خورشید عالم داؤد قاسمی
مال اور دولت و ثروت اللہ تعالی کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ترجمہ) “پھر جب نماز پوری ہوچکے، تو تم زمین پر چلو پھرو اور خدا کی روزی تلاش کرو۔ اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو، تاکہ تم کو فلاح ہو۔” (سورہ جمعہ/10) ایک دوسری جگہ ہے: ( ترجمہ) “اور مال اور بیٹوں سے ہم تمھاری امداد کریں گے اور ہم تمھاری جماعت بڑھادیں گے۔” (سورہ اسراء/6) نوح -علیہ السلام – کی دعوت و تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ترجمہ) “کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا۔ اور تمھارے مال و اولاد میں ترقی دے گااور تمھارے لیے باغ لگادے گااور تمھارے لیے نہریں بہادےگا۔” (سورة نوح/11-12) ان آیات سے پتہ چلا کہ مال ودولت ایک بڑی نعمت ہے۔
جب اللہ نے آپ کو مال و دولت دیا ہو؛ تو اس میں غرباء و مساکین کے جو حقوق ہیں، انھیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جو غرباء و مساکین کی اس طرح مدد کرتے ہیں کہ داہنے ہاتھ سے دیتے ہیں؛ تو بائیں ہاتھ کو پتہ نہیں چلتا۔ کچھ ایسے اہل ثروت بھی ہیں جن کو اللہ نے مال و دولت تو دیا ہے؛ مگر غرباء و مساکین پر خرچ نہیں کرتے، صدقات و خیرات اور زکاۃ و عطیات جیسے الفاظ سے ناواقف ہیں اور کبھی کبھار خرچ کرتے بھی ہیں؛ تو بخل ان پر غالب آجاتا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے وہ سب ان کی جدّ و جہد اور سعی و کوشش کا نتیجہ۔ پھر اس میں سے کسی کو کیوں دینا! قیامت کے دن ایسے لوگوں کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ: یہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ ہمارے معاشرہ میں رہنے والے ایک تیسری قسم کے بھی اہل دولت و ثروت ہیں، جو اپنے مال سے صدقات و خیرات تو ضرور کرتے ہیں؛ مگر ان کی نیت اور مقاصد بڑے بھدے ہوتے ہیں۔ وہ جن کو کچھ دیتے ہیں، ان کو اپنی رعایا کے درجے میں اتاڑ لیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ غریب و مسکین، اس کی ہر بات پر اطاعت و فرماں برداری کےلیے حاضر باش ہو اور اس کی کسی بات پر گرفت نہ کرے، چاہے وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیوں نہ کہے۔
اہل ثروت جو کچھ غریب و مسکین اور مجبور و مفلس کو عنایت کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کا شکریہ ادا کر رہا ہے کہ اس ذات نے اس کو یہ دولت دی، اس میں ان غرباء و مساکین کا حق متعین فرمایا ہے اور وہ اس ذمے داری کو ادا کر رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ذات باری تعالی اسے اس کا اجر آخرت میں عطا فرمائیں گے ۔ کچھ لوگ دینے کو تو دیتے ہیں؛ لیکن اس کا بدلہ ان غریبوں پر احسان جتا کر وصول کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ فعل نہایت ہی مذموم اور یہ عمل نہایت ہی مطرود ہے، جس پر اللہ تعالی کے یہاں ان سے ضرور پوچھ ہوگی۔
بحیثیت مسلمان یہ ہماری ذمے داری ہے کہ اگر اللہ نے ہمیں مال و دولت دیا ہے؛ تو ہم اسے اللہ کی راہ میں، اللہ کی ہدایت کے مطابق خرچ کریں۔ آج ہم نے قرآن کریم کے فرمان کو فراموش کردیا اور احادیث شریفہ سے حاصل ہونے والے اسباق کو سمجھنےکی ضرورت ہی محسوس نہیں کی؛ ورنہ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں ایک مومنانہ زندگی بسر کرنے کے حوالے سےتمام پہلووں پر بھرپور مواد موجود ہے۔
قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے: ( ترجمہ) “مناسب بات کہہ دینا اور در گزر کرنا بہتر ہے ایسی خیرات سے، جس کے بعد آزار پہنچایا جاوے اور اللہ غنی ہیں، حلیم ہیں۔” (سورہ بقرہ/263) مفتی محمد شفیع صاحبؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: “جو خرچ کرتا ہے وہ اپنے نفع کےلیے کرتا ہے، تو ایک عاقل انسان کو خرچ کرنے کے وقت اس کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ میرا کسی پر احسان نہیں۔ میں اپنے نفع کےلیے خرچ کر رہا ہوں اور اگر لوگوں (مساکین و فقراء) کی طرف سے کوئی ناشکری بھی محسوس ہو؛تو اخلاق الہیہ کے تابع ہو کر، عفو و درگزر سے کام لے۔” (معارف القرآن، 1/632)
آیت مذکورہ سے آگے ارشاد خداوندی ہے: (ترجمہ) “اے ایمان والو! تم احسان جتلا کر اور ایذا پہنچاکر اپنی خیرات کو برباد مت کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کو دکھلانے کی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتا اللہ پر اور یوم قیامت پر ،سو اس شخص کی حالت ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر جس پر کچھ مٹی ہو ، پھر اس پر زور کی بارش پڑ جاوے ،سو اس کو بالکل صاف کردے، ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی اور اللہ تعالی کافرلوگوں کو رستہ نہ بتلاویں گے۔” (سورہ بقرہ/264) مذکورہ بالا آیت کریمہ جو کچھ بیان کیا گیا اسی مضمون کو اس آیت کریمہ میں مزید موکد کرکے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت مفتی صاحب ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: “اس سے واضح ہوگیا کہ جس صدقہ و خیرات کے بعد احسان جتلانے یا مستحقین کو ایذاء پہنچانے کی صورت ہوجائے، وہ صدقہ باطل، کالعدم ہوجاتا ہے، اس پر کوئی ثواب نہیں۔ اس آیت میں صدقہ کے قبول ہونے کی ایک اور شرط کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کے دکھاوے اور نام و نمود کے واسطے خرچ کرتا ہے اور اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر کچھ مٹی جم جائے اور اس پر کوئی دانہ بوئے پھر اس پر زور کی بارش پڑجائے اور وہ اس کو بالکل صاف کردے ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی، اور اللہ تعالی کافر لوگوں کو راستہ نہ دکھلائیں گے۔ اس سے قبولیت صدقہ و خیرات کی یہ شرط معلوم ہوئی کہ خالص اللہ تعالی کی رضا جوئی اور ثواب آخرت کی نیت سے خرچ کرے، دکھلاوے یا نام و نمود کی نیت سے نہ ہو، نام ونمود کی نیت سے خرچ کرنا، اپنے مال کو برباد کرنا ہے اور آخرت پر ایمان رکھنے والا مومن بھی اگر کوئی خیرات محض نام ونمود اور ریا کےلیے کرتا ہے؛ تو اس کا بھی یہی حال ہے کہ اس کو کوئی ثواب نہیں ملتا۔ پھر اس جگہ “لایؤمن باللہ” کے اضافہ سے شاید اس طرف اشارہ کرنا منظور ہے کہ “ریاء کاری” اور نام و نمود کےلیے کام کرنا، اس شخص سے متصور ہی نہیں جو اللہ تعالی اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ ریاء کاری اس کے ایمان میں خلل کی علامت ہے۔” (معارف القرآن، 1/633)
جس طرح مذکورہ بالا آیتوں سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ اگر کوئی شخص صدقہ وخیرات کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کی دھاک ان فقیر و مسکین کے دل میں بیٹھ جائے، یا وہ احسان جتانا چاہتا ہے، یا اس کو ایذاء پہونچانا چاہتا ہے، یا لوگوں کو دکھانے کےلیے صدقہ و خیرات کرتا ہے؛ تو اس کی اللہ تعالی کے یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے؛ بل کہ وہ شخص گنہگار ہوگا اور اس کے اس عمل پر ان کو روز محشر سزا دی جائے گی۔ اس کے برخلاف جو شخص اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کےلیے اپنے مال و دولت غرباء و مساکین پر خرچ کرتا ہے، کوئی ریاء و نمود اور شہرت مقصود نہیں ہوتی ہے اور صدقہ وخیرات کر کے کسی پر احسان جتانا مقصد نہیں، ایذاء رسائی ہدف نہ ہو؛ تو اللہ تعالی ایسے شخص کو بہت زیادہ ثواب سے نوازیں گے اور جتنا وہ خرچ کرتا ہے اس کا سات گنا اور بسا اوقات سات سوگنے تک کا ثواب اس کے نامۂ اعمال میں درج کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ترجمہ) “جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کیے ہوئے مالوں کی حالت ایسی ہے، جیسے ایک دانہ کی حالت، جس سے سات بالیں جمیں، ہر بال کے اندر سو دانے ہوں اور یہ افزونی خدا تعالی جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالی بڑی وسعت والے ہیں، جاننے والے ہیں۔” (سورہ بقرہ/ 261)
اس آیت کریمہ میں، ان لوگوں کےلیے بہت بڑی بشارت اور خوش خبری ہے، جو صرف رضائے اِلٰہی کی خاطر فقیر و مسکین اور یتیم و بیوہ پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ خوش خبری یہ ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اس کا سات سو گنا ان کو دیا جائے گا۔ اسے ایک حسی مثال سے یوں سمجھایا گیا ہے کہ جیسے کوئی شخص گندم کا ایک دانہ زرخیز زمین میں بوتا ہے، اس ایک دانہ سے ایک ایسا گیہوں کا پودا نکلتا ہے جو سات بالیوں پر مشتمل ہوتاور ہر بالی سوسو دانے کو حاوی ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص ایک روپیہ خرچ کرتا ہے، تو اسے سات سو روپے کا ثواب ملےگا۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ دینے والے کی نیت خالص ہو اور محض رضائے الہی کے لیے دیا ہو؛ چناں چہ اس آیت کریمہ کے بعد والی آیت اس کی وضاحت یوں کرتی ہے: (ترجمہ) “جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ تو احسان جتلاتے ہیں اور نہ آزار پہنچاتے ہیں، ان لوگوں کو ان کا ثواب ملے گا، ان کے پروردگار کے پاس اور نہ ان پر کوئی خطرہ ہوگااور نہ یہ مغموم ہوں گے ۔” (سورہ بقرہ/ 262)
اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس کا باقی نہیں رکھتے؛ بل کہ اس سے کہیں زیادہ اس کو نواز دیتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: (ترجمہ) “اور جو چیز تم خرچ کروگے، سو وہ اس کا عوض دےگا۔” (سورہ سبا/ 39) اور ایک دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (ترجمہ) “اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اپنے فائدہ کی غرض سے کرتے ہو، اور تم اور کسی غرض سے خرچ نہیں کرتے، بجز رضا جوئی ذات پاک حق تعالی کے اور جو کچھ مال خرچ کرتے ہو، یہ سب پورا پورا تم کو مل جاوے گا اور تمہارے لیے اس میں ذرا کمی نہ کی جاوے گی۔” (سورہ بقرہ/272)
جو چیز انسان کے لیے مرنے کے بعد باقی رہتی ہے، وہ صدقہ و خیرات ہی ہے؛ نہیں تو جتنی چیزیں دنیا میں جمع کی ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز اللہ کے یہاں کام نہیں دےگی اور نہ باقی رہے گی۔ ایک دفعہ جناب محمد رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کے یہاں بکری ذبح کی گئی اور ایک دست کے علاوہ پورا گوشت تقسیم کردیا گیا۔ آپؐ نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ -رضی اللہ عنہا- سے پوچھا کہ کیا باقی رہا؟ عائشہ صدیقہ -رضی اللہ عنہا- نے جواب دیا کہ صرف ایک دست باقی رہا۔ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو گوشت تقسیم کیا گیا ہے وہ باقی ہے۔ یعنی جو گھر میں دست محفوظ تھا وہ باقی نہیں رہا اور جو تقسیم ہوگیا وہ باقی رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ثواب اللہ کے یہاں ملے گا اور جو گھر میں رہ گیا اس کا ثواب نہیں ملےگا۔ حدیث شریف کا ترجمہ ملاحظہ فرمائے:
حضرت عائشہ ـ رضی اللہ عنہاـ روایت کرتی ہیں کہ “انھوں نے ایک بکری ذبح کی (اور اس کا گوشت فی سبیل اللہ تقسیم کردیا گیا)، تو نبی –صلی اللہ علیہ وسلم– نے سوال کیا: “اس میں سے کچھ باقی ہے؟” حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: صرف ایک دست باقی ہے (یعنی مابقی تقسیم کردیا گیا)۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: “اس کے دست کے علاوہ سب باقی ہے (یعنی جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا وہ سب باقی ہے اور جو بچ کر گھر میں ہے وہ باقی نہیں ہے)۔” (سنن ترمذی، حدیث : 2470)
ایک حدیث ہے کہ جو شخص اپنا مال و دولت پسندیدہ اعمال میں خرچ کرتا ہے؛ تو فرشتے اس کے مال و دولت میں اضافہ کی دعا کرتے ہیں۔ جو شخص اپنا مال و دولت اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا، فرشتے اس کے مال کے ضیاع کی دعا کرتا ہے۔ ذیل میں حدیث کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
“ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں، دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما! دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک کردے!” (صحیح بخاری، حدیث: 1442)
بخاری شریف میں ایک دوسری حدیث ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی ضروریات کی تکمیل کرے گا اور اس کی حاجات پوری کرے گا؛ تو اللہ تعالی اس کی ضروریات اور حاجات کی تکمیل غیب سے فرمائیں گے۔ حدیث شریف کا ترجمہ ملاحظہ فرمائے: “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے (مدد چھوڑ کر دشمنوں کے) حوالے کرے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے؛ تو اللہ اس کی حاجت (غیب سے) پوری کرے گا۔” (صحیح بخاری، حدیث: 2442)
حضرت اسماء بنت ابو بکر ر-ضی اللہ عنہما -فرماتی ہیں کہ وہ نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- کی کے پاس آئیں؛ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: “(مال کو )تھیلیوں میں بند کرکے مت رکھو؛ ورنہ اللہ تعالی بھی تیرا (رزق) بند کردیں گے۔ جہاں تک ہوسکے خیرات و صدقات کرتی رہو”۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1434)
خالق کائنات اس دنیا کے نظام کو بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آج جو مالدار ہے، وہ کل غربت و افلاس میں مبتلا ہوجائے اور جو آج غریب ہے وہ کل امیر ہوجائے۔ حضرت امام ابو یوسف – رحمۃ اللہ علیہ – نے کیا خوب کہا ہے: “المال غاد ورائح”، یعنی مال ودولت ایسی چیز ہے جو صبح آتی ہے اور شام میں رخصت ہوجاتی ہے۔ یہ قادر مطلق اللہ تعالی کا ایک نظام ہے کہ وہ جب چاہتا ہے، اپنے بندوں میں کچھ لوگوں کے دامن کو مال اور دولت سے بھر کر غنی اور بےنیاز کردیتا ہے، اسے کسی کے پاس ہاتھ پھیلانے کی ضرووت نہیں پڑتی اور کچھ لوگوں کو افلاس و مسکنت کی حالت میں رکھ کر، ان کا حق و حصّہ اہل ثروت کے مال و دولت میں رکھ دیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالی اپنے ہر دو طرح کے بندوں کا امتحان لیتا ہے کہ مال و دولت کی عظیم نعمت پر کون اس ذات پاک کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اس نعمت سے محرومی پر کون پیمانۂ صبر کو لبریز نہیں ہونے دیتا ہے۔
آج دنیا میں جہاں بہت سے لوگ غربت و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں، وہیں کچھ لوگوں کو اللہ تعالی نے مال ودولت کی نعمت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اہل دولت غرباء و مساکین کی دیکھ ریکھ بھی –ماشاء اللہ– بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جو اپنے مال و دولت کو اوّلا غریبوں پر خرچ کرنا نہیں چاہتے اور اگر خرچ کرتے ہیں؛ تو کرنے کے بعد، اپنی نیت اور کم علمی کی وجہ سے، اخروی فائدے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؛ اس لیے ہر وہ شخص جس کو اللہ نے مال و دولت کی نعمت عطا کی ہے، وہ بہت بڑی چیز ہے۔ وہ شخص اس کا درست اور مناسب استعمال کرے اور کسی کو دیتے وقت احسان، ایذاء، تند مزاجی اور ریاء و نمو سے پاک ہوکر دے۔ پھر اس کا بےشمار فائدہ ہوگا۔ اس مضمون کا اختتام ایک حدیث کے ترجمہ پر کرتا ہوں:
“بخیل اور خرچ کرنے والوں کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہےجو لوہے کے دو کُرتے (زرہیں) چھاتیوں سے ہنسلیوں تک پہنے ہوں، خرچ کرنے والا جب کچھ خرچ کرتا ہے؛ تو وہ کُرتا پھیل جاتا ہےاور پورے جسم پر بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کو چھپالیتا ہےاور نشان قدم مٹانے لگتا ہے۔ بخیل جب کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے؛ تو ہر حَلقہ اپنی جگہ چمٹ کررہ جاتا ہے۔وہ اسے کشادہ کرنا چاہتا ہے، مگر وہ کشادہ نہیں ہوتا”۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1443)
٭ ہیڈ : اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا۔