عمیر کوٹی ندوی
سب جانتے ہیں کہ اس وقت ہندوستان میں طلاق، تین طلاق کا مسئلہ بہت ہی زور شور سے اچھالا جارہا ہے۔یہ بات الگ ہے کہ اول روز سے اس کا مقصد مسلم قیادت کے سامنے واضح تھا ۔ اس نےپہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ اس کا نشانہ اسلام ہے اور اس کی تان ” یکساں سول کوڈ ” کی وکالت پر ٹوٹے گی۔ لیکن کچھ لوگوں نے ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے چنگاری کو شعلہ بننے کا موقع دیا ۔ اس حقیقت سے انکار شائد کسی کے لئےبھی ممکن نہ ہوگا کہ دیگر معاملات کی طرح ملت اسلامیہ میں سے ہی کچھ لوگ روشن خیالی یا دیگر فروعی افکار وخیالات کی وجہ سے غیر شعوری طور پراس کا ایندھن بن گئے۔ بہر کیف وجوہات جو کچھ بھی ہوں لیکن ان کے نتیجہ میں یہ چنگاری اب شعلہ بن گئی ہے۔یہ بات بھی کھل کر کے سامنے آگئی ہے کہ اس کی لپٹیں تین طلاق کو نہیں اسلام کو خاکستر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ اغیار کی طرف سے اسی مقصد سے ہی بھڑکائی گئی ہیں۔ اغیار بھی پس پردہ رہنے کے بجائےاب کھل کر کے سامنے آگئے ہیں۔ ویسے تو اس مسئلہ پر بہت دنوں سےکچھ نہ کچھ کہنے کا سلسلہ چل رہا تھا اور اسے ہوا دینے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن حالیہ اسمبلی انتخابات سے پہلے سے لے کر اب تک اس تعلق سے جوبیانات دئے گئے اور اس وقت بھی دئے جارہے ہیں، انہیں دیکھ کر حقائق اور عزائم کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
اس وقت اغیار کی طرف سے میڈیا کے توسط سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلا م کا عطا کردہ نظام طلاق عورت پر ظلم ہے۔یہ بات کس قدر فرضی ہے اسے اس معاشرے کو سامنے رکھ کر آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے جہاں سرے سے طلاق یا ازدواجی رشتہ سے چھٹکارا پانے کا کوئی نظم ہی نہیں ہے۔ اسلام کو دیکھ کر اپنے یہاں جو نظم انہوں نے بنایا وہ انسانی ذہن کا تیار کردہ ہے۔ اس لئے اس معاشرہ میں طلاق کے خود ساختہ نظم کے اثرات کا اندازہ میڈیا میں کسی طرح سے آجانے والی ان خبروں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو کہ اصل واقعات اور ان کے اعداد وشمار کا بہت تھوڑا ہی حصہ ہیں۔ اس کے باوجود روزانہ اخبارات اور نیوز چینلز اس طرح کی خبروں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا حالیہ ریمارک بھی معاشرے کی سچائی سے پردہ اٹھانے کے لئے کافی ہے جس میں اس نے اس ملک میں خواتین پر بڑھتے ہوئے مظالم پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ہماچل پردیش کی ایک لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کرنے اور خودکشی کرنے جیسا قدم اٹھانے کے لئے اسے مجبور کرنے کے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ملک کی موجودہ صورت حال پر نارضگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ “کیا اس ملک میں خواتین کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے؟”۔ یہ خواتین پر روا رکھی جانے والی کتنی کڑوی حقیقت ہے جسے سپریم کورٹ نے بیان کیا ہے۔
برادران وطن کے یہاں رشتہ ازدواج سے علاحدگی کافطری نظم نہ ہونے اور طلاق کا انسانی ذہن کا تیار کردہ نظم ہونے کی وجہ سے نہ جانے کتنی لڑکیاں اور عورتیں ہر لمحہ ظلم وبربریت کا شکار ہورہی ہیں ۔ مارڈالی جاتی ہیں،زندہ جلادی جاتی ہیں،جہاں یہ ممکن نہ ہو تو بیوہ اور مطلقہ کی طرح ساری زندگی لٹکا کر رکھی جاتی ہیں، اس طرح کے واقعات کا تو شمار ہی ممکن نہیں ہے۔بیواؤں کی تو بات ہی کیا کرنا ان کا حال کتنا برا ہے یہ سب پر واضح ہے۔ ہمارے ملک کی بہت سی جگہیں بیواؤں کے لئے جانی جاتی ہیں۔ اپنوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ بدترین بدحالی کا شکار ہیں۔ ایک طرف لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ شعوری طور پر روا رکھے جانے والےظلم وجور کی لامتناہی داستان ہے۔ دوسری طرف اسلام کا عطاکردہ نظام طلاق ہے۔لہذا اس پر گفتگو کرتے وقت اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہےکہ اسلام میں طلاق کی جو گنجائش رکھی گئی ہے اس کا مقصد کیا ہے۔ اس سلسلہ میں مولانا محمد رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کانپور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ “طلاق شریعت کا حکم ہے۔شریعت اللہ کی جانب سے ہے جس میں کوئی تصرف یا تبدیلی نہیں کرسکتا ۔ ملک جمہوری وسیکولر ہے جہاں ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی واجازت ہے۔اگر کوئی مسئلہ غوروفکر کا ہے تو دوسروں کو اس میں مداخلت کے بجائے مسلمانوں پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ اس پر غور وفکر کریں۔ اس میں حکومت یا کسی دوسرے کو دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ طلاق کے مسئلہ میں وہ لوگ طرح طرح کے تبصرے اور باتیں کررہے ہیں جنہیں اس سے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں”۔
طلاق کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ” درحقیقت طلاق ازدواجی زندگی میں ایک بڑی مشکل کا حل ہے۔ جب میاں بیوی کے رشتے وتعلقات اس قدر خراب ہوجائیں کہ ایک دوسرے کی صورت دیکھنا گوارہ نہ ہو تواس مشکل مسئلہ کا شرعی حل یہ ہے کہ طلاق کے ذریعہ آسانی سے الگ ہوجائیں……شریعت مطہرہ میں ازدواجی زندگی کی بڑی مشکل کا حل طلاق کی شکل میں دیا گیا ہے، جن لوگوں کے پاس اس مشکل کا حل نہیں ہے وہ تو بیوی کو جلا کر مار ڈالتے ہیں”۔ خواتین کے ساتھ اس طرح کی حیوانیت کا معاملہ تو انتہائی گھناؤنی حرکت ہے اسلام تو خواتین کے ساتھ معمولی درجہ کی زیادتی کو بھی برداشت نہیں کرتا ہے اس کے برخلاف وہ ان کے ساتھ عزت واحترام کا سلوک کرنے اور اچھا برتاو کرنے کا حکم دیتا ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے ہی خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا اور انہیں قانونی شکل دی۔ اسلام نے ازدواجی زندگی کی بڑی مشکل کا حل بتایا ہے اور اس کے تعلق سے واضح ہدایات بھی دی ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے “ضوابط برائے طلاق” کو جاری کرکے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے اور غیر اسلامی روش کو ترک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ نےمسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ “وہ طلاق کی بابت شریعت اسلامی پر عمل کرنےکو یقینی بنائیں”۔ اس وقت کے جو حالات ہیں انہیں دیکھتے ہوئےمسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اسلامی ہدایات پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی اس سے باخبر کریں۔