اوریا مقبول جان
حلب کے شہر جرابلس میں کھڑے ہوئے میں اردگرد کے جغرافیہ کی جانب غور کر رہا تھا۔ جیسے ہی آپ ترکی کی سرحد سے شام کے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ کو کئی سو کلومیٹر کی چوڑائی اور لمبائی پر مشتمل ایک میدان سا ملتا ہے۔ یوں لگتا ہے یہ خطہ برصغیر کے پانی پت کی طرح ہے، جہاں برصغیر پاک وہند پر حملہ آور یہاں کے رہنے والوں سے آخری معرکہ لڑا کرتے اور پھر ان کے گھوڑے بقیہ ہندوستان کو روندتے ہوئے گزر جاتے تھے۔ ترکی کے شہر غازی انتب کی بلندیوں سے جیسے ہی آپ شام میں داخل ہوں آپ کے سامنے دو شہر نظر آئیں گے۔ ایک ”جرابلس” دوسرا ”کوبانی” اور ان کے درمیان سے ایک راستہ اس قصبے کی طرف جاتا ہے جسے دابق کہتے ہیں اور اسی کے قریب اعماق کا قصبہ واقع ہے۔ یہی وہ مقامات جن کے بارے میں سید الانبیاءنے فرمایا ہے ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، یہاں تک کہ رومی اعماق یا دابق میں اتریں گے، ان کی طرف سے لڑنے کے لیے ایک لشکر مدینہ روانہ ہو گا اور ان سے لڑنے کے لیے مدینہ سے آنے والا لشکر زمین پر بسنے والوں میں سے نیک لوگوں کا ہو گا۔ جب وہ صف بندی کریں گے تو رومی کہیں گے، تم ہمارے اور ان کے درمیان دخل اندازی نہ کرو، جنہوں نے ہم لوگوں میں سے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیا ہے، ہم ان سے لڑیں گے۔
مسلمان کہیں گے، نہیں اللہ کی قسم ہم اپنے بھائیوں کو ایسا تنہا نہیں چھوڑیں گے کہ ہم ان سے لڑتے رہو۔ بالآخر وہ رومیوں سے لڑائی کریں گے۔ ان میں سے ایک تہائی مسلمان بھاگ جائیں گے۔ جن کی اللہ کبھی توبہ قبول نہیں کرے گا اور ایک تہائی قتل کر دئیے جائیں گے، جو اللہ کے نزدیک افضل الشہدا ہوں گے اور ایک تہائی فتح حاصل کر لیں گے، انہیں کبھی آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا۔ پس پھر وہ قسطنطنیہ فتح کر لیں گے (مسلم) اعماق کی جانب جانے والے راستے پر کھڑے ہو کر میں نے ایک بار استنبول ک جانب دیکھتے ہوئے سوچا، یہ شہر جسے قسطنطنیہ کہا جاتا تھا، آج مغرب کے مقابلے میں آہستہ آہستہ اپنے وجود کو ابھارتا چلا جا رہا ہے، کیا یہ دوبارہ مغرب کے قبضے میں آ جائے گا۔
استنبول میں سفر کے دوران دو طرح کے لوگ ملتے تھے، ایک وہ جو سیکولر، لبرل، مصطفی کمال اتاترک کی نسبت سے کمالسٹ اور فتح اللہ گولن کی نسبت سے گولنسٹ کہلاتے تھے۔ یہ سب کے سب طیب اردوان کے خلاف تھے، یہ کہتے تھے کہ اردوان آہستہ آہستہ ترکی کو خلافت عثمانیہ کی جانب لے جا رہا ہے اور اگر یہ ریفرنڈم جیت گیا تو اسے جو اقتدار ملے گا تو وہ ترکی کی سیکولر شناخت کو بدل کر رکھ دے گا۔ انقرہ میں جب یہی سوال میں نے وزارت مذہبی امور کے وزیر سے کیا کہ کیا ریفرنڈم کے بعد ترکی کے آئین کے پہلے چار آرٹیکل تبدیل کر دیئے جائیں گے تو وہ خاموش رہے، صدر طیب اردوان کی مشیر برائے خارجہ امور سے کہا تو اس نے فوراً کہا کہ یہ چار آرٹیکل کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے۔ یہ چار آرٹیکل سیکولر ازم اور جمہوریت کے تحفظ اور خلافت کے نظام سے انکار پر مبنی ہیں۔ دوسری جانب وہ لوگ جو طیب اردوان کے حامی ہیں۔ ان میں مسلم نشاة ثانیہ کا ایک جذبہ اور ولولہ ہے۔
قونیہ میں اردوان کا آخری ریفرنڈم کا جلسہ تھا، مجھے سٹیج سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مولانا روم کا شہر قونیہ اور اس کی عوام، اس جلسے میں جوق در جوق شریک تھے۔ لگتا تھا پورے کا پورا شہر اردوان سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ وہ کمال اتاترک کے ترکی پر لگائے گئے سیکولر ازم کے دھبوں اور داغوں کو دھونا چاہتا ہے۔ آج ریفرنڈم کے نتائج آ چکے ہیں۔ اردوان جیت چکا ہے، ریفرنڈم والے دن لوگ ووٹ کی پرچی کے ساتھ ایک اور پرچی بھی بیلٹ باکسوں میں ڈال گئے جس پر تحریر تھا ”ہم نے سلطان عبدالحمید کو تنہا چھوڑ دیا، لیکن اردوان ہم تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے”۔
پورا مغربی پریس اس ریفرنڈم کے خلاف تھا، وہ یورپ جن کے مظالم کا اصل چہرہ ترکی کے بچے بچے کے سامنے ہے۔ وہ مغرب جس نے شام پر اپنی بربریت کے سائے شام کے بدترین آمر بشار الاسد کی مدد کر کے پھیلائے اور وہاں سے چالیس لاکھ لوگ ہجرت کر کے ترکی کے شہروں میں آ کر آباد ہوئے۔ ترکی کے عوام کو اردوان کے ریفرنڈم کی مخالفت کرنے والے مغربی ممالک کا چہرہ اچھی طرح معلوم ہے۔ انہیں یورپی یونین کی نفرت کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لیے وہ اردوان کے ساتھ ہیں۔ لیکن شام کی سر زمین پر کھڑا میں سوچ رہا تھا کہ سید الانبیاءکی احادیث کو ایک ترتیب سے دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ اب مغرب اردوان کے ترکی کو سزا دینے پر آمادہ ہو جائے گا اور جب آخری معرکہ دابق اور اعماق کے آس پاس برپا ہو گا تو استنبول رومی یعنی مغرب کی افواج کے کنٹرول میں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ? نے قسطنطنیہ یعنی استنبول کی فتح کے بارے میں ایک اور جگہ فرمایا ”کیا تم نے ایک شہر کا سنا ہے جس کی ایک جانب خشکی میں ہے اور دوسری جانب سمندر میں ہے، صحابہ نے عرض کیا جی ہاں ”اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ بنو اسحاق میں سے ستر ہزار آدمی جنگ نہ کر لیں۔ جب وہ اس شہر کے پاس آئیں گے تو وہ نہ ہتھیاروں سے جنگ لڑیں گے اور نہ تیروں سے۔ وہ کہیں گے لاالہ الااللہ واللہ اکبر تو اس شہر کی ایک طرف گر جائے گی، پھر وہ دوسری دفعہ یہی کہیں گے تو ان کے لیے کشادگی کر دی جائے گی اور وہ اس میں داخل ہو جائیں گے جب وہ مال غنیمت آپس میں تقسیم کر رہے ہوں گے تو انہیں ایک چیخ سنائی دے گی کہ دجال نکل چکا ہے اور وہ ہر چیز چھوڑ کر واپس لوٹ جائیں گے۔ (مسلم)
ترکی اور شام کے حالات کو قریب سے دیکھیں تو آپ کو اس حدیث کے سمجھنے میں ذرا برابر بھی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ آخر الزمان اور دور فتن کی جتنی بھی احادیث ہیں۔ ان کو ترتیب سے پڑھنے کے بعد یوں لگتا ہے کہ سب کچھ اسی ترتیب سے جاری ہے ”جزیرہ نما عرب اس وقت تک خراب نہیں ہو گا جب تک مصر میں خرابی نہ آ جائے” اگلے مرحلے پر فرمایا ”جب مصر میں پیلے جھنڈے بلند ہوں تو شام کے لوگوں کو زمین دوز پناہ گاہیں بنا لینی چاہئیں”۔ آپ ذرا ان دونوں احادیث پر غور کریں مصر میں عرب بہار کے دوران مرسی کے چار انگلیوں والے پیلے جھنڈے اور شام پر بشار الاسد سے لے کر روس اور امریکہ کے طیاروں کی بمباری اور وہاں آخری معرکے کا بازار گرم ہے اور پھر شام کے فساد کے بارے میں آپ? نے فرمایا ”جب اہل شام فساد گھیرے گا تو تمہارے درمیان کوئی خیر باقی نہیں رہے گی” (کتاب الفتین۔ جامع ترمذی)
فساد نے شام کو چاروں جانب سے گھیر رکھا ہے لیکن اس فساد میں ترکی کا کردار عظیم ہے۔ میں ترکی کا پاکستان موازنہ کر رہا تھا۔ ہمارے ہاں تیس لاکھ افغان مجاہدین آئے تھے۔ ترکی میں چالیس لاکھ شامی مہاجرین ہیں۔ ہمارے ہاں ان میں سے تیس فیصد شہروں میں رہے باقی کیمپوں میں، ترکی میں سب کے سب شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ ترکی میں ان کے لیے صحت کی سہولیات مفت ہیں اور وہ سکول جہاں ترک بچے امتحان دے کر داخل ہو سکتے ہیں، شامی بچے بغیر امتحان داخل ہوتے ہیں۔ ترکی نے ان کے یتیموں کے لیے علاحدہ دار الیتامہ بنائے ہیں اور ان بچوں کے لیے جو نصاب تعلیم ہے وہ وہی شام والا ہے تاکہ یہ لوگ اگر کل واپس جائیں تو اپنی زبان اور نصاب تعلیم نہ بھول چکے ہوں۔ ترکی یہ سب کچھ اسلامی اخوت سے بخوشی برداشت کر رہا ہے۔
ہم نے افغان مہاجرین سے سرمایہ بنایا۔ آپ ان تمام مہاجر کیمپ ایڈمنسٹریٹروں کی جائیدادیں دیکھ لیں جو افغان کیمپوں پر مقرر تھے۔ ہمارے علمائ اور جہادی بڑی بڑی گاڑیوں اور کوٹھیوں میں منتقل ہو گئے۔ ہم نے ان کے لیے صحت کا علاحدہ بندوبست کیا اور نہ تعلیم کا، بلکہ ان کے نام پر پوری مغربی دنیا اور امریکہ سے سرمایہ بٹورتے رہے۔ اسی لیے ہم ذلت ورسوائی کی دلدل میں ہیں اور ترکی جس نے مسلم امہ کی نمائندگی کا کردار ادا کیا اپنے شامی مسلمان بھائیوں کو دل سے گلے لگایا وہ اللہ کی نعمتوں اور برکتوں سے مالا مال ہے۔ کسی ترک کے ماتھے پر شکن نہیں کہ یہ چالیس لاکھ شامی مہاجرین چھ سال سے یہاں آباد ہیں۔ ہماری معیشت پر بوجھ ہیں۔
دوسری جانب ہمارا رونا ہی ختم نہیں ہوتا۔ شام کے ان مہاجرین میں ایک بڑی تعداد بیواو¿ں کی ہے۔ ان کے سنٹر الگ ہیں۔ ہر بیوہ صرف ایک مشن لیے ہوئے ہیں کہ اس نے شام کو درندوں سے واپس لینا ہے۔ یہ درندے امریکہ، روس، اسرائیل، بشار الاسد، حزب اللہ اور ایران ہیں۔ انہیں اب سعودی عرب اور قطر سے بھی نفرت ہو چکی ہے وہ کہتے یہ عرب ممالک انہیں مروا کر اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔ ایک بریگیڈیئر کی بیوہ نے اپنی سات بچیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے آنسوو¿ں میں ڈوبی آنکھوں سے مجھے کہا۔ یہ بچیاں لڑیں گی جنگ، کیا ہوا ان کا باپ، بھائی، ماموں، چچا شہید کر دئیے گئے۔ یہ واپس جائیں گی شام، فتح ونصرت کے ساتھ۔(ملت ٹائمز)