میں انتظار حسین سے کیوں نہیں ملا؟

ڈاکٹر زین شمسی
ملت ٹائمز

زین شمسی
زین شمسی

فروری اور مارچ کے مہینے میں اردو کی محفلیں خوب سجا کرتی ہیں۔اس لیے نہیں ہے کہ اجلاس اور سمیناروں کے ذریعہ اردو کے فروغ اور اس کی بقا کی جستجو کی جائے ،بلکہ اس لیے کہ اس ماہ کے ختم ہوتے ہی سرکاریں حساب کتاب لیتی ہیں کہ میریدئے ہوئے پیسوں کا آپ لوگوں نے کیا حشر کیا ہے۔ پیسے واپس نہ لے لییجائیں اس لیے اسیکچھ بے معنی اور کچھ بامعنی پروگراموں میں خرچ کردئے جاتے ہیں،مگر اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے ،کچھ ایسی شخصیات سے ملاقات کا موقع ملتا ہے۔جو اپنے آپ میں سنگ میل ہوتے ہیں اور خود میں ادارہ۔ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جنہوں نے اپنی ڈگر خود منتخب کی ہوتی ہے اور اسی پر چلتے ہیں۔ ایسی شخصیت جب کسی محفل میں نظر آئے تو وہ خود ہی محفل ہو جاتے ہیں۔انتظار حسین ایسی ہی شخصیت تھے۔
غالباًریختہ ڈاٹ او آر جی کا پروگرام تھا ، جب کچھ لوگ برصغیر کے لیجنڈ بن چکیانتظار حسین کے ساتھ بیٹھ کر اورکوئی کھڑے ہو کر اور کوئی تقریباً دھکا دے کر تصویریں کھنچوانے کی کوشش کر رہے تھے۔کچھ تو ان سے باتیں کر رہے تھے اور کچھ صرف اس لیے بھٹک رہے تھے کہ دھوکہ سے ان کی تصویر بھی انتظار حسین کے ساتھ اتر جائے۔ انتظار حسین چہل قدمی کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ساتھ چل رہی کچھ معروف شخصیتوں سیدھیمی آواز میں محو گفتگو تھے۔میں بھی چپکے سے اس چھوٹے سے مجمع کے ساتھ ہو لیا۔ ان کی گفتگو میرے کان میں نہیں پڑ رہی تھی ، لیکن سننے کی کوشش کرر ہا تھا کہ شاید کچھ انمول موتی میرے حصے میں آجائیں،لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ میں مسلسل ان کے چہروں کو دیکھ رہا تھا۔ان کی پیشانی کے پیچھے نصب ان کے دماغ کے بارے میں سوچ رہا تھاکہ وہ کہانیاں پیدا کرتے ہیں یا کہانیاں بنتے ہیں ، کہانیاں بناتے ہیں ،یا پھر اسے گڑھتے ہیں۔ اس درمیان کیمرہ میرے سامنے آچکا تھا،میں یکایک رکا اور فریم سے باہر نکل آیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ان کے ساتھ تصویر کشی کا کارنامہ انجام دے کر خود کو ان ناموں میں شامل کر سکوں جس نے انتظار کو دیکھا یا انتظار سے ملا۔ مجھے لگا کہ برصغیر کے اس لیجنڈ کے ساتھ فوٹو کھینچوا کر میں تو شاید اپنے آپ کو بڑا سمجھوں ، مگر ہم جیسے ادب کے ناسمجھ لوگوں کے ساتھ انتظار حسین کی تصویر ان کے قد کوچھوٹا کر سکتی ہے۔
وہ صرف بڑے نہیں تھے ،عجیب اور انوکھے بھی تھے۔الگ تھے ،روایت پسند نہیں تھے ، باغی تھے۔پیور تھے ،اصلی تھے ،نقل کی نقل اور پھر اس کی نقل کے حامی نہیں تھے۔ ادب میں ایک بہت بڑا فرق جو انہوں نے پیدا کیا ،وہ آج کے اردو ادیبوں ،خاص کر ناول نگار وں اور افسانہ نگاروں کے لیے ایک سبق بھی ہے کہ انہوں نے عرب و عجم کی الف لیلوی داستانوں کے شکنجہ سے اردو کہانیوں کو آزاد کرانے کی کوشش کی۔ بیتال پچیسی ، کتھا ساگر ،مافوق الفطرت یا اساطیری دنیا کی تلمیحات اور محاورے ان کی قلم سے چپک گئے۔جو یہ احساس دلاتے تھے کہ ہم برصغیر میں رہتے ہیں اور یہاں کی روایت و وراثت میں جی رہے ہیں۔ناول اور افسانیاٹھا کر دیکھئے تو ان میں حالات ، کردار اور پلاٹ کا واسطہ غیر مسلموں اور ہندو ریتی رواجوں سے نہیں پڑتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی رہتے ہیں ۔ پورا ناول پڑھ لیجئے کوئی کردار ہندوؤں کی ذہنیت یا سوچ کی عکاسی کرتا نظر نہیں آتا۔آج بھی عرب و عجم کی اصلاحات و تلمیحات ہی اردو ادب کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ انتظار حسین نے اس روش کو توڑا ۔ اسی لیے کئی برسوں تک نقادوں نے انہیں کہانی کار ماننے سے انکار کر دیا۔انہیں بڑا نہیں مانا گیا ،لیکن پتہ نہیں وہ آخر کس طرح اتنے بڑے ہو گئے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بغیر دُم کے بندروں کے جون میں پید اہوگئے تھے، اور ان بندروں سے الگ ہوگئے تھے جو اپنے دم کٹا کر انسانوں میں شامل ہیں۔
انہوں نے اپنی روش اپنی ڈگر خود بنائی ،جو لوگوں کو ٹیڑھی میڑھی لگ رہی تھی ،لیکن ان کے لیے وہی صراط مستقیم تھی۔ خود کو بہترین کہانی کار کے طور پر پیش کرنے کے لیے انہوں نے قارئین کا نیا حلقہ بھی بنایا اور دوسرے حلقوں سے قارئین کو چرانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔انتظار حسین کو الجھانے اور پر پیچ گلیوں میں چھوڑ دینے کے لیے یہ بھی کہا گیا کہ اردو کا سب سے بڑا ناول قرۃ العین حیدر نے ہمیں دیا ہے،لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ عینی آپا کی نظر معاشرہ کے اشرافیہ طبقہ سے نہیں ہٹ سکی اور ثقافتی تغیر کی اتھاہ گہرائیوں سے موتی نکالنے کی جستجو میں وہ اس معاشرہ سے دور ہوتی گئیں جہاں جمہوری نظام ہے اور ذات و پات سے لے کر پسماندہ طبقات کی مجبوریاں ہیں۔قرۃ العین حیدر بین الاقوامی کینوس میں داخل ہوئیں تو ان کے پیر کے نیچے سے آبائی زمین سرک گئی۔تھک ہار کروہ ایک کاسمک اور کائناتی تصور کی دنیا میں جینے لگیں اور جب انتظار حسین نیکہانیاں سنانا شروع کیں تو وہ اپنی تہذیب اور روایت کے درمیان رہ کر خود کو آہستہ آہستہ کھولتے رہے اور ساتھ ہی قارئین کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے مجبور کرتے رہے ۔مٹی کی سوگندھ اور نانی اماں کی کہانیوں کو وسعت دے کر وہ خالص ہندوستانی کہانیوں کے جنم داتا بن گئے۔ جس طرح بچہ کہانی سنتے وقت چاند کامطالبہ کر دیتا ہے اور نانی اماں برتن میں پانی رکھ کر اسے چاند دے دیتی ہیں ،اسی طرح انتظار حسین میں بھی قارئین کو ان کی کہانی ان کی ہی زبانی سنانے کا ہنر تھا۔ انتظار حسین قارئین کو بظاہر سہل لگتے ہیں لیکن جب ان کے معنی کو پنکھ لگتا ہے تو پرواز کو حد نہیں ملتی۔ پھر آپ ان کی کہانیوں میں الجھتے جاتے ہیں، دشواریاں آنے لگتی ہیں۔وہ اس دور کیسب سے ذہین اور ماہرِ فن افسانہ نگار ہیں۔انہوں نے اردو افسانے میں تجسیم ، تجرید اور علامت نگاری کے متعدد تجربے کیے اور یوں وہ اردو افسانے کی نئی جہت کا پیش رو شمار کیے گئے ۔ کنکری سے شہر افسوس تک انتظار حسین کے فن نے متعدد مراحل طے کیے ہیں۔ اور وہ ہر مرحلے پر اپنے فن کا واحد نمائندہ ثابت ہوئے ہیں۔ مستقبل انہیں اردو ادب میں کہانی سنانے والے نانا کے طور پر یاد رکھے گا۔
انتظار حسین کی شخصیت وہ سنگ میل ہے جو بھٹکے ہوئے مسافروں کو سمت بتاتی نظر آتی ہے۔انہیں صرف لیجنڈ بتا کر فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انتظار حسین کو زندہ رکھنا ہے تو ان کی روش اختیار کر کے ہی اردو کے کردار کو جلا بخشی جا سکتی ہے۔اردو ادب میں ایسا کردار پیدا کرنا ہوگاجو ہندوستان کی اس تہذیب کا پاسدار ہو جو سماج کے ہر کونے میں الگ الگ مصیبتوں سے نبرد آزما ہے۔ انتظار حسین نہیں رہے۔مگر مشترکہ تہذیب کی عکاسی کرنے والے قدآور شخص کو خراج تحسین صرف ان کے ذریعہ قائم اصولوں پر چل کر ہی دی جا سکتی ہے، اور یہ ذمہ داری ان کی ہے جو ان کے ساتھ فوٹو کھنچوانے کے لیے بے چین ہوا کرتے تھے۔کم از کم میں اس سے آزاد رہوں گا ،یہ کوئی نہیں کہہ پائے گاکہ میں ان سے ملا اور ان کی راہ پر نہیں چل پایا۔

SHARE