جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب روانگی کے بعد اب پاکستان نے اکتالیس ممالک کے عسکری اتحاد پر ایران کے تحفظات دور کرنے کی کوششیں شروع کردی ہے۔
اسلام آباد،(ملت ٹائمز،ایجنسیاں)
پاکستانی انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبون کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ایک قریبی معتمد اس سلسلے میں جلد ہی ایران کا دورہ کریں گے، جس میں وہ تہران کو اس اتحادمیں شامل ہونے کے لیے قائل بھی کریں گے اور ایرانی قیادت کے تحفظات دور کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ کوششیں بار آور ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ اس حوالے سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ امان میمن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی کیونکہ سعودی عرب ایران پر اعتماد نہیں کرتا۔ اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ ایران ایک مختلف نظریہ رکھتا ہے اور وہاں سعودی عرب کے بر خلاف جمہوریت بھی ہے۔ ایران ان کوششوں سے فائدہ اٹھا کر اور پاکستان کی بات تسلیم کر کے اپنی علاقائی سفارتی تنہائی کو ختم کر سکتا ہے۔ اس اتحاد کی صورت میں اسے ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آ سکتا ہے، جہاں وہ کئی مسائل پر اپنا نقطہء4 نظر بیان کر سکتا ہے لیکن ریاض ایسے کسی پلیٹ فارم پر ایران کو برداشت نہیں کرے گا۔ یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے غیر جانبداری کی توقع نہیں کرتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام آباد اس کا ساتھ دے۔ ایسی صورت میں پاکستان کی یہ کوششیں کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں۔‘‘قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ فرحان حنیف صدیقی کے خیال میں یہ کوششیں اس وقت بار آور ثابت ہوں گی جب تہران کو یہ محسوس ہو گا کہ یہ اتحاد واقعی دہشت گردی کے خلاف ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ذرائع ابلاغ کے مطابق اس اتحاد نے حال ہی میں القاعدہ کے کچھ لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ اگر یہ اتحاد واقعی القاعدہ اور داعش کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا رخ عراق و شام کی حکومتوں کے خلاف نہیں ہوتا ہے تو پھر میرے خیال میں ایران اس کا ساتھ دے گا۔ پاکستان کی کوششیں بھی تب ہی کامیاب ہوں گی، جب اسلام آباد ایرانی قیادت کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگا کہ اس اتحاد کا مقصد واقعی القاعدہ اور داعش کے خلاف لڑنا ہے۔ امریکا کی طرف سے مدر آف آل بم کا استعمال بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ واشنگٹن داعش کے خاتمے میں بہت سنجیدہ ہے۔ تو اگر اس اتحاد کا مقصد اسلامی عسکریت پسندوں کو ختم کرنا ہے، تو اس کو ایران کی بھی حمایت حاصل ہو گی اور امریکا بھی ممکنہ طور پر اس کی حمایت کرے گا۔‘‘لیکن کچھ سیاسی مبصرین کے خیال میں اس اتحاد کو امریکا و اسرائیل کی مبینہ پشت پناہی حاصل ہے اور ایران ایسے کسی اتحاد میں شامل ہونے کا نہیں سوچے گا جس کو امریکی و اسرائیلی سر پرستی حاصل ہو۔ معروف سیاسی تجزیہ نگار صابر کربلائی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ابھی چند روز قبل ہی ایک امریکی عہدیدار نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ اس نے سعودی حکمرانوں سے ملاقات کی اور بعد میں ایک اعلامیہ میں اس اتحاد کی حمایت کی اور ایران کی مخالفت کی، جس سے یہ بات واضح ہے کہ اس اتحاد کا اصل مقصد کیا ہے۔ میرے خیال میں تو پاکستان کو ایران کو بھی قائل کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایران اور سعودی عرب اپنے مسائل خود دیکھیں۔ ہماری ساری توجہ طالبان دہشت گردوں کے خلاف ہونی چاہیے اور ہمیں کسی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیے، جس کی تائید عالمی سامراجی ممالک کر رہے ہوں۔ میرے خیال میں پاکستان کی یہ سفارتی کوششیں بے جا ہیں اور ان سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ہمیں اپنی توانائیاں ایسے امور پر ضائع نہیں کرنی چاہیں۔‘‘معروف فلسطینی صحافی اور ماہرِ امورِ مشرق وسطیٰ جمال اسمعیل کے خیال میں ایران کو اس اتحاد میں شرکت کرنی چاہیے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’
اسلام آباد،(ملت ٹائمز،ایجنسیاں)
پاکستانی انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبون کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ایک قریبی معتمد اس سلسلے میں جلد ہی ایران کا دورہ کریں گے، جس میں وہ تہران کو اس اتحادمیں شامل ہونے کے لیے قائل بھی کریں گے اور ایرانی قیادت کے تحفظات دور کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ کوششیں بار آور ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ اس حوالے سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ امان میمن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی کیونکہ سعودی عرب ایران پر اعتماد نہیں کرتا۔ اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ ایران ایک مختلف نظریہ رکھتا ہے اور وہاں سعودی عرب کے بر خلاف جمہوریت بھی ہے۔ ایران ان کوششوں سے فائدہ اٹھا کر اور پاکستان کی بات تسلیم کر کے اپنی علاقائی سفارتی تنہائی کو ختم کر سکتا ہے۔ اس اتحاد کی صورت میں اسے ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آ سکتا ہے، جہاں وہ کئی مسائل پر اپنا نقطہء4 نظر بیان کر سکتا ہے لیکن ریاض ایسے کسی پلیٹ فارم پر ایران کو برداشت نہیں کرے گا۔ یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے غیر جانبداری کی توقع نہیں کرتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام آباد اس کا ساتھ دے۔ ایسی صورت میں پاکستان کی یہ کوششیں کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں۔‘‘قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ فرحان حنیف صدیقی کے خیال میں یہ کوششیں اس وقت بار آور ثابت ہوں گی جب تہران کو یہ محسوس ہو گا کہ یہ اتحاد واقعی دہشت گردی کے خلاف ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ذرائع ابلاغ کے مطابق اس اتحاد نے حال ہی میں القاعدہ کے کچھ لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ اگر یہ اتحاد واقعی القاعدہ اور داعش کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا رخ عراق و شام کی حکومتوں کے خلاف نہیں ہوتا ہے تو پھر میرے خیال میں ایران اس کا ساتھ دے گا۔ پاکستان کی کوششیں بھی تب ہی کامیاب ہوں گی، جب اسلام آباد ایرانی قیادت کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگا کہ اس اتحاد کا مقصد واقعی القاعدہ اور داعش کے خلاف لڑنا ہے۔ امریکا کی طرف سے مدر آف آل بم کا استعمال بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ واشنگٹن داعش کے خاتمے میں بہت سنجیدہ ہے۔ تو اگر اس اتحاد کا مقصد اسلامی عسکریت پسندوں کو ختم کرنا ہے، تو اس کو ایران کی بھی حمایت حاصل ہو گی اور امریکا بھی ممکنہ طور پر اس کی حمایت کرے گا۔‘‘لیکن کچھ سیاسی مبصرین کے خیال میں اس اتحاد کو امریکا و اسرائیل کی مبینہ پشت پناہی حاصل ہے اور ایران ایسے کسی اتحاد میں شامل ہونے کا نہیں سوچے گا جس کو امریکی و اسرائیلی سر پرستی حاصل ہو۔ معروف سیاسی تجزیہ نگار صابر کربلائی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ابھی چند روز قبل ہی ایک امریکی عہدیدار نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ اس نے سعودی حکمرانوں سے ملاقات کی اور بعد میں ایک اعلامیہ میں اس اتحاد کی حمایت کی اور ایران کی مخالفت کی، جس سے یہ بات واضح ہے کہ اس اتحاد کا اصل مقصد کیا ہے۔ میرے خیال میں تو پاکستان کو ایران کو بھی قائل کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایران اور سعودی عرب اپنے مسائل خود دیکھیں۔ ہماری ساری توجہ طالبان دہشت گردوں کے خلاف ہونی چاہیے اور ہمیں کسی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیے، جس کی تائید عالمی سامراجی ممالک کر رہے ہوں۔ میرے خیال میں پاکستان کی یہ سفارتی کوششیں بے جا ہیں اور ان سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ہمیں اپنی توانائیاں ایسے امور پر ضائع نہیں کرنی چاہیں۔‘‘معروف فلسطینی صحافی اور ماہرِ امورِ مشرق وسطیٰ جمال اسمعیل کے خیال میں ایران کو اس اتحاد میں شرکت کرنی چاہیے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’