اپریل فول اور اسلامی نقطۂ نظر

مفتی عنایت اللہ خورشید قاسمی

کسی بھی قوم کی ثقافت و تہذیب اس قوم کی پہچان کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے اور اگر وہ اپنی تہذیب سےمنھ موڑ کر اغیار کی ثقافت پر عمل پیرا ہوجائے تو اس قوم کی شناخت مٹ جاتی ہے۔ اسلام ایک مکمل تہذیب کا حامل ایسا دین ہے، جس کی اپنی مستقل تہذیبی شناخت ہے، اس لیے یہ اپنے متبعین کو اس خاص خدائی رنگ میں پورے طور پر رنگا ہوا دیکھنا پسند کرتا ہے جسے قرآن میں ‘‘صبغۃ اللہ’’ سے تعبیر کیا گیا، لیکن آج مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت اور اخلاق و کردار کو چھور کر مغربی تہذیب کے پیچھے آنکھ بند کرکے چلا جارہا ہے ، مغرب سے آنے والی ہر برائی کو آسمانی تحفہ سمجھ کر بڑی فراخ دلی اور وسعت نظری کے ساتھ قبول کر لیا جاتا ہے اور جو شخص مغربی تہذیب کا جتنا بڑا نقال اور پیر وہووہ اتنا ہی بڑا متمدن ، مہذب اور شریف سمجھا جاتا ہے ، پھر یہ کہ ان کے طرز زندگی کو عملی ترقی کے لیے اختیار نہیں کیا جاتا، سائنسی ترقیات میں ان کی برابری کی کوشش نہیں کی جاتی، وہ جن علوم و فنون کی بدولت بامِ عروج پر پہنچے ہیں، انہیں حاصل کرنے کی فکر نہیں ہوتی، دنیا کا زمام اقتدار اقوام مغرب کو کیسے حاصل ہوا اس کا پتہ لگا نے کی جستجو نہیں ، بلکہ ان کی پیروی خرافات میں کی جاتی ہے، نقالی غلط کاری اور بد تہذیبی میں ہوتی ہے ، ان کی تقلید کا شوق سوار ہوتا ہے، لیکن گناہ اور بیجا رسومات کو اختیار کرنے میں ، مغرب کی بے سوچے سمجھے تقلید کے شوق نے ہمارے معاشرے میں جن رسموں کو رواج دیا،انہی میں سے ایک رسم ‘‘اپریل فول’’ کی بھی ہے جس کی خوئے بدنے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اپریل فول کی پہلی تاریخ کو جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر ایک دوسرے کو بیوقوف بنایا جاتاہے ۔ اس سے قبل کہ اپریل فول کی شرعی حیثیت پر گفتگو کی جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تاریخی پہلو کو واضح کیا جائے ۔

تاریخ کا پہلو: اس رسم کی ابتدا کیسے ہوئی ؟ اس بارے میں مؤرخین کی آراء مختلف ہیں اور کوئی بھی ایک حتمی رائے معلوم نہیں ہوسکتی ، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ 21 مارچ سےموسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں، جن کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ ‘‘معاذاللہ ’’ قدت ہمارے ساتھ مذاق کر کے ہمیں بیوقوف بنارہی ہے، تبھی سے لوگوں نے ایک دوسرے کو بیوقوف بنانا شروع کردیا ( برٹانیکا :1/496 بحوالہ ذکر و فکر :67)بعض مصنفین کاکہنا ہے کہ یہ رسم فرانس میں 1564 میں نیا کیلنڈر جاری ہونے کے بعد یوں شروع ہوئی کہ جو لوگ اس نئے کیلنڈر کو تسلیم نہیں کرتے، انہیں طعن تشنیع اور استہزا کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اپریل فول کے ذریعے جس شخص کو بیوقوف بنایا جاتا ہے اسے فرانسیسی زبان میں ‘‘ Poisson darrill’’ کہا جاتا ہے انیسوی صدی کی معروف انسا ئیکلو پیڈیا ‘‘ لاروس’’ کے بیان کے مطابق ‘‘Poisson’’ ایک اور فرانسیسی لفظ ‘‘Poison’’سےتحریک شدہ ہے ، جس کے معنی ‘‘تکلیف پہنچا نا’’ اور ‘‘عذاب دینے ’’ کے ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس سے اس عذاب کی طرف اشارہ ہے جو عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو برداشت کرنا پڑا جس کی تفصیل انجیلوں میں بیان کی گئی ہے ، لوقاکی انجیل کے الفاظ یہ ہیں ‘‘ اور جو آدمی اسے (حضرت عیسیٰ ) کو گرفتار کئے ہوئے تھے اس کو ٹھٹھے اڑاتے اور مارتے تھے اور اس کی آنکھیں بند کر کے اس کے منھ پر طمانچہ مارتے تھے اور اس سے پوچھتے کہ نبوت (الہام) سے بتا کہ کس نے تجھ کو مارا؟ اور طعنے مار کر بہت سی اور باتیں اس کے خلاف کہیں ’’ (لوقا’ 63:22 تا 65) انجیلوں میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودی سرکاروں اور فقیہوں کی عدالت عالیہ میں پیش کیا گیا ، پھر وہ انہیں پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ ان کا فیصلہ وہاں ہوگا، پھر پیلاطس نے انہیں ہیرو ڈیس کی عدالت میں بھیج دیا اور بالآخر ہرو ڈیس نے دوبارہ فیصلے کے لیے ان کو پیلاطس ہی کی عدالت میں بھیجا (ذکر و فکر :68) حضرت عیسیٰ کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیجنے کا مقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اور انہیں تکلیف پہنچانا تھا، اور چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اس لئے اپریل فول کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعہ کی یادگار ہے۔

اس رسم بد کی تاریخ جاننے کے بعد معلوم ہونا چاہئے کہ اسلامی اور شرعی نقطۂ نظر سے یہ رسم مندرجہ ذیل بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے ۔

(1) یہ غیر مسلم اقوام کی عادت و روایت ہے، جیساکہ مذکورہ بالا سطور سے معلوم ہوا ، احادیث میں غیروں سے مشابہت اختیار کرنے کی سخت ممانعت آئی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم فرمایا ہے، عاشورہ کے روزہ کا یہودی بھی اہتمام کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ اس سے پہلے یا بعد میں ایک اور روزہ ملا لیا کرو (البیہقی ، حدیث نمبر 87) اہل کتاب افطار میں تاخیر کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت ہونے کے بعد افطار میں عجلت کی تاکید فرمائی ۔ (ابو داؤد حدیث نمبر 3355) سورج طلوع و غروب کے وقت کفار و بت پرست عبادت کیا کرتے تھے ان اوقات میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے منع کیا گیا (مسند احمد، حدیث نمبر : 17014) داڑھی کو چھوڑنے اور مونچھوں کو کتروانے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا کہ ‘‘مشرکین کی مخالفت کرو، ( بخاری :2/875) فقہی کتابوں میں ایسی سیکڑوں مثالیں ملیں گی جن سے غیر اقوام کی مخالفت اورنقالی کی ممانعت صاف جھلکتی ہے ، نیز ایسے مسلمان جو غیر مسلموں کی مشابہت اور نقالی کرتے ہیں اور ان کےنقش قدم پرچلتے ہیں ، انہیں جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی میں سے قرار دیا ‘‘ من تشبہ قوم فہو منہم’’ (ابو داؤد ، حدیث نمبر: 4033)

(2) اس کی دوسری اہم بنیاد جھوٹ پر ہے، جو بجائے خود ایک مذموم اور قبیح فعل ہے ، لیکن اس کی قباحت و شناعت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب اس کے نتیجے میں کسی کو جانی او رمالی نقصان پہنچتا ہو بعض دفعہ آدمی مذاق میں کسی کو اس کے بیٹے یا کسی عزیز کی موت کی خبر سنا دیتا ہے وہ شخص اس صدمہ کی تاب نہ لا کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ، گویا یہ جھوٹ اور بد مذاقی قتل کا ذریعہ بن گئی ۔سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرۂ امتیاز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق بھی حکمت و دانائی اور سچ پر مبنی ہوتا تھا۔ احادیث میں مختلف انداز میں اس گناہ کی شناعت کو بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوا کہ ‘‘ جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولے اس کے لئے ہلاکت ہے ہلاکت ہے’’ (ابوداؤد ، حدیث نمبر 4992) ایک اور حدیث میں ہے کہ یہ بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی گفتگو کرو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھتا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو’’( ابوداؤد : حدیث نمبر : 4973) اسی طرح جھوٹ سےبچنے پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ضمانت لی ہے ارشاد ہوا ‘‘ جو شخص جھوٹ ترک کردے اس کے لئے جنت کے وسط میں ایک محل کا ضامن ہوں’’ ( البیہقی ، حدیث نمبر : 11727)

(3) اس رسم کی تیسری اہم بنیاد دھوکہ دہی ہے اور اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ ‘‘ جو شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ’’ (مجمع الزوائد ، 6341) نبی علیہ السلام کا کسی سے اظہار براءت اور اعلان لاتعلقی اس شخص کی بہت بڑی بد بختی ہے اور جب پوری قوم اپنےطرز عمل سے یہ بد بختی سمیٹ رہی ہو تو اس کے لیے ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔

(4) اپریل فول کی بدترین روایت کے ذریعہ وقتی اور عارضی طور پر لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے اسلام نے اپنی تعلیمات میں قدم قدم پر اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ایک مسلمان کی کسی نقل و حرکت یا کسی انداز و ادا سے دوسرے کو کسی بھی قسم کی جسمانی ، ذہنی ، نفسیاتی یا مالی تکلیف نہ پہنچے ‘‘ المسلم من سلم المسلمو ن من لسانہ ویدہ ’’ (ترمذی ، حدیث نمبر : 2627) ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نبی علیہ السلام کے ساتھ سفر میں جارہے تھے ایک شخص نے دوسرے کی رسی اٹھالی و ہ سورہے تھے، بیدار ہونے کے بعد انہیں گھبراہٹ اور پریشانی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ‘‘ لایمل لمسلم ان یروع مسلماً ’’ ( السنن الکبریٰ للبیہقی ، حدیث نمبر :21709) یعنی کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کو پریشانی میں مبتلا کرے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ‘‘ کوئی شخص اپنے بھائی کا سامان مذاق یا سنجیدگی سے ( بلا اجازت) نہ اٹھائے جس نے اپنے بھائی کی لاٹھی اٹھائی ہے واپس کردے’’( ایضاً حدیث نمبر :11833) یہ بہت چھوٹا مذاق ہے، مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اہل ایمان کی معمولی سی پریشانی بھی گراں گذرتی تھی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ، اپریل فول کے حوالے سے بڑی بڑی بد ترین او رتکلیف دہ حرکتیں کی جاتی ہیں جو حدیث میں وار د ‘‘لا یحل’’ کی روسے حرام ہیں ۔ جو رسم ایک مقدس نبی علیہ السلام کی استہزاء او رمذاق اڑانے کی یادگار ہو ، جس میں ہزاروں جھوٹ بولے جاتے ہوں، جس کی بنیاد فریب اور دھوکہ دہی پر ہو ، جس سے کسی کو اذیت و تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہو، کیا وہ رسم اس قابل ہوسکتی ہے کہ اسے اپنا کر فروغ دیا جائے؟ اصحاب فکر و نظر اور سنجیدہ طبقے کو اپریل فول کی حماقتوں ، نالائقیوں اور بدتمیز یوں میں کسی طرح کی شرکت کی بجائے ہر ممکن گریز کی کوشش کرنی چاہیئے اہل ایمان کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ‘‘ اور یہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گذر ہوتا ہے تو شرافت سے گذر جاتے ہیں’’ ( الفرقان :72) قرآن کا یہ خوبصورت اور باوقار طرز عمل ہر بیہودہ اور فضول رسم پر اپنا یا جانا چاہئے ، اسی میں عزت و احترام ہے، اصلاح کا ایک طریقہ ہے اور ان فضولیات کی تحقیر و تذلیل بھی ۔

★استاذ :دار العلوم عزیزیہ میرا روڈ
Mob :9324414115