شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
انسان کا دل یوں تو دیکھنے میں جسم کا ایک ٹکڑا ہے ؛ لیکن اسی ٹکڑے میں خواہشات کی ایک دنیا بسی ہوئی ہے ، اس کی حرص و ہوس کا حال یہ ہے کہ اگر ہفت اقلیم حاصل ہوجائے تب بھی آسودہ نہ ہو ، اور ’’ ھل من مزید‘‘ کی صدا جاری رہے ، خواہشات کی کثرت انسان کو ٹکراؤ کی طرف لے جاتی ہے ؛ کیوںکہ اس دنیا میں کروڑوں انسان بستے ہیں ، اگر ایک انسان اپنی تمام خواہشات کو پورا کرنا چاہے ، تو اسے اس بستی میں بسنے والے بہت سے انسانوں کو خواہشات کا خون کرنا ہوگا ، اس کے بغیر وہ اپنی تمام چاہتوں کو پورا نہیں کرسکتا ، انسان کی ان ہی ان گنت اور بے شمار خواہشوں اور چاہتوں کو کنٹرول میں رکھنے ، دوسروں کے ساتھ ظلم وزیادتی کو روکنے اور اخلاقی حدود سے باہر نہ جانے کی غرض سے قانون بنائے جاتے ہیں ؛ اسی لیے کسی بھی انسانی معاشرہ کے لیے قانون کی بڑی اہمیت ہے ۔
قانون انسان کو مہذب بناتا ہے ، قانون کے ذریعہ ہر شخص کو اس کا جائز حق ملتا ہے ، قانون انسان کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق میں بے جا مداخلت نہ کرے ، قانون اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ انسان اخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے زندگی گزارے ، کوئی گروہ قانونی نظام کے بغیر مہذب اور شائستہ زندگی نہیں گزار سکتا ؛ اس لیے کسی بھی ملک میں نظام حکومت تین شعبوں پر منقسم ہوتا ہے ، مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ، مقننہ کا کام قانون بنانا ہے ، اسلام میں قانون کا اصل سر چشمہ اللہ تعالی کی ذات ہے : إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّٰهِ(یوسف ۶۷) لیکن انتظامی قوانین وضع کرنے کا حق حکومت کو حاصل ہے ، عدلیہ قانون کی تشریح کرتی ہے اورجہاں ابہام ہو وہاں اس کی مراد متعین کرتی ہے ، انتظامیہ قانون کو نافذ کرتی ہے ۔
قانون کے نفاذ میں ایک اہم پہلو قانون کی حفاظت کا ہے ، اس بات کی نگرانی بھی ضروری ہوتی ہے کہ کہیں کوئی بندۂ ہوس قانون کو توڑنے کا مرتکب تو نہیں ہورہا ہے ، وہ دوسروں پر ظلم تو نہیں کررہا ہے ؟ دوسروں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے کا مرتکب تو نہیں ہورہا ہے ؟ قانون اور حقوق کی حفاظت کی یہ ذمہ داری اندرون ملک جس گروہ سے متعلق ہے ، وہ ہے ’’پولیس ‘‘ ، پولیس ہی معاشرہ کو کنٹرول کرتی ہے ، لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ بےجا خواہشات کو اپنے کنٹرول میں رکھے اور ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی نہ ہونے پائے ، اس لئے معاشرہ میں عدل و انصاف کو قائم رکھے اور ظلم و زیادتی اور حق تلفی سے بچانے میں پولیس کا نہایت اہم رول ہے ۔
جو پولیس واقعی ان مقاصد کو پورا کرے ، وہ لوگوں کی آنکھوں کا تارا بن کر رہ سکتی ہے ، مذہب اور اخلاق کے ترازو میں بھی اس کا بڑا درجہ ہے ، عدل کو قائم کرنا اور معاشرہ کو ظلم سے بچائے رکھنا اتنی بڑی نیکی ہے کہ ایمان کے علاوہ شاید ہی کوئی اور نیکی اس کا مقابلہ کرسکے ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو : وإذا حکمتم فاعدلوا (مجمع الزوائد:۵؍۱۹۵) ایک اور روایت میں ہے کہ انصاف کرنے والے اللہ کے دائیں جانب نور کے منبر پر ہوں گے ، یہ وہ لوگ ہوں گے ، جو فیصلہ میں بھی انصاف کو قائم کریں گے، اپنے اہل و عیال کے سلسلہ میں بھی انصاف کو قائم رکھیں گے ، اور جن لوگوں پر ذمہ دار بنایا جائے ، ان کے بارے میں بھی : الذین یعدلون في حکمہم وأھلیہم وما ولوا (مسلم، حدیث نمبر: ۱۸۲۷) آپ ﷺ نے اپنے ایک ارشاد میں تین باتوں کو نجات کا ذریعہ بتایا ہے ، ان میں پہلے نمبر پر آپ ﷺ نے جو بات ذکر فرمائی ، وہ یہ ہے کہ انسان غصہ میں بھی اور خوشی میں بھی انصاف پر قائم رہے : العدل فی الغضب والرضا (مجمع الزوائد:۱؍۹۱) ہر دن انسان انصاف کا جو برتاؤ کرے گا، اس کا شمار بھی صدقہ میں ہوگا :کل یوم تطلع فیہ الشمس یعدل بین الناس صدقۃ۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۲۷۰۷)
عدل و انصاف کے مقابلہ میں ظلم و زیادتی ہے ، پولیس کا بنیادی فریضہ معاشرہ میں ظلم وزیادتی کو روکنا ہے ، ظلم و زیادتی کو روکنا در اصل پورے سماج کا اخلاقی و مذہبی فریضہ ہے ، پولیسگویا اس ذمہ داری کو پورے معاشرہ کی طرف سے ادا کرتی ہے ، شرک کے بعد اسلام کی نظر میں ظلم جس قدر مذموم فعل ہے ، شاید ہی کسی اور فعل کو اس درجہ مذموم قرار دیا گیا ہو ، آپ ﷺ نے مظلوموں کی مدد کرنے کا حکم دیا : أعینوا المظلوم (ترمذی، حدیث نمبر:۲۷۲۶)آپ ﷺ نے اس بات سے اللہ کی پناہ چاہنے کی تلقین فرمائی ہے کہ انسان ظلم کرے یا اس پر ظلم کیا جائے : تعوذوا باللّٰه من … أن تظلم أو تظلم (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۱۵۴۴) — مظلوم کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی دُعاء پر آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اللہ فرماتے ہیں : میرے غلبہ کی قسم ! میں اس کی مدد ضرور کروں گا ، خواہ کچھ عرصہ بعد ہو : وعزتي لأنصرنک ولو بعد حین(ترمذی، حدیث نمبر: ۳۵۹۸)
ظالم کو ظلم سے روکنا نہ صرف مظلوم کی مدد ہے ؛ بلکہ یہ ظالم کی بھی مدد ہے ؛ کیوںکہ یہ اس کو غلط راستہ سے بچانا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ، صحابہ ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم مظلوم کی مدد تو کریں گے ؛ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کی جائے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ظالم کی مدد یہ ہے کہ ظلم سے اس کے ہاتھ تھام لو : أن تأخذوا فوق یدہ (مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۷۸) — پس انصاف کا قائم کرنا اورظلم کو روکنا دونوں ہی بات مذہب اور اخلاق کی نگاہ میں نہایت اونچے درجہ کا عمل ہے ۔
اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ پولیس کو معاشرہ میں محبت اور قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ، مظلوم اور کمزور اسے دیکھ کر محسوس کرتے کہ ان پر رحمت کی گھٹا سایہ فگن ہوگئی ہے ، ظالموں اور مجرموں کو پولیس کا وجود خوف زدہ کرتا ، جرم کی طرف بڑھتے ہوئے قدم رُک جاتے اور ہر شخص کو اس بات کا یقین ہوتاکہ پولیس کا سلوک ان کے ساتھ منصفانہ اور خیر خواہانہ ہوگا اور اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی؛ مگر افسوس کہ اس وقت ہمارے معاشرہ میں پولیس ایک ایسی چیز ہے جس کا نام لے کر مائیں معصوم بچوں کو ڈراتی ہیں ، لوگ شاید درندوں سے بھی اس قدر خوف نہ کھاتے ہوں ، جتنا خوف انھیں پولیس سے ہوتا ہے ، یعنی پولیس کی تصویر اس کے پیشہ کے بالکل برعکس لوگوں کے ذہن میں بنی ہوئی ہے اور یہ تصویر دن بدن پختہ سے پختہ ہوتی جارہی ہے ۔
پولیس جن لوگوں کو گرفتار کرتی ہے ، ان میں زیادہ تر ملزم ہوتے ہیں ، یعنی ان پر جرم کا الزام ہوتا ہے ؛ لیکن ابھی یہ الزام ثابت شدہ نہیں ہوتا ، پولیس کا کام ہے کہ جرم کے شواہد عدالت میں پیش کرے اور ملزم کو مجرم ثابت کرے ، اور جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے اس کے ساتھ مجرم کا سا سلوک روا نہیں رکھے ، پولیس قانون کی محافظ ہے ، اسی لئے خود اس کو قانون پر پوری طرح عامل ہونا چاہئے ؛ لیکن پولیس جو رویہ زیر تحقیق مجرموں کے ساتھ اختیار کرتی ہے اورجھوٹے مقدمات ملزموں پر چلاتی ہے وہ درندوں کو بھی شرمندہ کرتے ہیں ، اور ان کا جھوٹ ہونا زبان زدِ عام و خاص ہے ، آئے دن پولیس کے گرفتار کردہ بے قصوروں کو عدالت رہا کرتی ہے اور پولیس پر پھٹکار لگاتی ہے، مار پیٹ کرنا ، گالی گلوج یہاں تک کہ کرنٹ کے ذریعہ تکلیف پہنچانا اور ملزموں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتوں کا ارتکاب گویا پولیس کے معمولات میں داخل ہے ، گجرات اور بمبئی کے فسادات میں پولیس نے جس حیوانیت کا ثبوت دیا ہے ، اس نے پوری دنیا میں ملک و قوم کو شرمندہ کیا ہے اور یقیناً ہندوستان کے سیکولرزم پر بد نما داغ ہے ۔
ان کوتاہیوں کا حل تربیت ہے ، پولیس کی اخلاقی اور فکری تربیت کا ایک ایسا جامع پروگرام ہونا چاہیے ، جو اس کی شخصیت کو ایک رحم دل انسان اور مظلوموں کے مدد گار کی حیثیت سے پیش کرے ، انھیں انسانی نفسیات کے بارے میں بتایا جائے ، ظلم و جور کی قباحتیں ان پر واضح کی جائیں ، انھیں ذہن نشیں کرایا جائے کہ ملزموں کے ساتھ ناروا سلوک اسے حقیقی معنوں میں ’’ مجرم ‘‘ بنا دیتا ہے ، اصل مقصد انصاف قائم کرنا اور لوگوں کو ظلم سے بچانا ہے ، اگر کسی انسان کے ساتھ ظلم و جور کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو پھر باغیانہ ذہن پروان چڑھتا ہے اور وہ ’’ تنگ آمد بہ جنگ آمد ‘‘ کے مصداق مرنے مارنے پر کمر بستہ ہوجاتا ہے ،ا سی سے دہشت گردی وجود میں آتی ہے ؛ اس لئے پولیس کی ظلم و زیادتی نہ صرف قانون کی پامالی اور اخلاقی قدروں کی خلاف ورزی ہے ؛ بلکہ یہ جرائم میں اضافہ اور دہشت گردی کی پیدائش کا سبب بھی ہے ، کاش ! ہماری حکومتیں اس پر توجہ دیں ۔
تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ ایک سے زیادہ خود گورنمنٹ کے مقرر کئے ہوئے کمیشنوں نے پولیسکے رویہ کی مذمت کی ہے ، اور انسانی حقوق کی تنظیمیں دہشت گردوں سے زیادہ ان ’’ سرکاری دہشت گردوں ‘‘ کی خونخواری کا رونا روتی رہتی ہیں ، تربیت کے اس نظام میں جہاں قانون اور مجرموں کے سلسلہ میں معزز عدالتوں کی ہدایات کو شامل ہونا چاہئے ، وہیں ماہر نفسیات ، سماجی رہنماؤں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت دوست مذہبی اسکالروں کی بھی شرکت ہونی چاہئے ، جو انھیں انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کی اہمیت ، رشوت ستانی اور ظلم و تعدی کی شناعت ، نیز بغیر ظلم و زیادتی کے ملزمین سے ان کی غلطیاں اگلوانے کے طریقوں کے بارے میں آگاہ کریں ، اور قانون کے محافظ کی حیثیت سے انھیں ایسے کردار کا حامل بنانے کی سعی کریں جو پریشان حال لوگوں کے درمیان مسیحا سمجھا جائے ، نہ کہ غارت گر اور لٹیرا ۔
عوام میں بھی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ حقیقی مجرموں کی پشت پناہی نہ کریں ، وہ ظالموں کے لئے معاون نہ بنیں ؛ بلکہ جو لوگ واقعی مجرم ہیں اور ان کے ظلم سے معاشرہ سسک رہا ہے ، ان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں قانونی اداروں کا تعاون کیا جائے ، لوگ عام طور پر اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے ، اس کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم وجور پنپتا ہے ، پولیس اگر اپنے فرائض کو صحیح طور پر انجام دے ، تو وہ عوام کی محسن ہے ؛ کیوںکہ بہت سی دفعہ اسے مسلح مجرموں کا مقابلہ کرنے نیز عوامی املاک کو ان کی ستم انگیزوں سے بچانے کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ عمل میں نکلنا پڑتا ہے ، بعض دفعہ امن و امان کو قائم رکھنے کے لئے مسلسل ۲۴؍ گھنٹے ڈیوٹی انجام دینی پڑتی ہے ، یہ کوئی معمولی خدمت نہیں ہے ؛ اس لئے پورے طبقہ کے بارے میں ایک ہی طرح کی منفی رائے قائم کرلینا حقیقت پسندی کے خلاف ہوگا ، عوام کو بھی چاہیے کہ وہ انصاف پسند اور ذمہ دار پولیس عہدیداروں کی حوصلہ افزائی کریں ، انھیں اپنا محسن سمجھیں ، اور سنجیدگی کے ساتھ ان تک عوامی جذبات پہنچائیں ؛ کیوںکہ بہت سی دفعہ باہمی غلط فہمی کی وجہ سے ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں ، جو نفرت اور عناد کو جنم دینے کا باعث ہوتے ہیں ۔