نبوت کادروازہ بندہوچکاہے، مگرکارنبوت باقی ہے. نئے مسائل کاحل پیش کرناعلماء کی ذمہ داری: مولاناخالد سیف اللہ رحمانی

ممبئی سے محمد فیاض عالم قاسمی  کی خصوصی رپورٹ

عالم اسلام کے ممتازفقیہ حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے گزشتہ پرسوں حج ہاؤس پلٹن روڈ ممبئی میں بعدنمازمغربایک جم غفیرسے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ  نبوت ذریعہ علم ہے، اوراللہ کی بڑی نعمت ہے، اس نعمت  سے اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں  کوسرفرازفرمایا،اس سلسلے کی آخری کڑی خاتم النبیین والمرسلین حضرت محمدﷺ ہیں۔آپ کے بعد کوئی نبی آنے والانہیں ہے، مگرکارنبوت باقی ہے،دین کی دعوت دینا، اعتقادی گمراہیوں سے امت کو بچانا،اعمال کی صحیح تصویراورانسانی زندگی کے مسائل کوقرآن وحدیث کی روشنی میں حل پیش کرنا ایک نبی کی ذمہ داری ہوتی ہے،علماء کرام آپ ﷺ کے وارث ہیں اوروراثت میں ان کو یہی ذمہ داریاں ملی ہیں، اس لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبی ﷺکی اس امانت  کی حفاظت کرے،امت کو درپیش نئے مسائل کاحل قرآن سنت کی روشنی میں پیش کرے۔آپ نے مزیدکہاکہ قرآن اورحدیث شریعت کے ماخذہیں،شریعت کےاحکام ان ہی دونوں سے مستنبط ہوتے ہیں، مگربعض احکام ایسے ہیں جوواضح طورپرقرآن کریم اورحدیث میں نہیں ہیں، اس لیےضرورت پڑتی ہے کہ قرآن وحدیث میں غوروفکرکرکے ان سے مسائل نکالے جائیں۔آپ نے مثال دیتے ہوئےکہاکہ جہازمیں نمازپڑھنا،قبضہ کی حقیقت،ٹیسٹ ٹیوب سے ولادت ،ویڈیوکانفرنسینگ کے ذریعہ نکاح،فون اورایک میل کے ذریعہ طلاق وغیرہ ایسےمسائل ہیں، جن کاتصور بھی آں حضرت ﷺ کے زمانہ میں نہیں تھا،مگرآج ہمارے لئے کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔اس لیے ایسے مسائل کوقرآن وسنت کی روشنی میں حل کرناعلماء کی ذمہ داری ہے۔نبی کریم ﷺ نے قرآن وسنت کی رشنی  میں نئے مسائل کوحل کرنے کاطریقہ اورسلیقہ بھی سکھایاہے۔ آپ نے مثال دی کہ آپ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  کویمن کاقاضی بنایاتو آپ نے ان سے پوچھا،اے معاذ ! اگرتمہارے پاس کوئی قضیہ آئے تو کیسے حل کروگے، آپ نے عرض کیاکہ اللہ کی کتاب سے، آپﷺ نے فرمایاکہ اگر اللہ کی کتاب میں نہ  ملے توکیاکروگے، انھوں نے عرض کیاکہ توپھرآپ کی سنت میں تلاش کروں گا، آپ ﷺ کے کہاکہ اگرمیری سنت میں بھی تم کو نہ ملے توپھر کیاکروگے، آپ نے عرض کیاکہ میں اجتہاد کروں گایعنی اپنی وسعت بھر کوشش کرکے قرآن وحدیث سے مسئلہ نکالنے کی کوشش کروں گا،اورمیں کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس پر آپ ﷺ  بہت خوش ہوئے اورحضرت معاذبن جبل کو دعاء دی کہ تمام تعریفیں اس اللہ کی جس نے اپنے رسول کے قاصد کواس بات کی توفیق دی جس سے وہ راضی ہیں۔

مولاناخالد سیف اللہ رحمانی نے کہاکہ  اجتہاد کرنے کے دوطریقے ہیں، ایک یہ آپ کسی مفتی سے کوئی مسئلہ پوچھیں تو وہ قرآن وحدیث میں غوروفکرکرکے آپ کو مسئلہ بتادیں،اس کے لیےدارالافتاء کانظام قائم ہے،دوسراطریقہ یہ ہےکہ کئی علماء کرام یک جوٹ ہوکرکسی مسئلہ کاحل  پیش کریں۔جیسے کورٹ میں ہوتاہے کہ جو اہم مقدمات ہوتے ہیں ان کے لیے کئی افراد کابنچ مقررکردیاجاتاہے، حضرت نے کہاکہ دینی مسائل تو نہایت ہی نازک ہوتے ہیں، کیوں کہ اس کافائدہ جس طرح عام ہوتاہے اسی طرح خدانخواستہ غلطی ہوجائے تونقصان بھی زیادہ ہوگا۔اس لئےاہم مسائل میں کئی علماء کرام کامل  کرمسئلہ  کاحل نکالنازیادہ  محتاط اوربہترہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ اگر مجتہداجتہاد کرتاہے اوروہ صحیح بات تک پہونچ جاتاہے تو اس کے لیے دوثواب ہیں،اوراگرخدانخواستہ حق بات تک رسائی نہیں ہوپاتی ہے،تو پھر بھی اس کوایک ثواب ضرورملتاہے۔اس لیے اس کام میں لگنااورتعان کرناثواب کاباعث اوراللہ کی رضاکاذریعہ ہے۔واضح رہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکی طرف سے اس طرح کےنئے مسائل پرسیمینار منعقدکئے جاتے ہیں، جس میں ملک بھر سے کم وبیش تین سوعلمائے کرام اورکہنہ مشق مفتیان جمع ہوکرکافی غوروخوض کرکے اوربحث ومباحثہ کے بعد نئے مسائل کاحل پیش کرتے ہیں۔

یہ اہلیان ممبئی کی خوش نصیبی ہے کہ امسال ٢٥-٢۷نومبر٢٠١۷ء میں اکیڈمی کاستائیسواں سیمینارحج ہاؤس میں منعقدہونے والاہے۔جس میں مکانوں کی خریدوفروخت،عصری تعلیمی اداروں سے متعلق سے بعض نئے مسائل،طلاق  کے  بعد پیداہونے والےمسائل،حیوانات کے حقوق اوران کے احکام جیسے اہم مضامین زیر بحث آئے گے۔جس کی تیاریاں  سےشروع ہوچکی ہیں۔