عبید الکبیر
جو ں جوں تبدیلئ حالات کی وجہ سے سوالات کے دائرے اور سلسلے دراز سے دراز تر ہوتے جا رہے ہیں دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ملت کے ذمہ دار حضرات اپنے ‘دستور زباں بندی’ میں پختہ سے پختہ تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ملک میں گزشتہ تین سالوں سے جس قسم کے حالات پیش آرہے ہیں وہ کسی وضاحت کے محتاج نہیں ۔ایک خاص طرز فکر کی حامل جماعت کے علاوہ تقریباً سبھی باشندگان ملک مختلف عنوانات سے ان مسائل کی مار جھیل رہے ہیں ۔ اس کا اندازہ لگانے کے لئے اتنی بات کافی ہونی چاہئے کہ حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اصلاح احوال کی غرض سے پچھلے ہفتے جمعیۃ علماء(م) کی جانب سے ایک وفد نے با ضابطہ طور پروزیر اعظم سے ملاقات کی اور باہمی گفت وشنید کا گویا آغاز کیا ۔واضح رہے کہ موجودہ وزیر اعظم کی شبیہ ملک کے ایک بڑے طبقے کی نظر میں کچھ ایسی ہے کہ ان سے میل جول کو بہت سے لوگوں نے ہمیشہ سے شجر ممنوعہ قرار دیا ہے ۔ حتی کہ آج بھی مذکورہ وفد کی ملاقات پر سوالیہ نشان لگائے جارہے ہیں ۔اس ملاقات کا پس منظر کس حد تک ملت کے مفادات سے وابستہ ہے یا اس کے بعد پیش آنے والے حالات پر اس ملاقات کے کچھ مثبت اثرات مرتب ہوں گے بھی یا نہیں یہ بجائے خود ایک سوال ہے جس میں بظاہر بے یقینی کے احتمالات غالب ہیں ۔ہم کسی بد گمانی یا مایوسی کے شکار تو نہیں تاہم اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔تین طلاق یا سول کوڈ کے مسئلے پر گزشتہ سالوں سے جس قسم کی لے دے ہو رہی ہے اسے سمجھنا کچھ دشوار نہیں ۔اس کا تازہ ثبوت مرکزی حکومت کے ترجمان مکل روہتگی کا وہ بیان ہے جو انھوں نے عدالت عظمیٰ میں دیا ۔تین طلاق کے مسئلے پر جب سے سیاست گرم ہوئی ہے تبھی سے ملت کی سبھی تنظیموں کے ذمہ داران اسے ایک سازش کے طور پر دیکھتے رہے ہیں ۔ان حضرات نے بارہا اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ تین طلاق کا واویلا دراصل سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کا پیش خیمہ ہے ۔حتی کہ اس مسئلے پر ملت کے جس مکتب فکر کا نظریہ کچھ مختلف بھی ہے اس نے بھی اپنے نظریے کی وضاحت کے ساتھ اپنے رویے سے دوسری تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا۔اب تک جن حضرات کی آنکھیں نہیں کھلی تھیں یا وہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کئے ہوئے تھے انھیں اپنی سادگی کا جائزہ لینا چاہئے ۔کیونکہ تین طلاق پر وزیر اعظم کی ملک گیر سیاست پر اب تک صرف یہ خدشہ ہی ظاہر کیا جارہا تھا کہ ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘ تاہم اب اٹارنی جنرل کی وضاحت کے بعد یہ خدشہ یقین میں بدل چکا ہے ۔اب یہ سوچنے کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے کہ ‘ساقی ‘ نے شراب میں کیا ملاد یا ہے ۔اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم دوسروں کو نصیحت کررہے ہیں کہ اس مسئلہ پر سیاست نہ کی جائے ۔وزیر اعظم کا یہ بیان جس قسم کے فریب اور مکر کا پلندہ ہے اسے معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔تین طلاق کی کہانی میں آغاز سے انجام تک ان کا نظریہ اور رویہ دونوں ہی جگ ظاہر ہیں ۔البتہ وزیراعظم اس بات کے متمنی ضرور نظرآتے ہیں کہ اس مسئلے کا سہرا دوسروں کے سر ڈال کر اس کا ‘خاتمہ بالخیر ‘ کردیا جائے اور خاکم بدہن عرض ہے کہ اس کے لئے انھوں نے جمعیۃ کی ملاقات کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا ۔سوال بس اتنا ہی نہیں ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے دگرگوں حالات جس قسم کی منصوبہ بند اور منظم حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں اس کے پیش نظر کیا یہ مناسب تھا کہ ایک گھسے پٹے الزام سے جو مضحکہ خیز حد تک ناقابل اعتنا ہے گلو خلاصی کے لئے وزیر اعظم کی ملاقات کو بطور سند پیش کیا جائے ۔سچ یہ ہے کہ پی ایم او کی پریس ریلیز کے خلاصے میں ملت کے لئے راحت کا کوئی پیغام نہیں ہے ۔اس حساس مسئلے پر مذکورہ وفد کی سرد مہری صورتحال کو مزید مشتبہ بنادیتی ہے ۔اب یہا ں یہ جواب ناکافی ہے کہ نو بھارت ٹائمز میں اس پر وضاحت کردی گئی ہے ۔کیونکہ اس میں جن امور کا تذکرہ موجود ہے ان کا ان سوالات سے کوئی واسطہ نہیں جو پی ایم او کی پریس ریلیز سے پیدا ہوتے ہیں ۔نو بھارت ٹائمز کا جو لنک ایک غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے عام کیا گیا ہے وہ ‘دیر آید’ کا مصداق تو یقیناً ہے تاہم ‘درست آید ‘کا مصداق بالکل نہیں ۔اس میں قائد وفد کے حوالے سے دو دفعہ یہ جملہ دہرایا گیا ہے کہ انھوں نے مودی کے طلاق پر سیاست نہ کئے جانے کی بات کو سراہا ۔نیز وفد نے مودی کو بہت مثبت رویے کا حامل پایا ،نیز مودی کا یہ بھی فرمانا ہے کہ طلاق کے مسئلے پر مسلم قوم کے اہل دانش کو سوچنا چاہئے (نقل بالمعنی)۔ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کے تعلق سے مثبت یا منفی ہونے کا تاثر کوئی ایسی خوش خبری یا کام کی بات نہیں کہلائے گی جسے قوم کے سامنے پیش کیا جائے ۔جو لوگ پندرہ لاکھ کی حسرت سے لیکر نوٹ بندی کی قربانیوں تک کے مراحل طے کر چکے ہیں انھیں شاید ہی اس سوال میں کوئی دلچسپی ہو۔ہمارے خیال میں یہ مثبت ومنفی کی بحث تمہید کلام کی حیثیت رکھتی ہے جس کے بعد بہت سی باتیں ہنوز تشنہ ہیں ۔البتہ طلاق کے مسئلے پر ملت کی اجتماعی جدوجہد خصوصاً ‘مسلم مہیلا ‘ کے قابل قدر کردار کے ساتھ یہ انتہائی بے رحمانہ سلوک ہے جو مودی جی نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ اس مسئلے پر مسلم دانشوران کوسوچنا چاہئے ۔آخر چار کڑور سے زائد دستخطوں اور ملک کے چپے چپے پر منعقد کیے جانے والے جلسے کس لیے تھے ۔دراصل قاتل کا کمال یہی ہے کہ وہ جسے قتل کرنے جائے اسے بہ طوع ورغبت قتل ہونے پہ راضی کرلے ۔یہی کارنامہ وزیر اعظم کا ہے ، مودی جی یہ کہہ گئے اور آپ سے منوا بھی گئے کہ مسلم دانشوران اس مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہیں ۔ملت کے مسائل سے معمولی واقفیت رکھنے والا ہر آدمی محسوس کرتا ہے کہ تین طلاق کے اس پورے کھیل میں چند مخصوص ذرائع ابلاغ کی طوفان بے تمیزی کے سہارے جو تاثر دینے کی کوشش کی گئی اس میں کچھ ہتھ کنڈے قابل ذکر ہیں جو تدریجاً سامنے رکھے جاتے ہیں ۔مخالفین سب سے پہلے تین طلاق کو عورت کے حق میں ایک ظلم باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ثانیاً کچھ دانشور اسلامی موقف کی غیر اسلامی اور من مانی تشریح کرکے اسے غیر قرآنی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب اس مرحلے میں بھی کچھ بات نہیں بن پاتی ہے تو وہ مسئلے کو ‘مرد’ کی قوامیت (جس کا سب بہتر مصداق ان کی رائے میں علمائے امت ہیں )کی روشنی میں دیکھ کر اسے صنفی مساوات کی ترازو پر تولتے ہیں ۔حتی کہ جب لاوا پھٹ کر سارا کچا چھٹا سامنے آتا ہے تب کہیں جاکر مکل روہتگی جیسے لوگ مذہبی آزادی کی دفعہ کو بنیادی حقوق کے ساتھ گڈ مڈ کرنے کا عندیہ ظاہر کرتے ہیں ۔تین طلاق کو کالعدم قرار دینے کا ارادہ رکھنے والے جیالے بطور خاص اس نکتے پر زوردیتے نظر آتے ہیں کہ مسلم قوم خصوصاً علما نے اس مسئلے میں برہمن واد کی مثال قائم کی ہے ۔اتنے نازک وقت میں ایک مزید الزام کو برضا ورغبت اپنے سرلے لینا انتہائے سادگی کی نادر مثال ہے ۔اس صورت حال پرکوئی سنجیدہ اور تشفی بخش جواب ابھی تک منظر عام پر نہیں آیاہے ۔جبکہ کسی بھی ملاقاتی وفد کو اپنی تگ ودو کو اس پس منظر میں بھی دیکھنا چاہئے ۔ورنہ رسمی ملاقاتیں کسی مرض کی دوا نہیں ۔(ملت ٹائمز)