زکاۃ نکالئے اپنا مال پاک کیجئے …

عبدالعلی خدا داد پور

زكو’ة ایک عبادت ہے۔اسلام میں نماز کے بعد اسی کا حکم ہے۔ زکوۃ نکالنا فرض ہے۔اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔اور نہ نکالنے والا فاسق ہے۔جس مال کی زکوۃ نا نکالی گئی ہو وہ مال حرام ہے۔
زکوۃ کب فرض ہوتی ہے:::اگر آپکے پاس نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ مال ہو اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو تو زکوۃ فرض ہو جاتی ہے۔595 گرام چاندی یا اسکی قیمت جو تقریبا 24 25 ہزار روپئے کے برابر ہوتی ہے(چاندی کا دام گھٹتا بڑھتا رہتا ہے)نصاب کہلاتی ہے۔جب آپ زکوۃ نکال رہے ہوں اس وقت کی قیمت کا لحاظ کیا جائیگا۔
کس مال پر زکوۃ ہے ؟؟۔سونا چاندی یا اسکے زیورات۔مال تجارت ۔نقد رقم وغیرہ۔
کس مال پر زکوۃ نہیں ہے؟؟؟؟۔استعمال کی چیزیں جیسے رہنے کے لئے مکان۔سواری کے لئے گاڑی کھانے پینے کے برتن ۔سجانے کے لئے فرنیچر وغیرہ۔تو انپر کوئی زکوۃ نہیں خواہ یہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہوں۔البتہ اگر کوئی ان مذکورہ چیزوں کی تجارت کرتا ہو تو اس پر زکوۃ ہے۔
زکوۃ نکالنے کا طریقہ::::آپ کے پاس جو مال ہو پہلے اسکا حساب کریں جیسے
(1)سونا چاندی یا اسکے زیورات ۔باقاعدہ وزن کرا کے اسکی قیمت نکالیں۔
(2) مال تجارت۔۔وزن کرکے یا گن کر جو بھی صورت بنے اسکا حساب کرکے اسکی قیمت نکالیں۔
(3)نقد رقم(کیش)۔۔گھر میں ہو یا کسی بینک میں جمع ہو۔یا کسی کمپنی میں آپ جمع کرتے ہون جیسے سہارا وغیرہ۔
اب آپ اپنے مال کی مجموعی قیمت نکال لیں۔اگر آپ نے کسی سے قرض لے رکھا ہے تو اصل مال میں سے اسکو گھٹا دیں یا اگر آپ نے کسی کو قرض دے رکھا ہے اور اسکے ملنے کی قوی امید ہوتو اصل مال مین اتنا اور جوڑ لیں۔اب جتنا مال آپکے پاس بچتا ہے اس میں 40 سے تقسیم کردیں زکوۃ نکل آئےگی۔جیسے 26 ہزار پر 650 روپئے۔1 لاکھ پر 2500 روپیے وغیرہ۔
زکوۃ کس کو دیں؟؟؟۔فقراء مساکین یعنی جسکے پاس کچھ نہ ہو۔یا اگر ہو تو مال نصاب سے کم ہو۔قرض دارجو اپنا قرض ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔یا کوئی اپنے لڑکے یا لڑکی کا نکاح کرنا چاہتا ہو اور اسکے پاس بقدر ضرورت مال نہ ہو۔یا وہ مجاہدین جو اسلام کا کلمہ بلند کرنے لئے کوشاں ہوں۔اس مین نادار طلبہ اور وہ علماء بھی آجاتے ہیں جنھوں نے اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کردی ہو۔یا وہ قیدی جو اپنے کو آزاد کرانے کی کوئی سبیل نہ پاتے ہوں۔
(زکوۃ کے زیادہ حقدار اپنے قریبی عزیز واقارب ہیں جیسے بھائی بہن ۔پھوپھی خالہ وغیرہ)
زکوۃ کس کو نہ دیں؟؟۔غیر مسلم کو زکوۃ نہیں دی جا سکتی۔اپنے والدین اور اولاد کو بھی زکوۃ نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح روائتی بھیک منگوں بھی زکوۃ کا پیسہ نہ دیں تو بہتر ہے۔رفاہ عام کے کام جیسے پل مدرسہ و مسجد وغیرہ کی تعمیر بھی زکوۃ کے پیسے نہین کی جاسکتی۔ہاں اگر غیر مسلموں کے درمیان کچھ مسلمان رہ رہے ہوں اور غریب بھی ہوں تو انکے لئے مدرسہ یا مسجد کی تعمیر زکوۃ کے پیسے سے کر سکتے ہیں ۔اسکے جوازن کے کچھ علماء قائل ہیں۔
نوٹ::::جسکو زکوۃ دی جائے اسکو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوۃ کا پیسہ ہے بلکہ نہ بتانا بہتر ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں