مسلم سماج اب بھی سدھر نے کو تیار نہیں ، حیدرآباد میں پھر پیش آیاتین طلاق کا معاملہ

حیدرآباد (ملت ٹائمز۔ایجنسیاں )
ملک میں ان دنوں تین طلاق کے مسئلہ کو لے کرگرما گرم بحث چل رہی ہے ۔ بعض مسلم خواتین مسلسل تین طلاق پر پابندی کا مطالبہ کر رہی ہیں ، لیکن مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نہیں چاہتا ہے کہ تین طلاق پر پابندی عائد ہو ، لیکن سماج میں تین طلاق کے واقعات مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔اتوار کو حیدرآباد سے تین طلاق سے جڑا ایک معاملہ سامنے آیاہے ۔تعزیرات ہند کی دفعہ 420، 406، 506آر ، ڈبلیو 34کے تحت سناتن نگر پولیس اسٹیشن میں سومینا شارفی نامی ایک خاتون نے 16؍مارچ کو شکایت درج کرائی ہے ۔سومینا نے شکایت میں کہا کہ اویس طالب کے ساتھ ان کا نکاح 2015میں ہوا تھا اور گزشتہ سال 28نومبر کو طالب نے اس نکاح کو ختم کرتے ہوئے تین طلاق کا میسج بھیج دیا ۔سومینا نے دعوی کیا کہ میرے نکاح کے بعد میرے شوہر کی والدہ دربار میں کالا جادو کرتی ہیں،میں اور میرے شوہر ایک ماہ کے لیے دبئی میں تھے،ہمارے واپس لوٹنے کے بعد انہوں نے میرے ساتھ ملازموں جیسا برتاؤ کیا، یہاں تک کہ مجھے صحیح طریقے سے کھانا بھی نہیں دیا جاتا تھا۔میری ساس نے میرے شوہر کے ساتھ مل کر مجھے اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ تعلقات بنانے کا دباؤ ڈالا، جب میں نے انکار کر دیا، تو انہوں نے مجھے مارا اور مجھے کئی دنوں تک کمرے میں بند کر دیا،اس کے میرے والد آئے اور مجھے گھر لے گئے۔اس کے بعد میں نے اپنے شوہر سے اس معاملے پر کئی بار بات کرنے کی کوشش کہ لیکن اس نے میرا فون نہیں اٹھایا۔اس کے کچھ ہی دنوں بعد اس نے میرے وہاٹس ایپ پرتین طلاق کا میسج کیا۔غورطلب ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے مسلسل تین طلاق سے جڑے معاملے میڈیا کی سرخیاں بن رہے ہیں، حکومت اس مسئلہ پر اپنا موقف صاف کر چکی ہے کہ اب فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے ۔بعض نام نہاد مسلم خواتین طلاق پر کورٹ سے قانون بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں ، اور کہ رہی ہیں کہ کسی بھی حالت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تجویزکردہ راستہ پر عمل نہیں کرنا چاہتی ہے ،وہ صرف عدالت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ تین طلاق پر ہندوستان میں پوری طرح سے پابندی لگائی جائے حالاں کہ ایسی خواتین کی تعداد ایک فیصد بہی نہیں ہے ،ملک کی نناوے فیصد شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔

SHARE