زنانہیں چھوڑوں گا ،آپﷺ اس کو اپنے پاس بٹھاتے ہیں اور اس کی کاؤنسلنگ کرتے ہیں ،آپﷺ نے فرمایاکہ اچھا بتاؤ کوئی شخص یہی کام تمہاری بیوی کے ساتھ کرے، کیا تم برداشت کروگے؟ اس نے کہا نہیں ، اس سے پوچھا یہی کام کوئی تمہاری بہن کے ساتھ کرے کیا تم برداشت کروگے ،اس نے کہا بالکل نہیں ،پھر آپ ﷺ نے پوچھا کوئی یہی کام تمہاری ماں کے ساتھ کرے کیا تم برداشت کروگے؟ اس نے جواب دیا میں اس کو قطعی برداشت نہیں کرسکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسی طرح کوئی دوسرا شخص بھی نہیں چاہتا کہ تم اس کی بیوی ،بہن،ماں اور خالہ کے ساتھ یہ کام کرو،اس شخص کو بات سمجھ آگئی اور اس نے اس برے ارادہ سے توبہ کیا اور آپ ﷺ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دعا کی ۔یہ کاؤنسلنگ کی ہی ایک شکل ہے ۔
اسی طرح ایک صاحب کو اپنے بچہ کے بارے میں شبہ تھا ،ان کے رنگ او ر بچے کے رنگ میں فرق تھا ،حضور ﷺ نے اس کو اونٹ کی مثال دی اور کہا کہ کیا ایسا نہیں ہےکہ کسی اونٹ اوراس کے بچےکے رنگ میں فرق ہوتاہے؟انھوں نے کہا کہ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کے اوپر کی نسل میں اس رنگ کا اونٹ رہا ہو، تو آپ ﷺ نے فرما یا کہ ایسا تمہارے اوپر کی نسل میں بھی تو ہوسکتا ہے۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ کا رنگ کھلا ہوا تھا ،اور حضرت اسامہ رضی اللہ کا رنگ ڈھکا ہوا تھا ،منافقین حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے نسب پر انگلی اٹھاتے تھے ،اتفاق سے حضرت زید اور حضرت اسامہ دونوں ایک جگہ چادر اوڑھے ہوئے سوئے تھے ،اور دونوں کے تلوے کھلے ہوئے تھے ،ان کے پاس سے ایک قیافہ شناس کا گذر ہوا ، اس نے حضرت زید اور حضرت اسامہ کے تلوے کو دیکھ کر کہا کہ ان دونوں سونے والوں میں باپ بیٹے کا رشتہ ہے ،جب حضور ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے اس کا تذکرہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان کیا ،تاکہ غلط فہمی کا ازالہ ہو، اور ماحول جو منافقین نے خراب کر رکھا ہے وہ درست ہو۔اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس زمانہ کے ٹکنا لوجی سے فائدہ اٹھایا ، حالاں کہ حنفیہ کے یہاں قیافہ شناسی حجت شرعی نہیں ہے۔البتہ شوافع کے یہاں بعض معاملات میں اعتبار ہے۔
کسی مجلس میں ایک مالدار شخص آیا صحابہ اس کی مالداری کو دیکھ کر متاثر ہوگئے ،آپ ﷺ نےمجلس میں بیٹھتے ہی فرمایا ،لا عیش الا عیش الآخرۃصحابہ مالدار کی حالت کو دیکھ کر متاثر تھے آپﷺ نے بیٹھتے ہی ان کے ذہن کو بدل دیا اور کہا دنیا کی زندگی اصل زندگی نہیں ہے یہ بھی کاؤنسلنگ کی ایک صورت ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کاؤنسلنگ کے تین طریقے کو بیان کیا ہے ،اور اس میں لوگوں کی حالت کا بہتر طور پر اعتبار کیا ہے۔ ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ(سورۃ النحل:١٢٥)
پہلا طریقہ غافلین کی کاؤنسلنگ کا بتا یا کہ ان کے ساتھ مواعظ حسنہ سے کام لیا جائے ،یہ طریقہ میاں بیوی ،باپ بیٹا ، دو بھائیوں کے درمیا ن کاؤنسلنگ کا مفید ہوگا۔
دوسرا طریقہ جاہلین اور ہٹ دھرم قسم کے لوگوں کی کاؤنسلنگ کا ہے۔قرآن نے ان کےبارے میں کہا ہے: جادلھم بالتی ھی احسن یعنی جو لوگ کسی چیز کے منکر ہوں، ان کو دلیل کے ساتھ قائل کرو،اس میں احسن اسم تفضیل کا صیغہ استعمال کیا ہے، اس میں مبالغہ ہے کہ ایسے لوگوں سے ڈیبیٹ کیا جائے اور ان کو عمدہ دلائل سے اپنی بات سمجھائی جائے۔
ایک معاملہ حیدر آباد میں میاں بیوی کا آیا اس میں بیوی نے کہا کہ مجھے شوہر سے الگ بٹھا یا جائے ورنہ وہ بدمعاش قسم کا آدمی ہے وہ مجھ پر تیزاب پھینک دے گا ۔جب وہ صاحب آئے تو اس سے بات کی گئی اور قرآن ہاتھ میں دے کر قسم لی گئی وہ کانپنے لگا اور کہا کہ پولس والوں نے میری کتنی پٹائی کی مجھے یاد نہیں اور میں بھی کتنی مرتبہ پولس والوں سے لڑا یہ بھی مجھے یاد نہیں ،کبھی خوف زدہ نہیں ہوا ،آج آپ نے مجھ سے قرآن دے کر قسم لی تو مجھ پر خوف طاری ہوگیا۔بہر حال مواعظ حسنہ ان کے لیے ہے جو غلطی کر رہا ہو لیکن اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہوجیسے پوتی کا مسئلہ ابھی کسی مقرر نے بیان کیا کہ چچا کی موجودگی میں اس کو حصہ نہیں ملے گا ،لیکن اگر اس کے والد نے دادا کے کاروبار میں محنت کی ہو اور اس سے کچھ کمایا ہو تو اس میں اس کو حصہ ملے گا ۔یہ وہ دلیل تھی جو چچا کو سمجھ میں آگئی اور معاملہ افہام وتفہیم کے ذریعہ حل ہوگیا ۔
تیسرا طریقہ اذا خاطبھم الجاھلون قالواسلاما کا ہے،اس کی مثال میڈیا کے ڈیبیٹ کے بائیکاٹ کی ہے ۔وہ مسلمانوں کو ان کی بات سننے کے لیے نہیں بلاتے ہیں ،بلکہ ان کو یا تو بات کرنے کا موقعہ ہی نہیں دیتے ہیں ، بلکہ بسااوقات ان کی بات توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں ،اور ان سےطرح طرح کے بے جا سوالات کرتے ہیں ۔
صلح کرانا بہترین عمل ہے ،اللہ تعالیٰ نے صلح کو خیر کہا ہے۔ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ (القرآن)۔ آپﷺ نے ہمیشہ جماعت سے نماز پڑھی ،حتی کے جنگ کے موقع پر بھی صلاۃ الخوف پڑھی جاتی ہے ،سوائے جنگ خندق کے اور بنو سلمٰی کے خاندان کو سمجھا نے گیے ہوئے تھے ،صحابہ کرام مسجد نبوی میں عصر کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے تھے،عصر کی نماز کا وقت ختم کے قریب ہوگیا ،حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ آپ نماز پڑھا دیں تو آپ نے کہا کہ میں آپ ﷺ کے رہتے ہوئے نہیں پڑھا سکتا ،آپ پر احترام کا غلبہ تھا ،پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو نماز پڑھانے کو کہا تو آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے ،آپ رضی اللہ عنہ پر اطاعت رسول ﷺ کا غلبہ تھا اورحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ پر احترام رسول کا ،نماز کے دوران ہی آپ ﷺ تشریف لے آئے ،تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تو آپ ﷺ نےاشارہ سے منع فرمادیا ۔اس واقعہ میں ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺ خود بنو سلمہ کے پاس چل کر گئے ۔قاضی کا مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ لوگوں کے گھر نہیں جاسکتا ہے ،البتہ ائمہ کو چاہئے کہ اگر صلح کا موقعہ ہو اور ان کو جانکاری ہو تو ان کو لوگوں کے صلح کے لیے گھروں پر جانا چاہئے ،یہ انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ اگر ہمیں کوئی بلائے گا تو میں جاؤں گا ،ورنہ نہیں۔لڑائی کے بعد سر پھوٹنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے ، دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپﷺ نے صلح کےلئے جماعت کے چھوٹنے کو گوارہ کیا اور صلح کی کوشش کی ۔
کاؤنسلنگ اہم کام ہے ،اس کا کام جہاں تفہیم ہے وہیں اس سے اہم کام تربیت کا ہےجیسے مکاتب میں کلمہ یاد کراتے ہیں ،بڑھاپے تک کلمہ یاد رہتا ہے ،ہم اپنی نسلوں کو معاملات کا طریقہ نہیں بتا تے ہیں ،تجارت کی سنت کیا ہے ،کیا مناھی ہیں،معلوم نہیں ہے ،باپ ہبہ کرنا چاہتا ہے ،لیکن وہ ہبہ اور وصیت کا فرق نہیں جانتا ہے ، ہبہ میں وسعت ہے ،اور وصیت میں تحدید ہے،لوگ ان دونوں کو ایک کر دیتے ہیں ،آج کل اپنی حیات ہی میں تقسیم کردینا ٹھیک ہے، کیوں کہ بعد میں ظلم و زیادتی ہوتی ہے ، مرحوم کی بیوی یعنی ماں کاحصہ نہیں نکالاجاتاہے،حالاں کہ والدہ کو شوہر کے انتقال کے بعد بہت ضرورت ہوتی ہے ۔علاج کے لیے دوسرے کاموں کے لیے بچوں میں لڑائی ہوتی ہے ، بعض دفعہ بچوں سے زیادہ ماں کو ضرورت ہوتی ہے،ہبہ میں برابر دینا چاہئے اولاد کو ۔نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں بشیر کی دو بیویاں تھی ،ایک بیوی کے بچے کو دے رہے تھے دوسری بیوی کی اولاد کو نہیں دے رہے تھے ،تو آپ ﷺ نے گواہ گواہ بننے سے انکار کر دیا ،ایک رائے فقہاء کی ہے کہ برابر دے ،دوسری رائے امام ابویوسف اور امام احمد بن حنبل ؒ کی ہےکہ نزاع کو ختم کرنے کے لیے جو ھبہ کیا جائے ، بطور وراثت تقسیم کیاجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ہبہ کی شرطیں میں بہت سخت ہیں، ہبہ مقسوم ہو، اکثر ہبہ نامے شرطوں پر نہیں اترتے ہیں ۔ہبہ نامہ کا فارم بناتےوقت اس کی ساری شرطوں کو ملحوظ رکھنا چاہے۔طلاق کے معاملہ میں بھی غلط فہمی ہے ،حتی کہ سپریم کورٹ کے وکلاء کو بھی غلط فہمی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہر طلاق اور میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد ایک ساتھ دوبارہ رہنے کے لیے حلالہ ضروری ہے ۔حالاں کہ حلالہ صرف ایک اتفاقی چیز ہے کہ پہلے شوہر نے طلاق مغلظہ دے دی اور عورت نے دوسری شادی کر لی ،اورپھر دوسرے شوہر کا انتقال ہو گیا تو پھر سابق شوہر سے شادی کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔اس میں بھی مردوں کی زیادتی کو روکنے کے لیے یہ حکم دیا گیا تھا کہ پہلے مرد سو سو طلاق دے کر بیوی کو اپنے نکاح میں روک لیتا تھا او ر ظلم کرتا تھا ،اس لیے حکم دیا گیا کہ طلاق مغلظہ دے کر پھر عورت پر ظلم کرنے کے لیے نہیں رکھ سکتے ہیں ۔
صلح عبادت سے بہتر ہے ،آپﷺ نے صلح کو عبادت پر فوقیت دی ،آپﷺ نےحضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا یہ میرا نواسہ ہے جو مسلمانوں کے دو گروہ کے درمیان صلح کرائے گا ،اس لیے حقیقت میں قائد وہ ہے جو لوگوں کے اختلاف کی صورت میں لوگوں کے درمیان جا کر صلح کرائے ۔
واخردعواناان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭٭