شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ہندوستان پر جب انگریزوں نے قبضہ کیا تو ہندؤوں اور مسلمانوں نے مل کر پوری قوت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا، اس سلسلے کی سب سے طاقتور اور ملک گیر کوشش ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی میں سامنے آئی ، اس تحریک میں ہندؤوں اور مسلمانوں کے باہمی اتفاق سے انگریزوں کی یہ سوچ بنی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کئے بغیر ہندوستان کو اپنے قابو میں نہیں رکھا جاسکتا ، اس لئے انھوں نے ایک کام علمی سطح پر کیا اور ایک کام سیاسی سطح پر کیا ، علمی سطح پر یہ کیا کہ ہندوستان کی ایک نئی تاریخ لکھی اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے ایسا مواد شامل کیا، جس سے ظاہر ہو کہ مسلمانوں نے اس ملک میں ہندو رعایا پر بڑے مظالم ڈھائے ہیں، ان کو جانی نقصان پہنچایا ہے ، ان کی دولت کو لوٹا ہے ، ان کی عزت و آبرو کو پامال کیا ہے ، ان کو جبراً مسلمان بنایا ہے اور ان کی عبادت گاہوں کو منہدم کیا ہے ۔
سیاسی سطح پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایسے گروہ پیدا کئے، جو مذہبی منافع کے داعی اورہندو مسلم اتحاد کے مخالف تھے ، ہندوؤں میں یہ فرقہ پرست لوگوں سنگھ پریوار کی شکل میں پیدا ہوئے ، آزادی سے پہلے اس نے انگریزوں کا آلۂ کار بن کر فرقہ پرستی کا ذہن بنایا اورآزادی کے بعد بھی منظم طورپر اس کام کو جاری رکھا ، یہاں تک کہ اپنے نفرت انگیز ایجنڈہ کے ذریعہ بام اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ، مسلم فرقہ پرستوں کو بھی انگریزوں نے خوب پروان چڑھایا اور مسلمانوں میں ایک ایسے گروہ کو اُبھارا گیا جو ایک قومی نظریہ کا پُرجوش داعی تھا ، اس تحریک نے پاکستان کی شکل میں اپنی کوششوں کا پھل حاصل کرلیا؛ اگرچہ پاکستان کی بنیاد لاکھوں مسلمانوں کی لاش پر قائم ہوئی ؛ لیکن بہر حال مسلم فرقہ پرستی نے پاکستان کو اپنی منزل بنایا اور ہندوستان بڑی حد تک اس سے خالی ہوگیا ؛ لیکن ہندو فرقہ پرستی پوری قوت کے ساتھ آج ہندوستان پر مسلط ہے ۔
اس کا نتیجہ ہے کہ آئے دن مسجد مندر اور مسلم حکمرانوں کے مظالم کی جھوٹی داستان میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جارہی ہے اور اب جھوٹ کو تاریخ کا حصہ بنایا جارہا ہے ، اس پس منظر میں مختلف زبانوں اور خود اُردو زبان میں بہت سارا لٹریچر شائع ہوچکا ہے ، ان ہی میں ایک بابری مسجد کا مسئلہ ہے ، اس مسئلہ پر جناب سید صباح الدین عبد الرحمٰنؒ ، (سابق ناظم دارالمصنفین اعظم گڑھ) جناب عبدالرحیم قریشیؒ(سابق اسسٹنٹ جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) اور جناب محمد مختار مکی(جمشیدپور، جھارکھنڈ) کی تحریریں بڑی اہم ہیں ، ان کتابوں سے اور بعض دیگر ماٰخذ سے استفادہ کرتے ہوئے یہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔
بابری مسجد کے مسئلہ میں کئی سوالات اہم ہیں :
(۱) کیا رام جی کا واقعی وجود تھا ، یا رامائن میں ایک علامتی اور افسانوی کردار کی حیثیت سے ان کا ذکر آیا ہے ؟
(۲) اگر رام جی کا حقیقی وجود تھا اور آپ ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے تو ایودھیا سے کونسی جگہ مراد ہے ؟
(۳) اگر آپ ایودھیا ہی میں پیدا ہوئے تو کس جگہ پیدا ہوئے تھے؟
(۴) کیا بابری مسجد کی جگہ پر کوئی مندر تھا اور بابر یا اس کے گورنر میر باقی نے مندر کو منہدم کرکے مسجد بنائی تھی ؟
رام جی ، ایک تاریخی شخصیت یا فرضی کردار ؟
رام جی سے اس قدر دیو مالائی اور محیر العقول واقعات رامائن کے مختلف نسخوں میں نقل کئے گئے ہیں کہ ان کی وجہ سے اور تاریخی شہادتوں کے مفقود ہونے کی وجہ سے بہت سے ہندو دانشور بھی اس کو ایک فرضی داستان سمجھتے ہیں ۔
۰ راج مندری (دکن) کے ملادی ونکٹ رتنم (Malladhi Venkat Ratnam) اپنی کتاب ’’ مصر کا فرعون، رام‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’رامائن ایک مصری فرعون رامسیز ثانی کی کہانی سے ماخوذ ہے ، خود رام کا نام ہندی الاصل نہیں بلکہ سامی الاصل ہے ، سیریا کے بادشاہ کا یہی نام تھا ، سیتا بھی ایک قدیم مصری نام ہے جو آج بھی دولت مند اور متمول گھرانہ میں عام ہے ، قاہرہ میں آج بھی ایک مسجد سیتا زینب کہلاتی ہے ، خود رامائن کے مطابق بالمیک ہندو نہیں بلکہ بدیسی نووارد تھا ، برہما نے اپنے بیٹے نرد کو آسمان سے اس داستان کو سنانے کے لئے بھیجا تھا اور یہ قصہ سنا کر وہ آسمان کی طرف لوٹ گیا ‘‘
ونکٹ رتنم کا بھی خیال ہے کہ یہ ایک مصری کہانی ہے جس کو ہندوؤں کے مزاج کے مطابق ایک مقدس رنگ و روپ دے دیا گیا ہے ، اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ رام نام کے کسی بادشاہ کا ذکر ہندوستانی تاریخ میں نہیں ملتا ، رامائن کے مطابق راجہ دسرتھ نے دس ہزار اور رام نے گیارہ ہزار برس تک حکومت کی تھی ، اگر ان دونوں کا زمانہ حضرت عیسیٰ سے پچیس ہزار سال قبل مان لیا جائے تو ان دونوں کا عہد حکومت چھیانوے ہزار سال قبل مسیح ہوتا ہے ، جب کہ رامائن میں ہی گوتم بدھ کا ذکر بھی موجود ہے جو کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں تھے ۔
۰ پروفیسر سنیتی کمار چٹرجی ۱۹۵۵ء کے بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کے ایک جرنل میں تحریر کردہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
’’رامائن کا قصہ ہومر سے مستعار لیا گیا ہے ؛ کیوںکہ دس سروں والے راکشش کا وجود یونانی تخیل کی بازگشت ہے ، ہندوؤں کے قدیم ترین خرافاتی ادب میں بھی ایسے راکشش کا ذکر موجود نہیں ہے ‘‘
۰ اِلٰہ آباد یونیور سٹی کے قدیم تاریخ کے پروفیسر آر پی ترپاٹھی کے مطابق ’’ کسی کردار کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے تاریخ یہ تقاضہ کرتی ہے کہ سکوں یا کندہ تحریروں وغیرہ کی ٹھوس شہادت موجود ہو ، اگر ہم اُن مقامات کو بھی نظر میں رکھیں جن کا ذکر رامائن میں آیا ہے ، جیسے : چتر کوٹ ، ایودھیا ، جو آج بھی موجود ہیں ، تب بھی حقیقت یہ ہے کہ رامائن ایک تاریخی کتاب نہیں ہے ؛ اس لئے اس نقطۂ نظر سے رام کے وجود کو ثابت کرنے کی کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے ، یہ کہنے کے باوجود رام کے وجود کا ہم آسانی سے انکار نہیں کرسکتے ؛ کیوںکہ ایک عرصہ دراز سے رام ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ رہے ہیں ‘‘ ۔
۰ ایس ستار (Satttar) سابق صدر نشین انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ کہتے ہیں کہ :
’’ رامائن میں ایسی کوئی شہادت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ یہ دیو مالائی قصہ کے سوا کچھ اورہے ، کوئی تاریخی یا آثارِ قدیمہ کی شہادت موجود نہیں ہے ، جس سے یہ ثابت ہو کہ رام کا وجود تھا اوریہ کہ انھوں نے ایودھیا پر حکومت کی ‘‘
۰ زمانے کی وقت شماری کے ہندویگ سسٹم کے مطابق شری رام ۲۴ ویں یا ۲۸ ویں تریتایگ کے اواخر میں پیدا ہوئے اور ہم کلیگ کے ۲۸ ویں دور میں ہیں ، اس لحاظ سے شری رام کا زمانہ قریباً (۱۸۰) لاکھ سال پہلے کا ہے ، دنیا میں کہیں بھی (۱۰) لاکھ سال پہلے کے کوئی آثار یا کوئی نشانیاں موجود نہیں ہیں ، رامائن وغیرہ میں اس وقت کے ستاروں اور برج کی جو کیفیت ملتی ہے ، اس کی بنیاد پر ماہرین نے حساب لگایا ہے کہ شری رام عیسیٰ علیہ السلام سے ۵۵۶۱ یا۷۳۲۳ سال پہلے پیدا ہوئے ہوں گے ؛ لیکن ایودھیا میں یا UP کے کسی اور مقام پر جن کے نام رامائن میں شری رام کے قصہ کے کسی واقعہ کے بارے میں ملتے ہیں ، وہاں عیسیٰ علیہ السلام سے ۶۰۰ سال پہلے ماضی میں کوئی انسانی آبادی نہیں پائی گئی ، رامائن کی (Archaeology) نامی پروجیکٹ کے تحت ایودھیا کے بعض مقامات پر کھدائیوں سے یہ حقیقت سامنے آئی اور اس سوال کا مثبت انداز میں تاریخی اور آثار قدیمہ کی شہادتوں کے ساتھ جواب دینا تقریباً ناممکن ہے کہ رام ایک تاریخی شخصیت یا تاریخ میں گذرے ہوئے انسان تھے ۔ (ایودھیا کا تنازعہ: ۵۳-۵۴)
ایودھیا کا محل وقوع:
یہ تو مؤرخین اور اصحابِ تحقیق کا بیان ہے ؛ لیکن بہ طور فرض و تقدیر برادرانِ وطن نے رام جی کے وجود کو عقیدہ کا حصہ مان لیا ہے تو ہم بھی اس کو تسلیم کر لیں تو پھر سوال یہ ہے کہ ایودھیا سے کونسی جگہ مراد ہے ؟ وہی جگہ جو ابھی ایودھیا کہلاتی ہے یا کوئی اور جگہ ؟ اس میں بھی خاصا اختلاف ہے :
۰ آثار قدیمہ کے سابق ڈپٹی سپر ٹندنٹ ایم ، دی ، امین ، کرشنا راؤ نے دعویٰ کیا تھا کہ اصل ایودھیا ہریانہ کا مقام ’’ بناؤلی ‘‘ ہے اور ان کے بہ قول اس سلسلہ میں ان کے پاس دلائل بھی ہیں ۔ (قومی آواز، دہلی: ۶؍ مارچ ۱۹۹۸ء)
رام پور کے ایک پنڈت جی کا دعویٰ ہے کہ رام جی کی پیدائش کی اصل جگہ رام پور ہے اور اس سلسلہ میں ان کے پاس ثبوت ہے ۔
۰ نیپال کے سابق وزیر اعظم کے پی شرما کا بیان ایک سے زیادہ بار آچکا ہے کہ رام جی نیپال میں پیدا ہوئے تھے اور رامائن میں جس ایودھیا کا ذکر ہے ، وہ نیپال کے شہر بیر گنج سے مغرب میں واقع ہے ۔ (بی بی سی اردو نیوز:۱۵؍ جولائی ۲۰۲۰ء)
۰ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور اس سے قبل بنارس ہندو یونیور سٹی نے ایودھیا نندی گرام اور چتر کوٹ میں کھدائیاں کیں ؛ تاکہ شری رام کے دور کے آثار و واقعات کا پتہ لگایا جائے ، نندی گرام کو بھرت نے شری رام کے بن باس کے دوران پایہ تخت بنایا تھا اور چتر کوٹ میں شری رام نے کچھ عرصہ قیام کیا تھا ، ان کھدائیوں نے ثابت کیا کہ شری رام کے زمانہ میں ان مقامات کا کوئی وجود نہیں تھا ، ان مقامات پر شری رام کے زمانہ میں کوئی انسانی آبادی نہیں تھی ، ان مقامات پر انسانوں نے شری رام کے بہت بعد ہزاروں سال بعد بسنا شروع کیا ، اس لئے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے ۱۹۸۰ء کے بعد کھدائیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ (ایودھیا تنازعہ:۵۷، تالیف: جناب محمد عبدالرحیم قریشیؒ)
اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فی الحال جو جگہ ایودھیا سے موسوم ہے ، وہ وہ ایودھیا نہیں ہے ، جس میں رام جی کی پیدائش ہوئی تھی ۔
۰ آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کے جسو رام نے اپنی تحقیق ’’ رامائن کا قدیم جغرافیہ‘‘ کے نام سے مرتب کی ہے ، ان کی تحقیق کے مطابق دو الگ الگ ایودھیا ہیں ، ایک وہ جو رام سے پہلے بسایا گیا ، دوسرا : وہ جس کو رام نے بسایا ؛ چنانچہ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :
رامائن کے مطابق رام نے دریائے سریوپر پہلا شہر تعمیر کیا اور اس کا نام ایودھیا رکھا ، یہ دریائے سریو ، دریائے گھاگھرا نہیں ہے ؛ بلکہ رِگ وید کے مطابق دریائے سندھ میں گرنے والا دریا ہے ، اس دریا پر واحد قدیم شہر ہڑپہ ہے جو حصار بند ہے ، مہابھارت کے مطابق ایودھیا دریائے ایراوتی اور دریائے سریو کے درمیان واقع تھا ، اس لئے رام سے پہلے کا تعمیر کردہ ایودھیا رحمٰن ڈیری ہے اوربعد کا رام کا تعمیر کردہ ایودھیا ہڑپہ ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بی بی لال سے بھی گفتگو کی ، جنھوں نے اتفاق کیا کہ موجودہ ایودھیا شری رام کا ایودھیا نہیں ہے ، دو ایودھیا جن میں سے ایک کو رام کے پردادا راجا رگھو نے تعمیر کیا اور دوسرا ایودھیا جس کو خود رام نے تعمیر کیا ، یہ دونوں ایودھیا پاکستان کے شمال مغربی صوبہ کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ہیں ۔ (ایودھیا کا تنازعہ: ۶۰، تالیف: محمد عبدالرحیم قریشیؒ)
رام جی کی جائے ولادت
اگر ایودھیا وہی جگہ ہے جو اس وقت ’’ ایودھیا ‘‘ کہلاتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس شہر میں رام جی کی پیدائش کس جگہ پر ہوئی تھی؟ کیوںکہ اِس وقت ایودھیا میں ڈبلو اے تیاگی کے بہ قول ۲۳؍ ایسے مندر موجود ہیں جن کے بارے میں ان مندروں کے متولیوں کا دعویٰ ہے کہ یہی رام جی کی جائے پیدائش ہے ، پروفیسر سری واستو نے لکھا ہے کہ ۱۹۰۲ء میں رام جی کی اصل جائے پیدائش معلوم کرنے کے لئے باضاباطہ ایک کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی ، اس کمیٹی نے کافی تلاش و جستجو کے بعد دو مقامات کے بارے میں اندازہ لگایا کہ شاید یہ رام جی کی جائے پیدائش ہو ، ان میں سے ایک کا نام ’’ رام جنم استھل ‘‘ رکھا ، اور دوسرے کا ’’ رام جنم بھومی ‘‘ (Disputedmosque) یہ دونوں جگہیں بابری مسجد کے علاوہ ہیں ۔
سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر رادھاکرشن کے بیٹے پروفیسر ایس گوپال نے مدراس میں اپنے ایک خطبہ میں کہا کہ ایودھیا میں ۳۰ ؍ ایسے مقامات موجود ہیں ، جن کے پجاری کہتے ہیں کہ یہی اصل میں رام کا جنم استھان ہے ۔ (ہندوستان میں گمراہ کن تاریخ نویسی:۱۰۸، تالیف: ڈاکٹر مختار احمد مکی) (جاری)