امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اوران کی حیات و خدمات

Ehteshamul Haqاحتشام الحق آفاقی

ؒ بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرّحِیْم
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمَ اَمَّابعدَ

ہم ہے قرباں آج تجھ پر اپنی لاکھوں جان سے
دے رہا ہوں سلامی تجھ کو اپنی محبت ایمان سے
آج بھی کرتا ہے تجھ پرناز تاریخ ہند
شمع عرفاں سے کیا جو تونے روشن تاریخ ہند
صدر محترم حضرات حکم اساتذۂ کرام اور محترم سامعین بزم ۔
آج کی اس بزم میں میرے مقالہ کا عنوان ایک ایسی عظیم شخصیت کی حیات و خدمات ہے جن کے وجود سے قبل قرآن مجید کے اعلان ’’ألاَ لِلّہ الدّیْنُِ الخَالص‘‘کے خلاف بکثرت عوام کی زندگی ، مسلم معاشرے میں بدعات کا زور ، ہندؤوں اور غیروں کے بہت سے رسوم وعادات کی تقلید رائج تھی ،مشائخ کیلئے سجدۂ تعظیمی مزارات اور اس کے قرب و جوار کاکعبۃ اللہ کی طرح عزت و احترام ، مزارات کا طواف ، قبروں پر گانے بجانے کی محفلیں ، ہندستان کی سرزمین پر کوئی ایسا واقعہ اور منظر ایسا نہیں تھا جس کو دیکھنے کیلئے بہت دور جانے یا بہت دیر انتظار کرنے کی ضرورت ہوتی،شیخ سدّو کا بکرا ، سید احمد کبیر کی گائے ، غازی میاں کے جھنڈے ، اولیاء اور نیک بیویوں کے نام سے روزے کی نیت کرنا ، اور ان میں خاص آداب کی پابندی کرنا ، بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ ان جاہل لوگوں ناموں پر بھی ظلم کیا کسی کا نام علی بخش ہے تو کسی کا حسین بخش کوئی پیر بخش ہے تو کوئی مدار بخش اور سالار بخش ، ان تمام بدعات و خرافات کو ختم کرنے کیلئے اللہ رب العزت نے ایک ایسے ولی اور محدث کا انتخاب کیا جنھوں نے لوگوں کے سامنے انبیا ء اور رسولوں کی مقصد تخلیق واضح کی اور ہر گھر تک اپنے نبیؐ کا پیغام پہچانے کی حتی الامکان کوشش کی اور اپنے مقاصد میں کامیابی بھی حاصل کی ایسے غمخوار اور برد بار شخصیت سے میری مراد محد ث زماں و امام ہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ہے۔

شاہ صاحب کی ولادت با سعادت ۔
شاہ صاحب ؒ کی ولادت با سعادت بروزچہار شنبہ ۴ شوال المکرم ۱۱۱۴ ؁ھ طلوع آفتاب کے وقت اپنے نانہال قصبہ پھلت ضلع مظفر نگر یوپی میں ہوئی ، شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کی ولادت کے وقت آپ کے والد ماجد شاہ عبد الرحیم ؒ کی عمر ساٹھ سال تھی ، شاہ عبد الرحیم صاحب ؒ کو اس مبارک فرزند کی ولادت سے پہلے بہت سے مبشّرات نظر آئے تھے ۔ولادت سے پہلے شاہ عبد الرحیم ؒ نے خواجہ قطب الدین بختیار کعکی ؒ کی خواب میں زیارت کی انھوں نے فرزند کی بشارت دی ، اور فرمایا کہ اس کا نام میرے نام پر قطب الدین احمد رکھنا ، شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ جب میری ولادت ہوئی تو والد محترم کو یہ بات یاد نہیں رہی اور انھوں نے میرا نام ولی اللہ رکھا ، کچھ مدت کے بعد جب خیال آیا تو میرا دوسرا نام قطب الدین احمد تجویز کیا۔

شاہ صاحبؒ کا خاندانی پسِ منظر ۔
شاہ صاحب ؒ کے اجداد اولین کا زمانہ ہندستان کی علمی و تصنیفی تاریخ کا وہ عہد ہے ، جب یہاں تذکرے و تراجم کی تصنیف کا دور عام طور پر شروع نہیں ہوا تھا، زیادہ تر نامور مشائخ طریقت کے انفرادی تذکرے تھے ، جن میں محبوب الٰہی سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین کا تذکرہ سیر الا ولیا خاص امتیاز رکھتا ہے ، شاہ صاحب کی تحریر کے مطابق ان کے خاندان کے پہلے بزرگوار جنھوں نے رُہتک میں قیام اختیار کیا وہ شیخ شمس الدین مفتی تھے ، ان واسطوں اور پشتوں کی تعداد اور طبعی اور تقریبی عمروں کی حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ شمس الدین مفتی ساتویں صدی کے آخر یا آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندستان آئے ہوں گے ۔ شاہ صاحب کی تصنیف سے ظاہر ہوتا ہے کہ رہتک اس وقت کی نئی اسلامی سلطنت کا ایک اہم شہر اور مغرب سے دہلی کی طرف آنے والی اسلامی افواج ، مجاہدین ، داعیان اسلام اور مشائخ و علماء کی دہلی سے پہلے کی ایک اہم منزل اور مسکن تھی ، شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ قریش کی نسل سے پہلے جو بزرگ اس شہر میں آئے ، اور ان کی وجہ سے اسلامی شعائر کا غلبہ اور کفرو جہالت کا زوال ہوا ، وہ شیخ شمس الدین مفتی ہی تھے ۔ شاہ صاحب اپنے حقیقی دادا شیخ وجیہ الدین شہید ؒ کے حالات تفصیل سے لکھتے ہیں ، ان میں تقویٰ اور شجاعت کی دونوں صفتیں جمع تھیں شاہ صاحب ؒ اپنے والد محترم کی زبانی فرماتے ہیں کہ میرے دادا نے دن رات میں قرآن کے دو۲ سپارے پڑھنے کا وظیفہ مقرر کررکھا تھا ، جب عمر زیادہ ہوئی اور بصارت کمزور ہوگئی تو خط جلی کا قرآن شریف اپنے ساتھ رکھتے تھے ، سفر میں بھی کسی وقت اپنے سے جدا نہیں کرتے تھے۔شاہ صاحب ؒ نے اپنے والد بزرگوار حضرت شاہ عبد الرحیم ؒ کے حالات ، کمالات ، و کرامات میں خود ایک مفصل کتاب تحریر فرمائی ہے جس کاعربی نام ’’ بوارق الولایۃ‘‘ اور مشہور نام ’’ انفاس العارفین ‘‘ ہے ، شاہ صاحب نے ’’ انفاس العارفین ‘‘ میں شاہ عبد الرحیم صاحب ؒ کے اپنے زمانہ کے بہت سے واقعات لکھے ہیں ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں ، والد صاحب کا عمل اکثر امور میں فقہہ حنفی کے موافق تھا ، لیکن بعض مسائل میں حدیث کے مطابق یا اپنے وجدان سے کسی دوسرے مسلک کو بھی ترجیح دیتے تھے ، ان تفردات یا استثنائات میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کا پڑھنا ، جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا تھا ۔

شجرۂ نسب
شاہ صاحب جو فاروقی النسل تھے انہوں نے اپنا شجرۂ نسب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک لکھا ہے ۔شاہ ولی اللہ بن الشیخ عبد الرحیم بن الشہید وجیہ الدین بن معظم بن منصور بن احمد بن محمود بن قوام الدین عر ف قاضی قاذن بن قاضی قاسم بن قاضی کبیر عرف قاضی بدہ بن عبد الملک بن قطب الدین بن کمال الدین بن شمس الدین مفتی بن شیر ملک بن محمد عطا ملک بن ابو الفتح ملک بن عمر حاکم ملک بن عادل ملک بن فاروق بن جر جیس بن احمد بن شہر یار بن عثمان بن ماہان بن ہمایوں بن قریش بن سلیمان بن عفان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن عمر بن خطابؒ

تعلیم و تربیت ۔
شاہ صاحب ؒ کی عمر جب پانچ سال کی ہوئی تو مکتب میں داخل کئے گئے ۔ سات سال کی عمر میں سنت ابراہیمی ادا کی گئی ،اور اسی عمر سے نماز کی عادت ڈال دی گئی ، اس سال کے آخر میں حفظ قرآن مجید سے فراغت ہوئی ، اور آگے فارسی کی کتابیں عربی کے مختصرات پڑھنا شروع کئے ، اور کافیہ ختم کی ، دس سال کی عمر میں شرح جامی شروع کی ، چودہ سال کی عمر میں بیضاوی کا ایک حصہ پڑھا ، اور پندرہ سال کی عمر میں ہندستان میں رائج علوم متداولہ سے فراغت کی ، اسی
پندرہ سال کی عمر میں اپنے والد محترم سے مشکوٰۃ کا درس لیا ، شاہ صاحب ؒ نے اپنے والد محترم سے اور بھی مزید کتابیں پڑھی جن میں صحیح بخاری شمائل ترمذی تفسیر مدارک شامل ہیں، شاہ صاحب فرماتے ہیں والد صاحب کی درس قرآن میں کئی بار شریک ہوا جس سے میرے لئے معانی قرآن کا دروازہ کھل گیا۔

شاہ صاحب کی خدمات و کار نامے ۔
شاہ صاحب ؒ سے اللہ تعالیٰ نے جو تجدید و اصلاح امت ، علوم نبوت کی نشرو اشاعت ، اور اپنے عہد و ملت کے فکر و عمل میں ایک نئی زندگی اور تازگی پیدا کرنے کا جو عظیم الشان کام لیا ، شاہ صاحب ؒ کے زمانہ میں غیر مسلموں کے اثرات ،اور قرآن و حدیث سے ناواقفیت اور دوری و نتائج و خطرات اور عوام کی پسندیدگی اور نا پسندیدگی سے آنکھیں بند کرکے موثر کوشش کی طویل خلا نے ہندستان میں جو صورت حال پیدا کردی تھی ، اور دین حنیفی کے متوازی جو نظامِ عقائد اور مسلم معاشرہ کی زندگی کی میدان میں جاہلیت کا جو سبزہ خودرو پیدا ہوگیا تھا ، اس کا کچھ اندازہ خود شاہ صاحب کی کتابوں کے بعض اقتسابات سے لگایا جا سکتا ہے ۔ شاہ صاحب نے اس مرض و بائے عام کے علاج کیلئے قرآن مجید کے مطالعہ و تدبر اور اس کے فہم کو سب سے مؤثر علاج سمجھا ، اور اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاہ صاحب نے ترجمۂ قرآن لکھنا اور اس کا درس دینا شروع کیا ۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے اصلاح و عقائد اور توحید خالص کی دعوت کے سلسلہ میں قرآن مجید کے ترجمہ ہی پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ ایک عالم محقق کے نظریہ سے عقیدۂ توحید ملت ابراہیمی کا سب سے بڑا شعار اور حضرت ابراہیم کی دعوت جد جہد کا سب سے بڑا مقصد ، خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پیغام الٰہی کا ایک خاص عنصر تھا۔

شاہ صاحب کی تصنیفی خدمات ۔
شاہ صاحب ؒ نے حدیث اور علوم حدیث پر جو تصنیفات کیں ہیں ان میں سے چند کتابوں کا نام حسب ذیل ہیں (۱) مصفےٰ (مؤطا امام مالکؒ کی فارسی شرح ) ۲ مسویّٰ ( مؤطا کی عربی شرح )شاہ صاحب ؒ فقہ حدیث اور درس حدیث کا جو طریقہ رائج کرنا چاہتے تھے ، یہ دونوں کتابیں اس کا نمونہ ہیں ۔ ۳ شرح تراجم ابواب صحیح بخاری ، صحیح بخاری کے تراجم و ابواب کی جو ہر زمانہ میں درسِ بخاری کے سلسلہ کی دقیق سمجھی گئی ہے ۔۴ مجموعہ رسائل اربعہ چار مختصر رسائل کا مجموعہ ہے ، جن میں ’’ارشاد الی مھمات الا سناد‘‘اور تراجم البخاری شاہ صاحب ؒ کی تصنیف ہیں ۵ ۔’’الفضل المبین فی المسلسل من النبی الأمین‘‘ ’’النوادر من حدیث سید الأوائل والأواخر‘‘ اربعین ، شاہ صاحب نے اس فضیلت کے حصول کیلئے جو چالیس ۴۰ احادیث جمع کرنے کے بارے میں وارد ہوئی ہے ، اور مختلف زمانے میں علما ء نے اس پر عمل کیا ہے ، یہ رسالہ تصنیف کیا ہے ، یہ احادیث عا م طور پر بہت مختصر قلیلتہ المبنی کثیرۃ المعنی ہیں ۔

وفات
بالآخر وہ دن بھی آگیا جب اللہ پاک نے اپنے اس کا مل ولی کو ۲۹ محرم ۱۱۷۲ ؁ھ کو کوچۂ عافیت میں جگہ دی ، اور شاہ صاحب ؒ نے جان جاں آفریں کے سپرد کی، ملت اسلام کا وہ چراغ بجھ گیا جو کفرو شرک کے غار میں گرے ہوئے انسانوں کیلئے رہبری کا کار نامہ بخوبی انجام دیا ۔

SHARE