تبسم فاطمہ
یہ کہا جارہا ہے کہ ہندوستان برے دور سے گزر رہا ہے۔ اس میں سچائی سے انکار نہیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اگر ہندوستانی مسلمانوں پر برا وقت آیا ہے تو اس میں سیاسی پارٹیوں کی سازش اور منصوبہ بند حکمت عملی کے علاوہ خود مسلمانوں کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک سوال ہے کہ کیا اس وقت خوفناک حالات کے شکار صرف ہندوستان کے مسلمان ہیں؟ سچائی یہ ہے کہ جنگ، مالی بحران اور دہشت گردی کے شکار اس وقت زیادہ تر اسلامی ممالک بھی ہیں۔ عراق ابھی بھی فضائیہ حملوں کا شکار ہے۔ افغانستان کا اب بھی برا حال ہے۔ شام میں کیمیائی حملے ہورہے ہیں۔ ٹرمپ، پوتن کے ساتھ برطانیہ بھی خاموشی کے ساتھ مسلم مخالفت کا کردار ادا کررہا ہے۔ چین میں مسلمانوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اور پڑوسی ملک کی خانہ جنگی مسلسل پاکستان میں عوام کو نقصان پہنچانے کا کام کررہی ہے۔ اس وقت جب ایک دنیا مسلمانوں کے خلاف ہے، تو صرف ہندوستانی سیاست کو نشانہ بنانا میرے خیال سے مناسب اور صحیح نہیں۔ یہ مت بھولیے کہ اشتعال انگیز بیانات دینے میں مسلمان کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اور آج ہندوستان کے مسلمان اس بات کا بھی خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ آزادی کے ستر برس کی تاریخ میں مسلمانوں نے ’صرف مسلمانوں‘ کو مسئلہ بنا کر ہندوستان کی مین اسٹریم سے خود کو علیحدہ کرلیا ہے۔ میں ہندواکثریت کی نفسیات کا تجزیہ کرتی ہوں تو آج کے حالات کا جائزہ لینا میرے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ کالج کے دنوں میں میری ایک غیر مسلم سہیلی نے مجھ سے دریافت کیا تھا کہ ’کیا تم لوگ ہندوستان کے شہری نہیں ہو؟ اگر ہو تو پھر مسلمان مسلمان کیوں کرتے ہو؟‘ اس وقت یہ بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ لیکن اب آج کی صورتحال میں حقیقت پوری طرح واضح ہوچکی ہے۔ اب بھی کئی ایسے غیرمسلم دوست ہیں جو سنجیدہ ہو کر پوچھتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے، جیسے ہندوستان میں صرف تم ہی لوگ رہتے ہو۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہے151؟ کچھ دن پہلے ایک صحافی دوست نے دریافت کیا، بھول جائیے کہ حکومت کیا کررہی ہے؟ یہ بتائیے کہ ہندوستان کے مستقبل کی فکر، مالی، بحران، کسانوں کی خودکشی، عورتوں کے استحصال سے بھی بڑا مسئلہ کیا صرف مسلمان ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ملک کے مسلمان تمام مسائل سے خود کو کاٹ کر صرف مسلمان مسلمان کیوں کرتے ہیں؟
یہ ستر برسوں کا المیہ رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں صرف ’مسلمانوں کا مسئلہ‘ دکھایا گیا۔ میرے پاس صحافی دوست کے سوال کا مناسب جواب تھا کہ مسلمانوں کو ’مسلمان مسلمان‘ کرنے کا راستہ بھی سیاسی جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں کی سازش کانتیجہ ہے۔ یہ وہ سازش تھی کہ مسلمانوں کو اپنے ملک سے، اپنے ملک کے مسائل سے الگ کردیا جائے۔ مسلمانوں کو اس کی پسماندگی، غربت اور مسائل کا چہرہ دکھایا جائے۔ اور یہ صورتحال پیدا کی جائے کہ مسلمان، ہندوستان کی ترقی اور سلامتی بھول کر اپنی فکر میں الجھ جائے۔ کیا یہ راستہ کانگریس کا تھا؟ آر ایس ایس کا تھا؟ کیا ایک مشن کے ذریعہ بڑا کھیل کھیلا گیا تھا؟ مسلمان اگر پسماندہ یا غریبی لائن سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا تو یہ کوئی سیاسی سرخی بننے کا موضوع نہیں تھا۔ اس کا حل خود مسلمانوں کو تلاش کرنا تھا۔ کانگریس نے سچر کمیٹی، رنگناتھ مشرا کمیشن جیسے بڑے بڑے پھندے مسلمانوں کے لیے تیار کیے۔ مسلمان اس پھندے میں ایسا پھنسا کہ ملک بھول کر صرف مسلمان بن کررہ گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ کچھ چھوٹی چھوٹی مثالوں سے قطع نظر ہندوستان کا اکثریتی ہندو سماج ان ستر برسوں میں مسلمانوں کی چیخ سن سن کر نہ صرف تھک گیا تھا بلکہ بیزار بھی ہوگیا تھا۔ ابھی ایک سروے رپورٹ میں کہاگیا کہ ملک کے ۷۴ فیصد مسلمان ہندوؤں کو دوست سمجھتے ہیں جبکہ ۳۳ فیصد ہندو مسلمانوں کو دوستی کے قابل تصور کرتے ہیں۔ رپورٹ میں ہندو مسلمانوں کے درمیان بڑی اور گہری ہوتی کھائی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ سروے رپورٹ کی قابلیت پر ہمیں بھی شہہ ہے مگر ملک کی تصویر کم وبیش آج یہی ہے۔ اکثریتی ہندو سماج مسلمانوں سے بیزار ہے بلکہ مسلمانوں کو ملک کی ترقی اور فروغ میں رکاوٹ تصور کرتا ہے۔ ملک کی تصویر بدلی ہے تو اس کے ذمہ دار بہت حدتک مسلمان بھی ہیں۔ چین اور کئی ممالک سے حجاب پر پابندی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ کیا ہندوستان میں ایسا ہوا؟ کئی ممالک میں داڑھی رکھنے والے مسلم نوجوانوں کو روزگار نہیں دیا جاتا۔ ابھی ہمارے ملک میں اس طرح کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ابھی بھی مسلمانوں پر جو ظلم وزیادتیاں دیگر ممالک میں ہورہے ہیں، ہندوستان میں ایسی صورتحال فی الوقت نہیں ہے۔ روہنگیا میں بودھ مذہب کے ماننے والوں نے مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ وہی بودھ مذہب ہے،جسے امن وشانتی کا مذہب کہا جاتا ہے۔ اس عالمی سیاست پر غور کیجئے، جو مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اس میں عرب ممالک کا بھی قصور کم نہیں ہے کہ جو متحد نہیں ہوسکے اور امریکن پالیسیوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر اپنی تباہی وبربادی کا سامان کرتے رہے اور آج بھی کررہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس ملک میں اب کانگریس کی حکومت نہیں ہے جو نام نہاد جمہوریت اور سیکولرزم کے نام پر حکومت کرتی تھی۔ اب مودی کی حکومت ہے، جن کا مقصد آر ایس ایس کے مشن کو فروغ دینا ہے۔ مودی اس حقیقت سے واقف تھے کہ اگر کانگریس مردہ ہوجاتی ہے تو ہندوستان پر آر ایس ایس کی حکومت کو مسلط کرنا آسان ہوجائے گا۔ سونیا بیمار ہیں۔ راہل گاندھی کو میڈیا نے ایک ایسے کمزور کردار کے طور پر پیش کیا ہے، جو اقتدار کی ذمہ داری قبول کرنے کے لائق نہیں۔ کانگریس مکت ہندوستان بنانے میں اگر مودی حکومت کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر آر ایس ایس کے طوفانی مشن کو روکنا کسی کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ آر ایس ایس بہت حد تک اپنے مشن میں کامیاب ہوچکا ہے۔ اس وقت ایک صورتحال یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں متحد ہوکر بھی مودی اور آر ایس ایس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں مسلمانوں کا ’مسئلہ‘ بننا مسلمانوں کے لیے مزید مشکل کھڑی کرسکتا ہے۔ ابھی ٹھہر کر مسلمانوں کو کچھ سوالوں کے جو ابات دینے ہیں۔ کیا وہ آر ایس ایس سے لڑسکتے ہیں؟ کیا وہ سیاسی پارٹیوں کے تعاون سے اپنی جنگ تیز کرسکتے ہیں؟ کیا سیاسی پارٹیاں ایمانداری سے مسلمانوں کا ساتھ دیں گی151؟ ان تینوں کے منفی جواب میں مسلمانوں کے، آج کا سچ پوشیدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان مایوس ہوجائیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان شکست قبول کرلیں۔ اس کا مطلب صرف یہ کہ مسلمان اب حالات کے پیش نظر اپنی اسٹریٹجی بدل دیں۔ وہ ملک کی سر بلندی کے لیے کام کریں۔ وہ مین اسٹریم کا حصہ بنیں۔ وہ تعلیم پر زیادہ سے زیادہ وقت خرچ کرین۔ مسلم جماعتیں تعلیم کے فروغ میں سامنے آئیں۔ مدرسوں کا روایتی چہرہ بدلا جائے۔ غیر مسلموں کے اشتعال انگیز بیانات پر توجہ نہ دی جائے۔ کچھ برا ہوتا ہے تو مسلم جماعتیں خاموشی سے اپنا کام کریں۔ مثال کے لیے فرضی انکاؤنٹر، فرقہ وارانہ فسادات کے لیے اکسانا، نماز نہ پڑھنے دینا۔ (ایسے کچھ واقعات میں ان دنوں شدت آئی ہے151) مسلمان مصلحت، خاموشی اور محبت سے ایسے ہر مسئلہ کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ ملک کی پچیس سے تیس کروڑ آبادی کا قتل ممکن نہیں۔ ہم ان سے ٹکرانے کی غلطی نہ کریں۔ اس وقت وہ ہر اعتبار سے مضبوط ہیں۔ ہم جلسوں اور مشاعروں میں مخالفت کا انداز نہ اپنائیں۔ عوامی رابطے کو مستحکم بنانے کے لیے ہندوؤں کو ساتھ لے کر چلیں۔ اس میں شک نہیں کہ آدتیہ ناتھ کی تاج پوشی کے بعد کچھ سنگین واقعات سامنے آئے ہیں۔ ابھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ہم مشتعل ہوکر حالات اور خراب کردیں گے۔ ہم عدلیہ پر بھروسہ کریں۔ یہ ثابت کر دکھائی کہ ہندوستان کا مسلمان ملک کی بہتری اور مستقبل کے لیے بھی فکر مند ہے۔ مسلمان اگر چاہیں تو مصلحت، محبت اور تعلیم سے ہندوستان کا موجودہ چہرہ بدلنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔(ملت ٹائمز)
’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘
tabassumfatima2020@gmail.com