تین طلاق پر سماعت کا تیسرا دن: ہندوستان میں مسلم خواتین کو مساوی حقوق نہیں مل پائے ہیں،تین طلاق پر حکومت لا سکتی ہے قانون:مرکز 

طلاق پرسرکارکی نیت سامنے آئی،تمام طرح کی طلاق غیرموثرہوگی، نیاقانون تھوپنے کی تیاری!
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کہا، طلاق احسن بھی خواتین پرظلم، کیس مستردہواتوسرکار قانون سازی کوتیار
سب طلاق ختم ہوگی توپھرمردکیاکریں گے؟سپریم کورٹ کاسرکارسے سوال،تعددازدواج اورحلالہ کامعاملہ بندنہیں ہواہے
جوآپ کہہ رہے ہیں وہ اقلیتی حقوق کوبھی ختم کردے گا،عدالت اقلیتی حقوق کی بھی محافظ ہے:چیف جسٹس 
پوری دنیامیں خواتین کااستحصال مذہب کانہیں، سماجی معاملہ،ہماچل پردیش میں ایک عورت کے متعددشوہر
مسلم پرسنل لاء بورڈکے وکیل کپل سبل نے آئین کوتمام کمیونیٹی کی روایات کاضامن بتایا،مذہبی آزادی میں مداخلت کی مخالفت

نئی دہلی(ملت ٹائمز؍ایجنسیاں)

اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے آج سپریم کورٹ سے کہاکہ اگر کورٹ پرسنل لاء میں دی طلاق کو منسوخ کر دیتا ہے تو لوگوں کودقت نہیں ہونے دی جائے گی۔ ایسی صورت میں حکومت قانون بنائے گی۔سپریم کورٹ میں 3 طلاق پر چل رہی سماعت کاآج تیسرا دن تھا۔ اٹارنی جنرل 5 ججوں کی آئینی بینچ کے سامنے مرکزی حکومت کا موقف رکھنے کے لئے پیش ہوئے۔ ان کی دلیل تھی کہ پورے معاملے کو آئین کے آرٹیکل 14، 15 یعنی برابری کے حقوق کی بنیاد پر پرکھا جائے۔روہتگی نے کہا کہ صرف ایک ساتھ3 طلاق ہی نہیں، پرسنل لاء میں موجود طلاق کے باقی دوانتظامات، طلاق احسن(یعنی ایک طلاق) اورطلاق حسن بھی خواتین سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔واضح ہوکہ مسلم پرسنل لاء بورڈشروع سے کہتارہاہے کہ سرکارکی نیت صحیح نہیں ہے وہ تین طلاق پرہی نہیں ،طلا ق کوہی ختم اورغیرموثرکرناچاہتی ہے اوراس راستے سے مسلم پرسنل لاء پرحملہ کرناچاہتی ہے۔ اٹارنی جنرل کے اس جواب پر5 ججوں کی بنچ کے رکن جسٹس نے پوچھاکہ اگر سب کو خارج کر دیا گیا تو مرد طلاق کے لئے کیا کریں گے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت طلاق کے لئے قانون بنائے گی۔اٹارنی جنرل نے مزیدکہاکہ ہم کس طرح اس پر قوانین بنائے جا سکتے ہیں۔شادی اور طلاق مذہب سے منسلک مسئلہ نہیں۔قرآن کی وضاحت کرنا کورٹ کا کام نہیں۔آئینی بینچ کے صدر چیف جسٹس جے ایس کھہیر نے کہاکہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ اقلیتی حقوق کو ختم کر دے گا۔ یہ کورٹ اقلیتی حقوق کابھی محافظ ہے۔دن کی کارروائی ختم ہونے سے پہلے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل کپل سبل نے اپنی دلیلیں شروع کردیں۔آج انہیں تقریباََ15 منٹ ہی اپنی بات رکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران انہوں نے مذہبی آزادی کے حق کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ آئین تمام کمیونٹیز کی روایات کی حفاظت کرتاہے۔ ہماچل پردیش کے کچھ علاقوں میں عورتوں کے ایک سے زیادہ شوہر ہوتے ہیں۔کپل سبل کل بھی اپنی دلیلیں جاری رکھیں گے۔ یہ دیکھنااہم ہوگا کہ وہ کورٹ کے اس سوال کا جواب کیا دیتے ہیں کہ ایک ساتھ 3 طلاق بولنے کا بندوبست اسلام کا بنیادی اور لازمی حصہ ہے یا نہیں۔خواتین سے امتیازی سلوک کے مسئلہ پر سبل نے کہاکہ پوری دنیا میں معاشرہ متاثر ہے۔ ایسا معاشرہ عورتوں سے امتیازی سلوک کرتاہے۔ دقت مذہب کی نہیں ہے۔ دقت معاشرے کی ہے۔اٹارنی جنرل نے اس کے بعد کہاکہ پاکستان، بنگلہ دیش جیسے اسلامی ملک 3 طلاق ختم کر چکے ہیں۔ ہم سیکولر ہیں، ابھی تک اس پر بحث کر رہے ہیں۔انہوں نے مختلف ممالک میں ازدواجی قوانین سے منسلک فہرست بھی کورٹ کو دی۔انہوں نے کہاکہ کئی مسلم ممالک میں طلاق فیملی کورٹ کے ذریعہ ہی ہوتاہے۔آج اٹارنی جنرل نے نراس اپپا مالی کیس میں بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی۔ 1951 میں دییے اس فیصلے میں ہائی کورٹ نے پرسنل لاء کو آئین کے آرٹیکل 13 کے دائرے سے باہر رکھا تھا۔ یعنی پرسنل لاء کا جائزہ آئین کے دوسرے دفعات کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا۔آج کی سماعت کے ایک انتہائی اہم بات رہی سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ اس نے حلالہ اور تعددازدواج کامسئلہ بندنہیں کیا۔ کورٹ نے کہا کہ نکاح حلالہ اور مسلم مردوں کو ایک سے زیادہ شادی کی اجازت پر آگے خیال ہو گا۔ فی الحال وقت کی کمی کی وجہ سے صرف 3 طلاق پر غور ہو رہاہے۔کورٹ نے ایسا تب کہا جب اٹارنی جنرل نے یہ یاد دلایا کہ 2 ججوں کی بنچ نے 3 طلاق، حلالہ اور دوسری شادی پرنوٹس لیاتھا۔ اٹارنی جنرل نے یہ مطالبہ کیا کہ کورٹ کو تمام مسائل پر سماعت کرنی چاہئے۔