برے میں بھلا

ثناء اللہ صادق تیمی
ملت ٹائمز
2014میں بھاری اکثریت سے جب بی جے پی لوک سبھا انتخابات جیت کر آئی تھی تو جہاں ایک طرف اس کے خیمے میں خوشیوں کی شہنائیاں تھیں وہیں دوسری طرف اپوزیشن بشمول کانگریس دوسری تمام سیکولرپارٹیوں کے قائدین کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں ، چھ سے آٹھ مہینے تک تو صورت حال ایسی رہی کہ جیسے دیش میں کوئی حزب مخالف ہو ہی نہیں ، حزب مخالف کو تو چھوڑدیجیے سیاسی مفکرین اور سماجی کارکنان تک کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ویسی خاموشی دیکھنے کو ملی ۔ بہت سے لوگوں نے تو اپنا قبلہ و کعبہ تک بدل لیا اور جو بدل نہ سکے یا جنہیں بدلنا منظور نہ ہوا یا جن کے ضمیر اور شعور نے ویسا کرنے سے روکے رکھا انہوں نے خاموشی میں ہی بھلائی محسوس کی اور چپ کی دبیز پرت اپنے لبوں پر رکھ لیا ۔
لیکن بی جے پی کی بدقسمتی کہیے یا اس کے نظریے کا بانجھ پن کہ وہ خود اپنی قبر کھودنے کا کام کرتی چلی گئی ، کانگریس کی بدعنوانی اور ترقی و روزگار کے سنہرے سپنوں کے ساتھ مضبوط اکثریت سے حکومت تشکیل دینے والے مودی باہری ملکوں کا دورہ کرکے اپنے چاہنے والوں کی تعداد تو بڑھانے میں ضرور کامیاب ہوئے ، تقریر کی مشق بھی اچھی سے اچھی ہوتی گئی ، کچھ بڑے سنہرے اور بھڑکیلے اسکیم کا اعلان بھی ہوا لیکن عملی اور ارضیاتی سطح پر نتیجہ صفر ہی رہا اور نتیجہ یہ نکلا کہ عام آدمی کا سپنا آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگا ، کیا پندرہ لاکھ اکاؤنٹ میں آتا، روزگار ملتے، اچھے دن آتے ، بھارت جمگمگاتا، الٹے کرایے بڑھنے لگے ، مہنگائی یاتو بڑھی یا کم از گھٹی نہیں اور یوں عوام کی یہ مایوسی دلی اور بہار کے اسمبلی الیکشن میں کھل کر سامنے بھی آگئی جب عوام نے مودی کی اگوائی میں لڑرہی بی جے پی کو پورے طور پر ناکار دیا ۔
حالانکہ خود مودی جی اور ان کے بھکتوں نے بہار میں اپنے طور پر فرقہ واریت کی سیاست کھیلنے کی بھی کم کوشش نہیں کی ، مسلمانوں کی طرف اشارہ کرکے یہ کہا گیا کہ انہیں دلتوں کا رزرویشن دے دیا جائے گا ، گائے کو بچانے کا نعرہ دیا گیا لیکن نتیجہ یہی رہا کہ بی جے پی بہار میں ہار گئی ۔ عام دوسرے سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی طرح ہمیں بھی ایسا لگ رہا تھا کہ بی جے پی احتساب سے کام لے گی ، الیکشن ریلی میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی باضابطہ کوشش کرے گی ، اور دیش کو آئین کے مطابق چلائے گی لیکن اوروں کی طرح ہمیں بھی مایوسی ہی ہوئی ، سچی بات یہ ہے کہ قدم قدم پر پارٹی نے یہ ثابت کیا کہ دیش چلانا اس کے بس کا نہیں ہے ۔ عدم برداشت کو لے کر جب بڑے بڑے مفکرین نے اپنے اندیشے ظاہر کیے تب بھی ، انعام یافتگان نے اپنے انعامات واپس کیے تب بھی اور یونیورسٹی طلبہ نے غیر ضروری مداخلت کے خلاف مظاہرے کیے تب بھی حکومت کا رویہ ایسا رہا جس سے اس کی ناکامی اور ناپختگی جھلکتی رہی اور پوری دنیا میں دیش کا نام خراب ہوتا رہا ، حد تو تب ہوگئی جب اخلاق نامی ایک مسلمان کو بیف رکھنے کے جھوٹے الزام میں ماردیا گیا اور حکومت الٹے مجرموں کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔
رہا سہا کسر روہت کی خودکشی پر حکومت کا رویہ ، جے این یو طلبہ یونیئن کے صدر کنہیا کمار کی گرفتاری اور یونیورسٹی کے اندر پولیس ایکشن نے پوری کردی ، اس سب سے یہ تو ضرور ہوا کہ طلبہ کا نقصان ہوا ، دیش میں سراسیمگی کی کیفیت دیکھی گئی ، ایک پوری یونیورسٹی کو دیش دروہوں کا اڈہ بتایا گیا ، اوروہ سب ہوا جو ہم سب کی نگاہوں میں ہے کہ طلبہ اساتذہ کو کورٹ کے احاطے میں پیٹا گیا ، حزب مخالف کے بڑے لیڈران پر حملے ہوئے ، جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ کئی چیزیں بہت واضح طریقے سے سامنے آنے لگیں ۔
اپوزیشن پارٹیوں میں روح واپس آئی ، چپی سادھے مفکرین اور سماجی کارکنان کو اپنے خول سے باہر نکلنا پڑا ، پچھلے دوسالوں سے آرایس ایس سے جس طرح لوگ ڈرے ہوئے تھے ، اب الٹے اسے چیلینج کرنے اور اس کے دیش پریم پر سوالیہ نشان اٹھانے کی لوگوں میں جرات آئی ، جب میڈیا کے لوگوں پر بھی ان کی دست درازی بڑھی تو انہیں بھی سمجھ میں آیا کہ سنگھ کی گود میں پلے لوگ کس حد تک جاسکتے ہیں اور یوں انہیں اپنے آپ کو بچانے ہی کی خاطر سہی وہ زبان بولنے پر مجبور ہونا پڑا جس سے ملک کا آم آدمی بولنا تو چاہتا ہے لیکن بولنے کی سکت اس کے اندر نہیں ہوتی ۔ پورے دیش کو سمجھ میں آنے لگا کہ یہ لوگ بھڑکیلے بھاشن دے سکتے ہیں ، ذات پات ، مذہب اور زبان کی بنیاد پر لوگوں کوبانٹ سکتے ہیں لیکن باضابطہ کوئی تعمیری قدم اٹھا نہیں سکتے ۔ جب دیش کے وزیر داخلہ فرضی اکاؤنٹس کی باتیں پبلک کو سچ سمجھ کر بتا رہے ہوں ، منتخب اراکین اسمبلی گولی چلانے کی بات کررہے ہوں اور پولیس کے ہوتے ہوئے عام پارٹی کارکنان لوگوں پر حملے بول رہے ہوں تو سمجھا جا سکتا ہیکہ دیش کس سمت میں جارہا ہے اور آئندہ اگر یہی صورت حال رہی تو دیش کا کیا ہوگا ۔
اس پورے معاملے میں اچھی بات یہ ضرور ہوئی ہے کہ آزاد مفکرین کا حوصلہ بڑھا ہے ، اپوزیشن میں اتحاد بھی آیا ہے اور قوت بھی آئی ہے اور نوجوانوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ اپنے سپنوں کے ساتھ کھیلنے والوں کو سبق ضرور سکھائیں گے ، شاید اسی کیفیت کو بھانپتے ہوئے وزیر اعظم تمام پارٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے کو دیکھنے کی بات کررہے ہیں ۔ یوں جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے ان تمام واقعات کے پیٹ سے نکلنے والے رزلٹ کو انگریزی محاورہBlessings in disguise کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ پورے دیش کو اگر یہ احساس ہونے لگا ہے کہ آرایس ایس کے نظریے کے ساتھ دیش چلنے والا نہیں تو یہ ایک اچھی بات ہی ہے ۔ ہندوستان کی مٹی میں تکثیریت ہے ، کثرت میں وحدت اس زمین کا طرہ امیتیاز ہے ، یہاں سب اپنے اپنے اعتقادات سے چلتے آئے ہیں اور دوسرے کے اعتقاد کا احترام کرتے آئے ہیں ، یہاں ایک خاص نظریے کو تھوپنے اور اس کے سہارے دیش کو ہانکنے کی روش گھاتک بھی ہے اور دیش کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والا بھی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ احساس نوجوان نسل کو ہونے لگا ہے ۔ طاقت کے نشے میں سنگھ سے جڑے لوگ اور تنظیمیں جس بدتمیزی پر اتری ہوئی ہیں اس نے ان کے بہت سے اپنوں کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے بھی سچائی کھل کر رقص کرنے لگی ہے ۔ اور ہمیں اس بات کی خوشی ضرور ہے کہ حالات و واقعات تو بہت ناگوار رہے ہیں لیکن نتائج تسلی دینے والے بھی آرہے ہیں ۔ یہیں سے بہتر اور تعمیری انقلاب کی کوئی سبیل نکلے آئے تو اس سے بہتر اور کیا بات ہوگی ۔
(مضمون نگار امام یونیورسٹی ، ریاض ، سعودی عرب میں اسسٹنٹ پروفیسرہیں )

SHARE