دیوبند(ملت ٹائمز،سمیر چودھری)
اتر پردیش میں یوگی حکومت آنے کے بعد گوشت بندی کی زد میں آئے قریشی سماج کے لوگوں کا صبر کا باندھ اب ٹوٹنے لگا ہے، اچانک گوشت بند ہو جانے سے بے روزگار ہوئے قریشی سماج کے لوگوں نے اس فیصلے کے خلاف دیوبند میں بھوک ہڑتال شروع کردی ہے ،، بھوک ہڑتال پر بیٹھے لوگوں کاکہناہے کہ گوشت بندی راست طور پر ان کے روزگار پر حملہ ہے جسے برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔اتر پردیش میں زبردست اکثریت ساتھ آئی بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور پر عمل کرتے ہوئے غیر قانونی ذبیحہ خانوں کو بند کرنے کی مہم چھیڑ رکھی ہے،ذبیحہ خانے بند ہونے کے سبب تقریباً پوری ریاست میں گوشت میں گوشت کی سپلائی بے حد متاثر ہوئی ہے، جس کے چلتے گوشت کی تجارت پر منحصرقریشی سماج کے بے شمار لوگ اچانک بے روزگار ہو گئے ہیں، عالم یہ ہے تقریباً ایک ہفتے سے گوشت کی دکانوں پر تالے لٹکے ہوئے ہیں اور روزانہ گوشت کھانے والے لوگ بھی دال سبزی کھانے کو مجبور ہو رہے ہیں۔ گوشت بند کے سبب بے روزگار ہوئے قریشی کے لوگوں کو اپنے مستقبل کی فکر ستانے لگی ہے،جس کے سبب دیوبند میں قریشی سماج کے لوگوں نے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کی ہے اور اپنا روزگار واپس حاصل کرنے کے لئے بھوک ہڑتال شروع کردی ہے۔ آج سماجی کارکن و قریشی سماج کے لیڈر سلیم قریشی کی قیادت میں شہر کے محلہ بیرون کوٹلہ میں واقع نیم تلہ چوک پر بڑی تعداد میں قریشی سماج کے مرد و خواتین جمع ہوئے اور یوگی حکومت کے گوشت بندی کے فیصلے کو سیدھے طورپر ان کے منہ کو نوالہ چھیننے والا بتایا ۔گوشت بندی کے فیصلہ کے خلاف آخری سانس تک لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے قریشی سماج کے پانچ افراد ظہیر قریشی،مسرور قریشی، گلزارقریشی، گلش قریشی اور سنور قریشی نے بے میعادی بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ بھوک ہڑتال پر بیٹھنے والے قریشی سماج کے لوگوں کاکہنا ان کی تجارت ٹھپ ہونے کے سبب ان کے خاندان کے سامنے روزی روٹی کا مسئلہ پیدا ہوگیاہے،وہ اپنے بچوں کو اس طرح مرتا نہیں دیکھ سکتے اسلئے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھوک ہڑتال کرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو گا اور ان کا روزگار واپس نہ مل جانے تک وہ لوگ بھوک ہڑتال سے نہیں ہٹیں گے چاہے ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔اس دوران صفتا قریشی،کاپل قریشی،غیور قریشی،رمضانی قریشی، کلیم قریشی،افضال قریشی، ناظم قریشی، نسرین قریشی، شاہین قریشی، بیگم قریشی، پروین قریشی سمیت سماج کے سیکڑوں مرد و خواتین موجودرہے۔