اگر تین طلاق مذہب کا معاملہ ہے تو عدالت اس میں مداخلت نہیں کرے گی:سپریم کورٹ طلاق ثلاثہ اور حلالہ پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ، دس دنوں تک مسلسل جاری رہے گا یہ سلسلہ

نئی دہلی(ملت ٹائمز؍عامر ظفر )
سپریم کورٹ نے تین طلاق،حلالہ اور تعدد ازدواج کی آئینی اور قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت شروع کردی ہے۔یہ سماعت مسلسل 10دنوں تک جاری رہے گی۔آئینی بنچ اس معاملے پر سماعت کر رہی ہے،بنچ یہ دیکھے گی کہ کیا یہ مذہب سے جڑا معاملہ ہے، اگر یہ محسوس کیا گیا کہ یہ مذہب کا معاملہ ہے تو عدالت اس میں مداخلت نہیں کرے گی، لیکن اگر یہ مذہب کا معاملہ نہیں نکلا، تو سماعت آگے چلتی رہے گی۔تین طلاق سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے یا نہیں؟اس پربھی عدالت غورکرے گی، تعدد ازدواج پر عدالت سماعت نہیں کرے گا۔چیف جسٹس نے صاف کہا کہ پہلے تین طلاق کے مسئلہ پر ہی غورکیا جائے گا، اس سماعت میں پہلے تین دن چیلنج کرنے والوں کو موقع دیا جا ئے گا، پھر تین دن دفاعی فریق کو موقع ملے گا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ان ممالک کے قانون کو بھی دیکھے گا، جن میں تین طلاق پر پابندی عائد کی گئی ہے۔تین طلاق کو چیلنج کرنے والے درخواست گزار نے کہا ہے کہ اگر یہ اسلام کا بنیادی حصہ ہوتا تو کئی ممالک میں اس بر پابندی لگائی جاتی ۔عدالت نے کہا کہ چیلنج کرنے والوں کو بتانا پڑے گا کہ مذہب کی آزادی کے تحت تین طلاق نہیں آتا، وہیں دفاع کرنے والوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ یہ مذہب کا حصہ ہے۔سلمان خورشید نے سپریم کورٹ میں دعوی کیا کہ تین طلاق کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، کیونکہ طلاق سے پہلے شوہر اور بیوی کے درمیان صلح کی کوشش ضروری ہے، اگر صلح کی کوشش نہیں ہوئی تو طلاق کو درست نہیں سمجھا جا سکتا، ایک بار میں تین طلاق نہیں بلکہ یہ عمل تین ماہ کا ہوتا ہے۔جسٹس روہنگٹن نے خورشید سے پوچھا کہ کیا طلاق سے پہلے صلح کی کوشش کی بات کہیں کوڈیفائیڈ ہے، خورشید نے کہاکہ نہیں۔پرسنل لا بورڈ کی جانب سے کپل سبل نے بھی خورشید کی حمایت کی کہ ٹرپل طلاق کوئی مسئلہ نہیں ہے۔غورطلب ہے کہ سلمان خورشید ذاتی طور پر سپریم کورٹ کی مدد کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے پوچھا کہ یہ پرسنل لاء کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب شریعت ہے یا کچھ اور؟پرسنل لا بورڈ کی جانب سے کپل سبل نے کہاکہ یہ پرسنل لاء کا معاملہ ہے، حکومت تو قانون بنا سکتی ہے لیکن عدالت کو اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے ، جسٹس کورین نے کہاکہ یہ معاملہ بنیادی حقوق سے بھی جڑا ہوا ہے ۔جسٹس روہنگٹن نے مرکز سے پوچھاکہ اس معاملے پر آپ کا کیا موقف ہے؟ مرکز کی طرف سے اے ایس جی پنکی آنند نے کہاکہ حکومت درخواست گزار کی حمایت میں ہے کہ تین طلاق غیر آئینی ہے،کئی سارے ممالک اسے ختم کر چکے ہیں۔
مرکز نے سپریم کورٹ میں کہا کہ ہم کسی کی طرف نہیں ہیں، لیکن حکومت صنفی مساوات اور خواتین کی باعزت زندگی کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے ۔تین طلاق صنفی مساوات اور خواتین کے وقار کے خلاف ہے۔پیر 15؍مئی سے مرکزی حکومت اس مسئلے پر اپنی دلیلیں دے گی۔اے جی مکل روہتگی مرکز کی طرف سے بحث کریں گے۔چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ سات درخواستوں پر سماعت کر رہی ہے، ان میں پانچ درخواستیں مسلم خواتین نے دائرکی ہیں، جن میں مسلمانوں کے تین طلاق کے عمل کو چیلنج کرتے ہوئے اسے غیر آئینی بتایا گیا ہے۔آئینی بنچ کے ارکان میں سکھ، عیسائی، پارسی، ہندو اور مسلم سمیت مختلف مذہبی کمیونٹی کے جج ہیں، اس بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس کورین جوزف، جسٹس آر ایف نریمن، جسٹس او دے امیش ٹھیک اور جسٹس عبدالنذیر شامل ہیں۔آئینی بنچ مسلم کمیونٹی میں تین طلاق، تعدد ازدواج ، حلالہ جیسے طریقوں کا آئینی بنیاد پر تجزیہ کرے گی۔سپریم کورٹ تین طلاق کے تمام پہلوؤں پر غور کر رہی ہے، عدالت نے زور دیا کہ یہ مسئلہ بہت سنگین ہے اور اس سے ٹالا نہیں جا سکتاہے ۔عدالت نے یہ بھی صاف کیا ہے کہ اس معاملے میں یونیفار م سول کوڈ پر بحث نہیں ہوگی۔اس معاملے میں مرکزی حکومت کی جانب سے حلف نامہ دائر کیا گیاہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تین طلاق کی تجویز کو آئین کے تحت دئیے گئے مساوات کے حقوق اور امتیازی سلوک کے خلاف حق کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔مرکز نے کہا کہ صنفی مساوات اور عورتوں کی عزت اور وقار کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں خواتین کو جو آئینی حقوق دئیے گئے ہیں ، اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔متعدد مسلم ممالک سمیت پاکستان کے قانون کا بھی مرکز نے حوالہ دیا، جس میں طلاق کے قانون کو لے کر مبینہ اصلاحات ہوئی ہیں اور طلاق سے لے کر دوسری شادی کے لیے ریگو لیٹ کرنے کے لیے قانون بنایا گیا ہے۔