عطیہ صابری کے بعد ضلع سے دوسرا معاملہ آیا سامنے،مسلم پرسنل لاء بورڈ و دیگر تنظیموں کی اعلیٰ سطحی بیداری تحریکیں بے اثر
دیوبند(ملت ٹائمز؍سمیر چودھری)
طلاق ثلاثہ کو لیکر سپریم کورٹ میں جاری استغاثہ آخری مرحلہ میں ہے جہاں مسلم پرسنل لاء بورڈ پوری طاقت کے ساتھ پرسنل لاء کا موقف رکھ رہاہے لیکن زمینی سطح پر بورڈ ودیگر ملی تنظیموں کی تحریک کافی کمزور دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ایک طرف جہاں بی جے پی دعویٰ کررہی ہے کہ طلاق ثلاثہ کے نام پر انہیں مسلم خواتین کاووٹ حاصل ہوا وہیں سہارنپور ضلع سے عطیہ صابری کے ہائی پروفائل کیس کے بعد ایک دوسری خاتون نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کو مکتوب بھیج کر اس کے شوہر کے ذریعہ دی گئی اسے تین طلاق پر انصاف دلائے جانے کی فریاد کی ہے۔سلسلہ وار سامنے آرہے اس نوعیت کے یہ معاملے ہماری سماجی اور فکری انحطاط کی سطح کو نہ صرف واضح کررہے ہیں بلکہ دارالقضاء اور مسلم پرسنل لاء بورڈ ودیگر ملی و سماجی تنظیموں کے ذریعہ اخباری تحریکیں زمینی سطح پر بے دم نظر آرہی ہیں۔ بھلے ہی مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے حق میں کروڑوں مرد وخواتین کے دستخط ہونے کا دعویٰ کررہاہو لیکن جب تک عوام کے درمیان اس معاملہ کو لیکر باقاعدہ عملی تحریک نہیں چلائے گی اس وقت اس نوعیت کے واقعات کو کنٹرول کرنا نہایت مشکل ترین عمل ہے،وہیں یہ واقعہ مسلم سماج کی شریعت کے تئیں بیداری پربڑاسوال کھڑا کررہے ہیں۔ سہارنپور کی عطیہ صابری کے بعد قصبہ نانوتہ میں تین طلاق کا ایک اور معاملہ سامنے آیا ہے، یہاں ایک حاملہ عورت کو اس کے شوہر نے تین بار طلاق بول کرگھر سے نکال دیا، خاتون کا الزام ہے اسے اس وجہ سے طلاق دیا گیا ہے کہ کیونکہ اس نے پیٹ میں پل رہے بچے کا ابوشن کرانے سے انکار کر دیا تھا۔متاثرہ خاتون کے مطابق اس کی پہلی دو بیٹیاں ہیں اور سسرال کے لوگوں کو خدشہ ہے کہ تیسری بھی بیٹی نہ ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ سسرال والے اسقاط حمل کرانا چاہتے ہیں، متاثرہ کا یہ بھی الزام ہے کہ جب اس نے پولیس سے اس معاملے کی شکایت کو ہی تو پولیس تھانے میں بھی اس کی سماعت نہیں ہوئی، ابھی خاتون نے وزیر اعظم نریندر مودی سے تین طلاق کو ختم کرنے اور اپنے پیٹ میں پل رہے بچے کی حفاظت کی فریاد کی ہے۔قصبہ نانوتہ کے محلہ قانون گویان کی رہنے والی شگفتہ نے وزیر اعظم نریندر مودی اور یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو خط بھیجا ہے۔ اس خط میں متاثرہ نے لکھا ہے کہ تقریباً پانچ سال پہلے اس کی شادی گنگوہ کے بڈھا کھیڑا گاؤں کے رہنے والے شمشاد کے ساتھ شادی ہوئی تھی، شادی کے بعد اس کی دو بیٹیاں ہیں اور اس وقت وہ حاملہ ہے۔الزام ہے کہ تیسری بھی بیٹی نہ ہو جائے اس خوف سے 24؍ مارچ کو شوہر اورسسرال کے دوسرے لوگوں نے اس پر اسقاط حمل کرانے کا دباؤ بنایا،لیکن اس نے پیٹ میں پل رہے بچے کا قتل کرنے سے صاف انکار کر دیا تو اس کے ساتھ مارپیٹ بھی کی گئی۔الزام ہے کہ اسی دوران غصہ میں ناراض اس کے شوہر نے اسے تین بار طلاق بول دیا اور گھر سے نکال دیا۔ متاثرہ کے مطابق اسی دن وہ اپنے میکے لوٹ آئی اور نانوتہ تھانے میں پہنچ کر پولیس کو مکمل واقعہ بتایا لیکن پولیس نے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، ابھی خاتون نے ایس ایس پی اور ڈی آئی جی سمیت وزیر اعظم نریندر مودی و سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ سے انصاف کی فریاد کی ہے۔





