نئی دہلی(ملت ٹائمز)
سپریم کورٹ میں ٹرپل طلاق پر سماعت چل رہی ہے۔مرکزی حکومت مسلسل ٹرپل طلاق کومکمل ختم کرکے اس پر پابندی لگانے کی کوشش میں لگی ہے۔وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ٹرپل طلاق کو جائز ٹھہرایاہے۔ابھی حال ہی میں آر سی ڈی ڈی پی کا ایک سروے آیا ہے جس میں مسلم کمیونٹی میں تین طلاق کو لے کر دلچسپ اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ملک بھر میں مسلم خواتین ٹرپل طلاق کو لے کر مسلسل مخالفت کی آواز بلند کر رہی ہیں۔لیکن سروے میں سامنے آیا کہ مسلمانوں میں ایک فیصد سے کم آبادی میں ہی ٹرپل طلاق کے معاملے سامنے آئے ہیں۔انڈین ایکسپریس کی رپوٹ کے مطابق یہ سروے ملک کے جانے مانے ماہر اقتصادیات، اسکالر اور سچر کمیٹی کے سیکرٹری رہ چکے ڈاکٹر ابوصالح شریف کی نگرانی میں کرایا گیا ہے۔ریسرچ میں طلاق اور تین طلاق پر کئی اہم جانکاریاں نکل کر سامنے آئی ہیں۔دہلی کے ادارے سینٹر فار ریسرچ اینڈ ذیابیطس ان ڈیولپمنٹ پالیسی نے یہ لائن ملک میں 20771لوگوں پرکیاہے۔جن میں16860مرد ہیں اور3811خواتین شامل تھیں۔سروے مارچ سے مئی مہینے کے دوران کیاگیا۔سروے میں پایا گیا کہ 36.2فیصد معاملات میں تین ماہ میں الگ الگ طلاق دی گئی۔. 24.7فیصد معاملے میں طلاق دارالقضا کے فیصلوں سے ہوئی۔21.1فیصد طلاق کورٹ یا پھر نوٹس کے ذریعے دیا گیا۔وہیں 16.9فیصد معاملات میں طلاق کسی این جی او یا پولیس یا برادری پنچایت کے ذریعہ ہوئی۔محض 0.33فیصد کیس ایسے تھے جن میں فوراََتین طلاق شامل ہے۔نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا فیصد محض 0.88فیصد رہا ہے۔ایک لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فیضان مصطفی کے مطابق تین طلاق کے معاملات میں ٹیلی فون یا ای میل کے ذریعے دیئے گئے طلاق کی تعداد بہت کم پائی گئی تھی۔اس ریسرچ کاسب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر طلاق رشتہ داروں کے دباؤ میں ہوئے ہیں۔