نئی دہلی : (ملت ٹائمز)
اس وقت جموں و کشمیر کے حالات انتہائی تکلیف دہ اور تشویش ناک ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی خون خرابہ کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیری مسلمان اس مبارک مہینہ کے تقاضے پورے کر پانے سے معذور ہیں۔ میں نے اس مہینے میں کئی روز تک انتظار کیا کہ شاید اب حالات معمول پر آجائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لہٰذا میں کشمیری نوجوانوں ، حریت کے رہنماو ¿ں ،پاکستان اورہندوستان کی حکومتوں سے مخلصانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ رمضان کے اس مقدس اور بابرکت مہینے میں امن کی بحالی یعنی سیز فائر کا اعلان کریں اور مذاکرات سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ امن کا ماحول بنانے کے لیے سب کو مل کر تعاون دینا ہوگا۔ اسی صورت میں بات چیت کی راہیں آسان ہو سکتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف ملی رہنما مولانا سیداحمد بخاری نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج وادی کشمیر میں امن اور کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ امن کیسے قائم ہوگا اور زخموں پر مرہم کیسے رکھے جائیں گے اس بارے میں کشمیری نوجوانوں، حریت کے رہنماو ¿ں، ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ آج حکومت اور احتجاج پر آمادہ عوام بضد ہیں کہ ہم جھکیں گے نہیں۔ احتجاج کرنے والے نوجوان سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کر رہے ہیں اور سیکورٹی فورسز کے جوان طاقت کے بل بوتے پر اس احتجاج کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صورت حال کشمیر، کشمیری عوام اور ملک و قوم کے حق میں ہے؟ اور کیا اسے یوں ہی باقی رہنے دیا جانا چاہیے؟ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ فوج اور کشمیری نوجوان ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے ہیں۔ حالانکہ ایک وقت ایسا آیا تھا جب کشمیر میں سیلاب آیا تو اسی فوج نے اس موقع پر کشمیری عوام کی بھرپور مدد کی تھی اور کشمیری عوام نے فوج کی تعریف کی تھی۔ لیکن حالات نے اچانک پلٹا کھایا اور وہ بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم ہمیشہ امن کے داعی رہے ہیں، ہم نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے۔ ہم اس راستے سے کیوں بھٹک گئے؟اس وقت پوری دنیا کے عوام خون خرابے کے خلاف ہیں۔ اسلام تو خود ہی سلامتی کا مذہب ہے اور امن کا پیغام دیتا ہے۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔
اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے عوام اور بشمول ہندوستان کے کروڑوں مسلمان امن کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ تعلقات قائم ہوں۔ اسی میں دونوں ملکوں کی بہتری ہے۔ پتھراو ¿، حملے اور انسانی جانوں کا اتلاف کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتے۔ ان حالات کی وجہ سے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو بھی آزمائش سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
مولانا بخاری نے مزید کہاکہ اسی کے ساتھ ہمیں کشمیریوں کے درد، ان کے مسائل اور ان کی مشکلات کو بھی سمجھنا ہوگا۔ پچھلے تیس سالوں میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔ ہمیشہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی، جنازوں میں شریک کشمیریوں پر گولیاں برسائی گئیں، راہ چلتے کشمیری نوجوانوں اور گھر کے باہر بیٹھے بے قصور لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور عورتوں کی عصمتیں لوٹیں گئیں۔ آخر اس کے لیے کون سی سیاسی پارٹی اور کون سے لوگ ذمہ دار ہیں؟ ہمیں کشمیریوں کے درد کا مداوہ کرنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ ہم عام کشمیریوں کے دلوں کو جیت پائیں۔ سابق وزیر اعظم شری اٹل بہاری واجپئی نے اس بارے میں کوششیں کی تھیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہم دوست بدل سکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے آج ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ اس کے لیے حکومت کو بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ اسے تمام فریقوں سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔ پاکستان سے بھی بات چیت کرنی ہوگی۔ مذاکرات ایک پرامن اور سازگار ماحول میں ہوتے ہیں، پتھراؤ کے عالم میں نہیں۔ ہمیں وہ ماحول پیدا کرنا ہوگا تاکہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔