شمع فروزاں:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ہندو مذہب کے متکلمین نے زیادہ سے زیادہ قوموں کو اپنے اندر جذب کرنے کے لئے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ خداؤں کی تعداد کو بڑھایا جائے، کہا جاتا ہے کہ اصل ہندو مذہب میں ایک ہی خدا کا تصور تھا؛ چنانچہ مذہب اور تہذیب کے مشہور محقق اور مؤرخ ڈاکٹر گستاؤلی بان لکھتے ہیں:
ایک خدائے مطلق کا خیال جو تمام فانیوں اور غیر فانیوں کا خالق اور تمام انسانوں ، پتروں اور دیوتاؤں پر حاکم ہو، رگ وید میں بے شک پایا جاتا ہے؛ لیکن محض ایک خاکہ کی صورت میں۔ (تمدن ہندص: ۱۶۲)
یہ ایک سے تین اور تین سے تینتیس ہوئے، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں ہندو دیویوں اور دیوتاؤں کی تعدادتینتیس (۳۳) کروڑ تک پہنچ چکی ہے؛ چنانچہ ایک ہندو محقق لکھتے ہیں:
پھر یہ تعداد بڑھ کر تینتیس کروڑ تک پہنچ جاتی ہے، جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ دیوتاؤں کی بے شمار تعداد زندگی اور فطرت پر حکومت کر رہی ہیں؛ لیکن یہ بنیادی تصور کہ ایک خدا ارتقاء کر کے تین بن گئے، پھر تینتیس اور پھر روحانی قوت کے لا تعداد پہلوؤں میں تبدیل ہوگئے، منظر سے کبھی اوجھل نہیں ہوا، ( The culture heritage of india ص:۸۹)
دیوتاؤں کی اس کثرت کا یہ فائدہ اٹھایا گیا کہ مختلف گروہوں کے پیشواؤں کو خدا کے اوتار کا درجہ دے کر انہیں بھی ہندو قوم میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی، آریوں نے دراوڑیوں پر پہلے بڑے مظالم ڈھائے اور ان کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی؛ لیکن جب اس میں پوری کامیابی نہیں مل سکی تو ان کو ہندو قوم کا حصہ بنانے کے لئے دراوڑ جن مورتوں کی پوجا کرتے تھے، ان کو اپنے معبودوں میں شامل کر لیا گیا، اہل علم جانتے ہیں کہ ایک زمانہ میں بعض ہندو لیڈروں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ مل جائیں، ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک اوتار مان لیتے ہیں، شاید اسی کوشش کا ایک حصہ یہ بھی ہو کہ ہندو مذہبی رہنماؤں نے کبھی ہندو مذہب کے عقائد وافعال متعین کرنے اور ہندو قوم کی حدود اربعہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی، کسی نے کہا جو ہندو ماں باپ سے پیدا ہو، وہ ہندو ہے، چاہے دھرم شاستروں کا عقیدہ رکھتا ہو یا نہیں، اسی معنی میں پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی ہندو مانا گیا ہے، کسی نے کہا جو سندھو دریا کے اِس پار پیدا ہوا ہو، وہ ہندو ہے، کسی نے کہا کہ جو کسی اور مذہب کو ماننے والے نہ ہوں اور ہندوستان اس کی جائے پیدائش ہو، وہ سب ہندو ہیں، یا یہ کہا گیا کہ جس کو ہندو ہونے سے انکار نہ ہو، وہ ہندو ہے، اسی پس منظر میں سنگھ پریوار کے موجودہ رہنما موہن بھاگوت بعض دفعہ ملک کے تمام باشندوں کو ہندو قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ ان کے آباء واجداد سب ہندو تھے، ہندو مذہب اور ہندو قوم کی غیر متعین تعریف کو بہت سے ہندو علماء ہندو مذہب کی وسعت قرار دیتے ہیں؛ مگر حقیقت میں کسی چیز کی حقیقت کا متعین نہ ہونا اور اس میں ناقابل وضاحت ابہام کا پایا جانا کوئی قابل تعریف بات نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک عیب ہے، جو اس تصور کے بے حقیقت ہونے کو ظاہر کرتا ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ کسی وجود کے بارے میں کہا جائے کہ یہ کتّا بھی ہے، گدھا بھی ہے، گھوڑا بھی ہے، اس کا نامعقول ہونا ظاہر ہے؛ مگر برہمنوں نے اس کا فائدہ یہ اٹھایا کہ انھوں نے بہت سے غیر ہندو گروہوں کو ہندو قوم کا حصہ بنا دیا۔
ایسا نہیں سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں کو اس کا نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی، آزادی سے پہلے جو آخری مردم شماری ہوئی اس میں بہت سے لوگوں نے مذہب کے خانہ میں اپنے آپ کو ’’محمدی ہندو ‘‘ قرار دیا، سندھ کی بعض برادریوں کو ’’حسینی برہمن ‘‘ کہا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ عجمی مسلمانوں اور خاص کر بر صغیر کے مسلمانوں میں مشرکانہ رسوم جس کثرت سے پائی جاتی ہیں، بعض دفعہ نظریہ کے اعتبار سے انبیاء اور اولیاء میں خدائی صفات کو مانا جاتا ہے اور عملی زندگی میں بھی مخلوقات کے ساتھ غلو آمیز تقدس کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ بعض دفعہ شرک صریح کا ارتکاب کیا جاتا ہے ، اس کے پیچھے برادران وطن سے تأثر کارفرما ہے، اسی لئے اس ملک میں جن شخصیتوں نے تجدیدی کارنامہ انجام دیا، مجدد الف ثانیؒ سے لے کر سید احمد شہیدؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒتک سب نے عقیدۂ توحید کو بے غبار کرنے اور مسلمانوں کو مشرکانہ رسوم وعادات اور افکار وتصورات سے بچانے پر سب سے زیادہ توجہ دی، اکبر کے دربار میں ہندو عالموں اور فلسفیوں کا غلبہ اور دین الٰہی کی ایجاد اور پھر گیتا کے شارح دارا شکوہ کے افکار اور منجانب اللہ اورنگ زیبؒ کی فتح مندی اور ہندو مذہبی مقدسات کے ساتھ ان کے فراخدلانہ عطیات اور حسن سلوک کے باوجود سنگھی مصنفین کے یہاں اورنگ زیب کی مذمت اور اس کے کارناموں کو نظر انداز کرنا یہ در اصل اسی بنیاد پر ہے کہ مسلمانوں کو ہندو تصور اور تہذیب میں جذب کرنے کی جو کوشش ہو رہی تھی، جس کے خلاف مجدد الف ثانیؒ نے پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھائی تھی، اورنگ زیب عالمگیرؒ نے سیاسی قوت کے ذریعہ اس کو پوری قوت کے ساتھ ناکام کر دیا تھا۔
ملک کی آزادی میں مسلمان پیش پیش تھے؛ حالانکہ اس تاریخ کو مٹانے کی بہت کوشش کی جا رہی ہے؛ لیکن انڈیا گیٹ ایک واضح ثبوت بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے، جس میں مجاہدین آزادی کے نام کندہ کئے گئے ہیں، اور ان میں ۰۶؍ فیصد سے زیادہ مسلمانوں کے نام ہیں، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ باوجودیکہ آر ایس ایس کی پیدائش ۴۲۹۱ء میں ہو چکی تھی اور ان کی کوشش تھی کہ ہندوستان کا دستور خالصۃََ اس تصور پر مبنی ہو، جس کو ان لوگوں نے ہندوتوا سے تعبیر کیا ہے، اور جو اس وقت ایک حد تک اکثریتی گروہ کے لئے سب سے زیادہ مقبول فکر ہے؛ لیکن مختلف گروہوں اور خاص کر مسلمانوں کی جنگ آزادی میں شرکت نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا، خود ڈاکٹر بی آر امبیڈکر برہمنیت کے مخالف، بلکہ اس کے باغی تھے، دستور ساز کونسل میں مختلف مسلم قائدین بھی تھے، اور جواہر لال نہرو جیسے سیکولر اور ایک حد تک کمیونسٹ ذہن رہنما جیسے افراد بھی اس میں شامل تھے؛ اس لئے ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی، اور پھر ہندتوا فلسفہ سے متاثر مجرمانہ ذہن کے حامل ایک شخص ناتھورام گوڈسے نے جب گاندھی جی کا قتل کر دیا تو اس سے وقتی طور پر پورا ماحول بدل گیا، اور لوگوں میں اس گروہ کا اصل مزاج واضح ہوگیا، اس سے ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں، اب ملک کے موجودہ حالات میں مختلف جہتوں سے مسلمانوں کو مرعوب ، بے وزن اور فکری اعتبار سے کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؛ تاکہ خدا نخواستہ ان کو ذہنی ارتداد کی طرف لایا جا سکے، اس کے لئے تخویف وترہیب اور ترغیب وتحریص دونوں طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں، جو کئی شکلوں میں سامنے آرہا ہے، مسلم آبادیوں سے جلوس لے جانے کی کوشش اور مسجدوں کی بے حرمتی، مسلمانوں کا ہجومی قتل بالخصوص غریب مسلمان تاجروں، آٹو ڈرائیوروں کو نشانہ بنانا، اسکولوں میں پڑھنے والے مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو رسوا اور ذلیل کرنا، مسلم عورتوں کو نشانہ بنا کر بے آبرو کرنا ، آئے دن اس طرح کی خبریں اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔
مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوشش بھی جا ری ہے، سرکاری ملازمتوں کا دروازہ بڑی حد تک مسلمانوں پر بند تھا؛ البتہ کچھ پرائیویٹ ملازمتیں مسلمانوں کو مل جاتی تھیں، خاص کر آئی ٹی سیکٹر کی ترقی اور غیر ملکی تجارتی کمپنیوں کی آمد کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کو روزگار کے کچھ بہتر مواقع حاصل ہو رہے تھے، اب اس پر بھی روک لگانے اور کمپنیوں کو مسلمان ملازم نہ رکھنے کا پابند کیا جارہا ہے، کچھ باہر کے ملکوں کی ملازمت اور کچھ پرائیویٹ کمپنیوں میں ملازمت کی وجہ سے مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو رہی تھی، انھوں نے تجارت کے میدان میں بھی قدم رکھنا شروع کیا ہے، یہ بات فرقہ پرست طاقتوں کو بہت کَھل رہی ہے، انھوں نے مسلمانوں کی دکانوں کا بائیکاٹ کرنے؛ یہاں تک کہ مسلم مزدوروں سے کام نہ لینے کی بھی اپیل کی ہے، مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وزن کرنے کی صورت حال یہ ہے کہ مسلم امیدوار کسی بھی پارٹی سے، یہاں تک کہ فرقہ پرست جماعت ہی سے کیوں نہ کھڑا ہو، غیر مسلم اسے ووٹ نہیں دیتے ہیں، مسلم مُکت وزارت، پارلیمنٹ اور اسمبلی بنانے کی دعوت دی جارہی ہے، اور اس پر پوری شدت کے ساتھ عمل بھی ہو رہا ہے۔
یہ تو امن وامان ، معیشت وسیاست کا پہلو ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مذہبی پہلو سے دو طرفہ حملہ ہے، ایک یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بھرپور سعی ہو رہی ہے، میڈیا کے ذریعہ جھوٹ اور فریب پر مبنی ایسے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں، جو اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کریں، اور اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے، اپنے آپ کو سیکولر کہنے کے باوجود اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ملک مخالف بنا کر پیش کیا جاتا ہے، میڈیا کے علاوہ تعلیم کے راستہ سے بھی اسلام اور مسلمانوں کو مطعون کرنے کی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں، نصاب تعلیم سے مسلمانوں کے پورے عہد کو نکال دیا گیا ہے، ملک کی تاریخ بدلی جا رہی ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان ۷۴۹۱ء میں دو سو سال کی نہیں؛ بلکہ دو ہزار سال کی غلامی سے آزاد ہوا ہے، نصاب تعلیم میں مسلمانوں کو ڈاکو اور قاتل کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے، ایک طرف یہ ساری تدبیریں مسلمانوں کو کمزور اور بے وزن کرنے اور احساس کمتری میں مبتلا کئے جانے کے لئے ہو رہی ہیں۔(جاری)