رمضان المبارک اور اس کے فضائل

محمد عارف اقبال
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی بنیاد جن پانچ ستونوں پر رکھی ہے، ان میں روزہ ایک اہم رکن ہے، جس کے بغیر اسلام کا خیمہ کھڑا نہیں رہ سکتا، روزہ کی عظمت و رفعت اور ماہ رمضان المبارک کی قدر و منزلت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو ماہ قبل ہی سے رمضان کا انتظار شروع فرما دیا کرتے تھے اور رب کریم سے دعا فرمایا کرتے تھے کہ الہم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان’’ اے اللہ تو ہمارے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت پیدا فرما اور ہمیں رمضان المبارک تک پہنچا‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کتنا بابرکت مہینہ ہے جس کا اشتیاق و انتظار قبل از وقت دعا کرنے پر مجبور کر رہا ہے اور یہ سب اس ماہ میں انجام پانے والی مقدس عبادت روزہ کی وجہ سے تھا، یہ روزہ اتنی اہم عبادت ہے کہ سارے اعمال کا ثواب تو فرشتوں کے ذریعہ دلوایا جائے گا لیکن روزہ کا ثواب اور بدلہ اللہ تعالیٰ خود ہی عنایت فرمائے گا، حدیث شریف میں ہے کہ وانا اجزی بہ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔
روزہ کی فضیلت:ماہ رمضان المبارک کے روزہ کی فضیلت یہ ہے کہ اس کا ثواب کسی خاص تعداد میں محدود نہیں ہے بلکہ بغیر حساب کے بلا تعداد اجر اللہ تعالیٰ روزے دار کو عطا فرماتے ہیں۔ بخاری و مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ انسان کا ہر عمل اسی کے لئے ہے سوائے روزے کے، کہ روزہ میرے لئے ہے اس کا بدلہ میں خود دونگا (یعنی خود دونگا چاہے جتنا دوں ، فرشتے نہیں دیں گے کیونکہ وہ ایک مقرر مقدار کے پابند ہوتے ہیں) اور فرمایا روزہ ڈھال ہے (یعنی رکاوٹ ہے جہنم کی آگ کے اثر کرنے سے ) جب تم لوگ روزہ رکھو تو نہ لڑائی کرو نہ گالم گلوچ کرو ، اگر کوئی برا کہے یا لڑائی کرے تو اس سے کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں(یعنی میں نے روزہ صرف پیٹ کا نہیں بلکہ ہاتھ، پیر، زبان وغیرہ سب اعضاء کا رکھا ہے اس لئے میں تمہیں نہ گالی دے سکتا ہوں نہ لڑائی کر سکتا ہوں ) آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو حق تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ معلوم ہوتی ہے۔ 
روزہ کس کا نام ہے:روزہ نام ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر چلنے کا، حرام چیزوں سے بچنے کا، بھوک و پیاس جسم وجان کی صبر آزما تقدیر پر قائم رہنے کا، چنانچہ روزے میں صبر کی یہ تین اقسام جمع ہیں اسلئے کوئی شک نہیں کہ روزہ دار صابر ین میں سے ہے اور حق تعالیٰ کا ارشاد ہے انما بوفی الصابرون اجرہم بغیر حساب یعنی صبر کرنے والوں کو بلا حساب کے بھرپور اجر و ثواب دیا جائیگا۔
روزہ ڈھال ہے: ڈھال کہتے ہیں جو جنگ میں تلوار کے وار کو روکنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح روزہ بھی ڈھال کی طرح ہے جو روزہ دار کو فضولیات اور بری باتوں سے روکتا ہے ، اسی لئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس دن کوئی روزہ رکھے تو نہ گندی باتیں کریں اور نہ شورو غل کرے، نیز روزہ بدن پوش ہے جو جہنم کی آگ ک اثر کو روک دیتا ہے۔
روزہ کا مقصد:اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں روزہ کو فرض کرنے کا مقصد لعلکم تتقون کے الفاظ سے ذکر کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے روزہ کواس لئے فرض فرمایا ہے تاکہ روزہ دار صفت تقویٰ کے ساتھ متصف ہو جائے اور اس میں حرام و مشتبہ چیزوں سے بچنے کا جذبہ پیدا ہوجائے اور حلال و پاکیزہ چیزوں کو حاصل کرنے کی لگن اور جائز امور کی طرف طبیعت کا میلان ہونے لگے۔ روزہ کا یہ اہم مقصدہمارے اندر اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب کہ ہمارے ساتھ جسم کے دیگر اعضاء بھی روزہ دار ہوں، ہم متقی و پرہیزگار اسی وقت بن سکتے ہیں جب ہم ان حدود و قیود کی رعایت کریں، روزہ جن کا ہم سے مطالبہ کرتا ہے ، صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام روزہ نہیں، وہ روزہ دار جو روزہ کی حالت میں ناجائز امور سے نہیں بچتا ایسے روزہ داروں کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کم من صائم لیس لہ من صیامہ الا الظئما ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘‘ اس لئے روزہ داروں کو چاہئے کہ وہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے روزہ رکھیں۔
روزہ کی تعریف: صبح صادق سے سورج کے ڈوبنے تک قصداََ کھانے ، پینے اور بیوی سے ملنے سے رکنے کا نام روزہ ہے۔
قیامت کے دن روزے کا عظیم فائدہ:امام سفیان عیینہ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے حساب لیں گے اور اس نے جو دوسروں پر ظلم و ستم کر رکھا ہوگا اس کے بدلے اس کے سارے اعمال ان لوگوں کو دلوادئے جائیں گے، یہاں تک کہ جب سارے عمل ختم ہو جائیں گے صرف روزہ باقی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس روزہ دار کی طرف سے ضامن ہوجائیں گے اور روزے کے بدلے میں اسے جنت میں داخل فرما دیں گے۔
روزہ دار کو دو خوشیاں نصیب ہوں گی:ماہ رمضان المبارک میں روزہ دار کو دو خوشیاں نصیب ہونگی، ایک خوشی افطار کے وقت، دوسری رب العالمین سے ملاقات کے وقت، افطار کے وقت وقت خوشی اس نعمت کے تصور سے ہوتی ہے جن سے اللہ نے نوازا ہے یعنی روزہ جیسی عبادت کی توفیق عطا فرمائی جو افضل ترین اعمال میں سے ہے، کتنے ہی لوگ ہیں جو روزے کی سعادت سے محروم ہیں اور اس لئے خوشی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے میں جو چیزیں حرام فرمائی تھیں یعنی کھانا ، پینا ، بیویوں سے قربت وہ حلال ہو جائیں گی، دوسری پروردگار سے ملاقات کی خوشی اس دن ہوگی (جو قیامت کا دن ہوگا)جب روزے دار انتہائی محتاجگی اور بے بسی کی حالت میں ہوگا اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے پاس اپنے روزے کا پورا پورا بدلہ پائیگا( جو انشاء اللہ نجات کا ذریعہ بنے گا)تو انتہائی خوشی محسوس کرئے گا۔ یہ دوسری خوشی ہوگی جو اسے روزے کی صدقے ملے گی، اس وقت اعلان ہوگا ، کہاں ہیں روزے دار؟ وہ لوگ بابِ ریان سے جنت میں داخل ہوجائیں، جس سے روزدار کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوگا، اس میں روزہ دار کے لئے یہ ہدایت بھی ہے کہ جب کوئی روزے دار کو برا بھلا کہے یا لڑائی کرے تو وہ پلٹ کر ایسا نہ کرے ورنہ برائی اور لڑائی میں اضافہ ہی ہوگا۔ مگر خاموش رہ کر اپنے کمزوری بھی ظاہر نہ کرے بلکہ لڑنے والے سے بتائے کہ میں روزے سے ہوں تا کہ وہ سمجھ جائے کہ صرف کے احترام نے انتقام اور بدلے سے روک رکھا ہے، یہ نہیں کہ کمزوری و بے ہمتی کی وجہ سے رکا ہے، اس سے انشاء اللہ وہ لڑائی جھگڑا بند ہو جا ئیگا ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ادفع بالتی ہی احسن فاذ الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم یعنی آپ نیک برتاؤ سے ٹال دیا کیجئے پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست ہوتا ہے، اور یہ بات انہیں لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے مستقل مزاج ہیں اور یہ بات اس کو نصیب ہوئی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہے۔
روزے کے یہ فضائل یوں ہی نہیں حاصل ہوں گے جب تک کہ روزے دار روزہ کے آداب پر نہ عمل کرے، اس لئے اپنے روزے کو بہتر بنانے کی اور اس کے حدود کی حفاظت کی خوب کوشش کرنی چاہئے ، اس میں جو کمی رہ جائے اس سے اللہ کے حضور میں توبہ کرنا چاہئے۔
***
رابطہ : 08285682268

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں