موجودہ حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

’’مؤرخہ:۲۳؍۲۴؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو بنگلور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ۲۹؍ واں اجلاس منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے بورڈ کے ارکان ومدعوئین شریک ہوئے، ۲۳؍ کو صبح دس بجے افتتاحی اجلاس اور ۲۴؍ اکو بعد مغرب عیدگاہ میں عوامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں شرکاء کی تعداد کم وبیش تین لاکھ تھی، افتتاحی اجلاس میں احقر نے خطبۂ صدارت پیش کیا، جس میں ملک کے موجودہ حالات اور مسلمانوں کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی گئی ہے؛ اسی خطبۂ صدارت کے تمہیدی کلمات کو حذف کر قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے‘‘(رحمانی)

 بورڈ کا یہ اجلاس بہت ہی مشکل اور نازک حالات میں ہو رہا ہے اور اس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت جو ملک میں قیام امن کی ذمہ دار اور تمام شہریوں کے لئے انصاف اور برابری کی محافظ ہوتی ہے، اس وقت اسی کی طرف سے نفرت انگیز باتیں ہو رہی ہیں اور کھلے عام اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مسلمانوں کی جان ومال، عزت وآبرو ، املاک اور تجارت وکاروبار سب کچھ نشانہ پر ہے، نیز ملک کی خارجہ وداخلہ پالیسی علانیہ اپنی قدیم منصفانہ ڈگر سے ہٹ گئی ہے؛ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری شریعت، ہمارے مدارس، ہماری مسجدیں اور ہمارے اوقاف ان سب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، یوں تو یہ سارے ہی کام اہم ہیں؛ لیکن یہ آخری شعبہ جس کا تعلق شریعت اور اسلامی مقدسات کے تحفظ سے ہے، نہایت ہی اہم ہے اور براہ راست ہمارے دین سے متعلق ہے اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ ملک کے آئین میں اکثریت اور اقلیت سبھوں کے لئے اپنے مذہبی اور تہـذیبی تشخص کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے، اس پس منظر میں ہمارے بزرگوں نے مسلک ومشرب اور تنظیم وجماعت سے اوپر اُٹھ کر ۱۹۷۳ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل عمل میں لائی، جو مسلمانوں کے تمام مسالک اور تنظیموں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے اور اس کے قیام وانتظام میں تمام تنظیموں اور مسلکوں کی شخصیتیں شریک وسہیم ہیں، مسلمانوں کا یہ اتحاد ایک مبارک اتحاد ہے، یہ ملت اسلامیہ کی آبرو ، اس کی آواز اور اس کی وحدت واجتماعیت کا رمز ہے۔

 یک ا ہم بات ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ بورڈ نے ہمیشہ اپنے فیصلوں میں ایمانی جرأت اور شعور وحکمت دونوں کو ساتھ رکھا ہے، بورڈ نے کسی ایسی بات کو قبول نہیں کیا، جو کتاب وسنت اور شریعت اسلامی کے خلاف ہو، انھوں نے اس سلسلہ میں نہ حکومت کے دباؤ کو قبول کیا اور نہ میڈیا کے پروپیگنڈوں کا خوف کھایا؛ البتہ انھوں نے اپنی ساری مہم قانون وآئین کے دائرہ میں چلائی اور اپنی ساری کوششوں اور تحریکوں کو پُر امن رکھا، آئندہ بھی ہمیں اسی راہ پر قائم رہنا ہے، اپنے جائز مطالبات کے لئے قانونی اور عوامی سطح پر بھر پور جدوجہد کرنی اور بہ وقت ضرورت قربانی دینی ہے، نہ کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے اور نہ امن عامہ کو کوئی نقصان پہنچانا ہے۔

 اس وقت مغربی تہذیب کی مذاہب عالم پر جو یلغار ہے، اس کی دو بنیادیں ہیں، ایک یہ کہ جو بات عقل میں آئے، اسے قبول کرو اور جس بات کو ہماری عقل قبول نہیں کرتی، اسے خاطر میں نہیں لاؤ ، چاہے وہ بات مذہبی صحیفہ ہی میں کیوں نہ آئی ہو، یہ کیا بات ہے کہ مرد کو طلاق کا حق ہو اور عورت کو نہ ہو، یہ کیا ظلم ہے کہ مرد تو ایک سے زیادہ نکاح کرے اور عورتوں کو اس کی اجازت نہیں ہو، یہ کیسا انصاف ہے کہ بیٹے کے مقابلہ میں بیٹی کو آدھا حصہ ملے، ایسا کیوں ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں او ر دونوں ہی کے چہرے میں کشش رکھی گئی ہے؛ لیکن مردوں کے لئے تو پردہ ضروری نہ ہو اور عورتوں کے لئے ضروری ہو، یہ اور اس طرح کے کتنے ہی سوالات ہیں، جو اِس بنیاد پر اُٹھائے جاتے ہیں کہ انسان کی عقل ِکوتاہ جب تک کسی بات کو قبول نہ کر لے، وہ اس کو قابلِ قبول نہیں سمجھتا۔

 دوسری بنیاد ہے: شہوت پرستی، یعنی انسان کو جو بات اچھی لگے، وہ اس کے مطابق عمل کرے، ان کے نزدیک خدا کے قانون کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ انسان کی خواہش میں رکاوٹ پیدا کرے، انسان کو شریعت کا نہیں لذت کا غلام اور پرستار ہونا چاہئے، جس بات سے انسان کو لذت حاصل ہو، وہ اس کو کرنے کے لئے آزاد ہے، آج مغربی دنیا میں کیسے کیسے ناشائستہ اور غیر فطری کاموں کو جواز بخشا جا رہا ہے، ہم جنس سے تعلق کی اجازت، ایک ہی جنس کے لوگوں کا آپس میں نکاح، عریانیت کی عمومی اجازت، سود کی حوصلہ افزائی، ان سب کا حاصل یہی ہے کہ انسان کی خواہش پر کوئی کنٹرول نہیں ہونا چاہئے، وہ اپنی خواہشات پر عمل کے لئے آزاد ہے اور خود اپنی مرضی کا مالک ہے۔

 مغربی تہذیب کی یہ دونوں بنیادیں دراصل اسی تصور پر مبنی ہیں کہ انسان کو نظام غیبی کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ صحیح وغلط کے سارے فیصلے خود کرنا چاہئے، افسوس کہ عقل پرستی اور شہوت پرستی کا ٹکراؤ ہر مذہب سے ہے؛ لیکن دنیا کی اکثر قومیں جو اپنی مذہبی کتاب اور اپنے مذہبی مقدس مقتدا سے بے تعلق ہو گئی ہیں، انھوں نے اس صورت حال کے سامنے ہتھیار ڈال دیا ہے، جس میں ہمارے ملک کا اکثریتی گروہ بھی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے لئے یہ قابل قبول نہیں ہے ، علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول

 یہی تصور قانون شریعت کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان کشمکش کا اصل سبب ہے اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت کے ایک ایک حکم کو قانون فطرت کے ترازو میں تول کر اور حکمت ومصلحت کی کسوٹی پر کَس کر برادران وطن اور خود مسلمانوں میں نئی نسل کے سامنے پیش کریں، یہ علماء ، مسلمان اسکالرس اور قانون دانوں کے لئے بورڈ کا پیغام اور اس کی دعوت ہے۔

 اس میں شبہ نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ایمان کے بچاؤ اور شریعت ِ اسلامی کے تحفظ میں مختلف مسالک کے علماء اور ملت کے مذہبی قائدین کا بڑا اہم کردار رہا ہے، انھوں نے ملک میں عیسائی مشنریز کی تحریک ارتداد کا مقابلہ کیا ہے، انھوں نے آریہ سماجیوں کی طرف سے مسلمانوں میں ہندو مت کی تبلیغ اور ارتدادی کوششوں کا مؤثر طور پر سد باب کیا ہے، انھوں نے فتنۂ انکارِ حدیث کا استیصال کیا ہے، مستشرقین کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا ہے، دینی مدارس کے ذریعہ مسلم معاشرہ کو دین سے جوڑے رکھنے کی اہم خدمت انجام دی ہے، اس دور میں جو نئے شرعی مسائل پیدا ہوئے ہیں، انہیں انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے ذریعہ حل کیا ہے اور حل کر رہے ہیں، دینی تعلیم، عصری تعلیم، خدمتِ خلق، مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور اُمت کے مختلف کاموں کے لئے مسلمانوں کو جوڑ کر بے شمار ادارے اور تنظیمیں قائم کی ہیں، ملازمت اور معاشی مفادات سے بے تعلق ہو جانے کے باوجود اردو زبان مسلمانوں کے درمیان رابطہ کی زبان ہے، اس حیثیت سے اس کی حفاظت کی ہے اور بہت سی علمی، دینی، تنظیمی؛ بلکہ ایک حد تک سیاسی خدمات، انجام دی ہیں اور دے ر ہے ہیں۔

 مگر ان کی خدمت کا سب سے اہم پہلو شریعت ِ اسلامی کی حفاظت ہے، اس کے لئے انھوں نے دعوت و اصلاح کا راستہ بھی اختیار کیا ہے اور سیاسی سطح پر بھی مؤثر جدوجہد کی ہے؛ چنانچہ ۱۹۳۷ء میں ’’ شریعت اپلی کیشن ایکٹ‘‘ علماء ہی کی کوششوں سے بنا، ۱۹۳۹ء میں ’’ انفساخ نکاح‘‘ کا قانون پاس ہوا؛ جب ملک کا دستور بنا تو اس میں مذہبی آزادی ، مختلف گروہوں کی ثقافتی آزادی اور اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کے قیام وانتظام کو بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا؛ مگر افسوس کہ دستور میں اقلیت کے لئے مذہبی حقوق کی صراحت کرنے اور دستور ساز شخصیتوں کے بار بار کی یقین دہانیاں کرانے کے باوجود آزادی کے بعد جلد ہی حکومت کی بدنیتی سے پردہ اُٹھنے لگا، ۱۹۵۶ء میں جب ہندو کوڈ بنا اس وقت بھی کہا گیا کہ یہ یکساں سول کی طرف ایک قدم ہے، پھر قانونِ شفعہ اور ۱۸؍ سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح کی ممانعت کے لئے اس طرح راستہ نکالا گیا کہ انہیں سیول لا کی بجائے دوسرے قوانین کا حصہ بنا دیا گیا، اسپیشل میریج ایکٹ بنایا گیا؛ تاکہ جو مسلمان مرد وعورت مسلم پرسنل لا سے آزاد ہو کر نکاح کرنا چاہیں، وہ اس کے تحت نکاح کریں، یہاں تک کہ ۱۹۷۲ء میں لے پالک کو حقیقی بیٹے کا درجہ دینے اور گود لینے والے کے ترکہ سے اس کو میراث دلانے کی مہم شروع کی گئی، ہندوؤں کے لئے پہلے سے اس نوعیت کا قانون موجود تھا؛ لیکن مسلمانوں کے بہ شمول تمام قوموں کو اس میں شامل کرنے کے لئے ایک خصوصی بِل مرتب کیا گیا۔

  اس وقت مختلف مسلم تنظیموں کی جانب سے اس کے خلاف آواز بلند کی گئی، یہاں تک کہ حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ نے ۲۸؍جولائی ۱۹۶۳ء میں پٹنہ میں امارت شرعیہ بہار کی طرف سے ’’ مسلم پرسنل لا کانفرنس‘‘ بلائی اور اس میں مسلمانوں کی دو بڑی کل ہند جماعتوں– جمعیۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی ہند– کے ذمہ داران حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ اور حضرت مولانا ابو اللیث اصلاحی ندویؒ کو مدعو فرمایا، اس کے بعد حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ کی تحریک پر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی قیادت میں اس نوعیت کی پہلی میٹنگ ۱۳؍۱۴؍مارچ ۱۹۷۲ء کو دارالعلوم دیوبند میں ہوئی اور وہیں طے پایا کہ اس سلسلہ میں ایک بڑا کنونشن ممبئی میں کیا جائے؛ کیوں کہ مسلم پرسنل لا کے خلاف بعض نام نہاد مسلمانوں کی آواز یہیں سے اُٹھ رہی تھی؛ چنانچہ۲۷؍ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۲ء کو ممبئی میں وہ عظیم الشان’’ مسلم پرسنل لا ممبئی کنونشن‘‘ منعقد ہوا، جس کے بارے میں بعض بزرگوں کی رائے تھی کہ خلافت تحریک کے بعد اتنے وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کا ایسا پروگرام نہیں ہوا، اس کنونشن میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل کی تجویز منظور کی گئی اور اگلا اجلاس ۷؍۸؍ اپریل ۱۹۷۳ء کو حیدرآباد میں ہوا، جہاں باضابطہ بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی، بورڈ کی تشکیل بجائے خود ایک کرامت سے کم نہیں، مختلف مکاتب فکر، مختلف جماعتیں اور تنظیمیں، جن کے تعلقات دریا کے دو کناروں کا درجہ رکھتے تھے اور جن کا ایک جگہ مل بیٹھنا ناقابل تصور تھا، وہ تحفظ شریعت کے مقصد کے تحت یکجا ہوئے اور بورڈ میں نہ صرف علماء بلکہ راسخ العقیدہ مسلمان دانشوروں اور قانون دانوں کی بھی ایک مناسب تعداد شامل کی گئی اور اب تک اس کا یہی ڈھانچہ برقرار ہے۔

 بورڈ کی کوششوں سے حکومت متبنیٰ بل واپس لینے پر مجبور ہوئی، مسجدوں کو عوامی مقاصد کے لئے ایکوائر کرنے کی بات واپس لی گئی، نفقۂ مطلقہ سے متعلق دفعہ ۱۲۷؍ کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے ’’ تحفظ حقوق مسلم مطلقہ خواتین‘‘ کا قانون پاس ہوا؛ اگرچہ حکومت نے فریب سے کام لیا اور بورڈ کے پیش کئے ہوئے مسودہ میں کچھ اس انداز کی ترمیم کی گئی کہ اس کا مقصد فوت ہو گیا، بورڈ اس کی تلافی کے لئے کوشاں ہے، نکاح کے رجسٹریشن کے لزوم کے سلسلے میں اکثر ریاستوں میں قانون بنانے سے گریز کیا گیا اور جہاں قانون بنا، وہاں بھی ثبوت نکاح کے لئے رجسٹریشن کا لزوم نہیں رکھا گیا، ۲۰۰۹ء میں رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ بنا، بورڈ کی کوششوں سے مدارس ومکاتب اس سے مستثنیٰ کئے گئے، یہ اور اس طرح کے بعض اور فیصلے عوامی جدوجہد اور سیاسی نمائندگی کے ذریعہ ہو سکے، ۲۰۱۳ء میں ایک نہایت جامع اور بہتر قانون وقف پاس ہو سکا، جو اِس وقت حکومت کی سازش کے نرغے میں ہے، بورڈ کی عوامی جدوجہد کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ۲۰۱۴ء تک گورنمنٹ پارلیمنٹ کے ذریعہ کوئی ایسا بل لانے کی جرأت نہیں کر سکی، جو براہ راست مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کا باعث ہو، یہ یقیناََ بورڈ کی کامیابی ہے اور مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا نتیجہ ہے۔

 بدقسمتی سے ہماری معزز عدالتیں بعض اوقات اپنی حدود سے تجاوز کرتی جا رہی ہیں اور انھوں نے تشریح قانون سے آگے بڑھ کر وضع قانون کی خدمت بھی اپنے ذمہ لے لی ہیں اور نہ صرف مسلم پرسنل لا ؛ بلکہ بعض دوسرے معاملات میں بھی ان کی طرف سے یہ سلسلہ جاری ہے، ملک کے مؤقر سیاسی لیڈران اور ریٹائرڈ ججز بھی اس حقیقت کو ایک سے زیادہ دفعہ واضح کر چکے ہیں، اس سلسلہ میں سب سے افسوسناک صورت حال اس وقت سامنے آئی، جب الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے ۲۰۱۰ء میں بابری مسجد مقدمہ پر افسوسناک فیصلہ دیا جس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ نے ۹؍نومبر ۲۰۱۹ء کو اس کا فیصلہ سنایاجس میں ثبوت کی بجائے عقیدہ اور آستھا کو اہمیت دی گئی اور جس کو خود سابق معزز ججوں نے پنچوں کے ذریعہ دیہاتوں میں ہونے والے فیصلوں کے مماثل قرار دیا؛ اس لئے عدالتی سطح پر بھی بورڈ نے کبھی غفلت نہیں برتی، بورڈ نے عدالتوں کے فیصلوں پر نظر رکھنے کے لئے مستقل لیگل کمیٹی بنائی ہے، اس کمیٹی میں زیادہ تر قانون داں حضرات اور فقہ سے تعلق رکھنے والے بعض علماء شامل ہیں، اس کمیٹی میں سپریم کورٹ کے متعدد وکلاء اور ماہرین قانون بھی شریک ہیں، یہ مختلف ریاستوں کے اہم وکلاء سے بھی اپنا رابطہ رکھتے ہیں؛ تاکہ ہائی کورٹوں کے فیصلے بھی ان کے سامنے رہیں اور اس لئے بورڈ کے وابستگان میں اچھی خاصی تعداد قانون دانوں کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بورڈ اس کا اہتمام کرتا رہا ہے کہ اس طرح کے فیصلوں کا ترجمہ کر کے انہیں علماء اور ارباب افتاء تک بھی پہنچایا جائے؛ تاکہ وہ صحیح صورت حال سے واقف ہو سکیں اور فقہی نقطہ نظر سے بورڈ کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلاء کو فقہی معلومات بہم پہنچائی جائے۔

 بورڈ مسلمانوں کی سب سے طاقتور اور متحدہ آواز ہے؛ اسی لئے فرقہ پرست عناصر ہمیشہ اس پلیٹ فارم کو توڑنے کے لئے کوشاں رہے ہیں، پہلے تو کہا گیا کہ یہ بورڈ مسلمانوں کا نمائندہ بورڈ ہی نہیں ہے، پھر مختلف ناموں سے بورڈ قائم کرنے کی سعی کی گئی؛ لیکن ان نا مسعود کوششوں کو ذرا بھی قبولیت حاصل نہ ہو سکی اور ان کی حیثیت کھلونے کے مصنوعی شیر کی ہو کر رہ گئی، غرض کہ جو لوگ اپنی اسلام دشمنی کو روشن خیالی کے پردہ میں چھپاتے ہیں اور جو جماعتیں کھلے عام مسلمانوں کی مخالفت کو اپنا ایجنڈا بنائے ہوئی ہیں، وہ بے چین ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کا یہ اتحاد پارہ پارہ ہو جائے، ضروری ہے کہ ہم اس پر نظر رکھیں۔

 اس حقیقت سے شاید ہی کوئی شخص انکار کر سکے کہ مسلمانوں کے لئے اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، ایسا اتحاد کہ تمام لوگوں کی سوچ ایک ہو جائے اور فکر ونظر کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہے، ممکن نہیں ہے؛ کیوں کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے رنگ وروپ میں اختلاف رکھا ہے اور اشیاء کے انتخاب میں ذوق ونظر کا تنوع کار فرما ہے، اسی طرح افکار وخیالات اور اخذ واستنباط میں بھی انسانی مزاج ومذاق کی نیرنگی جلوہ فرما ہوتی ہے؛ اس لئے ملی، سیاسی، سماجی اور مذہبی مسائل میں فکر ونظر کا اختلاف واقع ہونا بالکل فطری بات ہے، یہ اختلاف کبھی معمولی درجہ کا ہوتا ہے اور کبھی شدید بھی ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں اگر اتحاد کا مطلب یہ ہو کہ تمام لوگ ایک ہی فکر کے حامل ہو جائیں اور ہر مسئلہ میں ایک ہی طریقہ پر سوچنے لگیں تو یہ ایسی ہی غیر فطری خواہش ہوگی جیسے کوئی اس بات کا آرزو مند ہو کہ دنیا کے تمام لوگ ایک ہی رنگ اور ایک ہی روپ کے بن جائیں؛ اس لئے اتحاد کا راستہ یہی ہے کہ اختلاف کے باوجود اتحاد کو قائم رکھا جائے اور اختلاف کے باوجود مشترکہ مقاصد کے لئے مل جل کر کام کرنا سیکھا جائے۔

 دوسری ضروری بات یہ ہے کہ شخصیتوں کے بارے میں لوگوں کی پسند الگ الگ ہوتی ہے، انبیاء پر ایمان لانے کا تو ہر شخص مکلف ہے؛ لیکن فقہاء ومحدثین اولیاء وصالحین اور مشائخ وسلاطین کے بارے میں ہو سکتا ہے کہ مختلف لوگوں کا ذوق اور ان کا رُجحان الگ الگ ہو، ایسی صورت میں کم سے کم یہ بات ضروری ہے کہ ہر آدمی اپنے بزرگوں کے بارے میں کلمۂ خیر کہتے ہوئے دوسروں کی خدمات کا بھی معترف ہو، یا کم از کم اُن کے بارے میں بدگوئی اور بدکلامی سے گریز کرے؛ تاکہ ان کے متبعین کی دل آزاری نہ ہو، بعض روایتوں میں ہے کہ جب ابو لہب کی بیٹی دُرہ ایمان لائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خواہ مخواہ ابو لہب کو برا بھلا نہ کہا جائے، مناسب نہیں ہے کہ کافر باپ کی وجہ سے مومن بیٹی کو تکلیف پہنچائی جائے۔ (لا یوذ ن مسلم بکافر، روح المعانی:۱۵؍۵۱۱)

 اختلاف مذہبی ہو یا سیاسی اور تنظیمی وجماعتی ہو یا مسلکی ومشربی، ہر جگہ ضروری ہے کہ ہماری زبان عدل اور اعتدال کی حدود سے تجاوز نہ کرے اور جن باتوں کو نرم لب ولہجہ اور سنجیدہ پیرایہ میں کہا جا سکتا ہے، ان کو تلخی اور تندی کے ساتھ پیش کرنے سے بچا جائے ، اس سے نفرت کی دیواریں اور اونچی ہو جاتی ہیں، شاعر حقیقت شناس کلیم عاجزؒ نے خوب کہا ہے:

بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم

بات کہنے کا سلیقہ چاہئے

 یہ سلیقہ بہت ضروری ہے اور ہم جتنی جلد اسے سیکھ لیں گے، اتنا ہی اپنے آپ کو انتشار اور بکھراؤ سے بچا سکیں گے، ایسی باتیں دشمنوں کی سازشوں کو تقویت پہنچا سکتی ہیں؛ اس لئے ضروری ہے کہ ہم سمجھ داری سے کام لیں، نقشِ دیوار کو پڑھیں اور حالات کے تیور کو پہچانیں کہ قومیں صرف جوش وجذبہ سے کامیابی کا سفر طے نہیں کرتیں، غور وفکر اور تدبر کے ذریعہ منزل تک پہنچتی ہیں۔

. . .

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com