یہ ترازو کس لیے گاڑی گئی ہے؟

سیمیں کرن

بالکل اچانک اور بے موسم ۔۔۔۔۔ اِک نیا موسم اور ہوا کا رخ ہوا۔ آنکھیں جو زمانوں سے محو خواب تھیں کان جو سماعت سے بے بہرہ تھے ۔۔۔۔ ناک جو کسی بھی غلاظت کی بو کو سونگھنے سے قاصر تھی ۔۔۔۔ وہ تمام ہاتھ جو حرام حلال کی ہر چیز سے انجان تھے ۔۔۔۔۔ بظاہر ۔۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔۔۔ بظاہر ان ہاتھوں نے اس میدان کو میدان حشر بنا دیا تھا ! اور بالکل اچانک راتوں رات اک بہت بھاری تکڑی اعمال کو تولنے کو گاڑ دی تھی !

اسقدر بھاری ترازو جس کے ایک پلڑے میں صادق کا بٹہ تھا اور دوسرے میں امین کا !

اب بھلا اس تکڑی میں کون تلتا ؟!

کس کی مجال کہ اس پر پورا اترے ۔۔۔۔

یہ جس ذات اقدس کی صفات تھیں ، اس کی تو خاک پا کو کوئی چھو لیتا تو ستاروں کی طرح جگمگاتا !

مگر یہاں اُس کی خاک پا جیسا ہونے کا دعویٰ کرنے کی بھی کس کو مجال و جرأت تھی !

تو حیرت کی بات تو تھی کہ یہ میزان ۔۔۔۔ یہ ترازو کِس لیے گاڑی گئی تھی

کِس کے لیے گاڑی گئی تھی؟!

اور اِس میں کون تھا جو تُل کر پورا اترتا

میزان اور پیمانے بھی تو ماحول ، موسم ، شخصیت ، شخصیات کی مطابقت کے حساب سے ایجاد ہوتے ہیں !

اب بونوں کو ناپنے کو آپ فٹ لے کر نکلیں گے تو استعجاب و حیرت لازم ہے !

آپ لاکھ اس پہ سوال اٹھائیں مگر مرگ جیسی مصیبت پہ بھی سب تسلی یہی دیتے ہیں کہ یہ وہ ہوتی ہے جو سب کے ساتھ ہوتی آئی ہے !

اور جو ہونی فرد واحد کو ہدف بنائے وہی انہونی کہلاتی ہے !

وہ میزان ۔۔۔۔۔ وہ ترازو ۔۔۔۔ جس میں تُلنے کو کوئی اک شخص بھی نہ ملے اور صرف فرد واحد کو ہدف بنایا جائے تو سوال تو اٹھے گا

جب امانتوں میں خیانتوں کا عالم یہ ہو کہ ۔۔۔۔۔ جب جھوٹ کی غلاظت ہر جانب تعفن پھیلائے ۔۔۔۔ اتنی وافر مقدار میں ہو کہ

آپ چھابڑی فروش سے شروع کریں اور ملک کی اشرافیہ تک چلے جائیں ، ہر طرف یہی عالم ہو تو یقیناً یہ سوال اٹھنا چاہئیے کہ کیا یہ میزان واقعی اعمال کو تولنے کے لیے نصب ہوئی ہے یا یہ میزان محض اس اصول پہ کار بند ہے کہ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ !

جہاں ریڑھی والا داغی پھل دینے سے نہ چوکے

جہاں دکاندار دو نمبر سے لیکر بارہ نمبر کا جعلی مال دکانوں پہ رکھے !

جہاں ادویات جعلی بکیں ۔ لائف سیونگ ڈرگز تک بلیک میں بکیں

جہاں پٹرول پمپس کم تیل بیچ کر پورے پیسے کھرے کریں

جہاں کلرک سے لیکر اعلیٰ افسر دبا کر رشوت اپنی “امانت” سمجھ کر لیتے ہوں !

جہاں ہر خاص و عام ٹیکس چوری کرنا عین اپنا فرض سمجھتے

جہاں کلرک سے لے کر اعلیٰ افسر دبا کر رشوت اپنی “امانت” سمجھ کر لیتے ہوں !

جہاں ہر خاص و عام ٹیکس چوری کرنا عین اپنا فرض سمجھتے ہوں

جہاں مسجد کے باہر جوتیاں تک چرا لی جائیں

جہاں پانی کی سبیلوں پہ لگے گلاسوں سے لٹکتی زنجیر آپکے اخلاقی زوال کا پتہ دے !

جہاں استاد ٹیوشن سنٹر اور مہنگے سکولوں کا مافیا ہیڈ بن بیٹھے

جہاں پولیس مجرم سے بھتہ لے کر ان کی صفوں میں یوں کھڑی ہو کر محمود و ایاز کا فرق مٹ جائے !

جہاں قصائی آپکو کتے ، گدھے اور کوے تک کھلا دیں !

جہاں مزدور کام چوری سے لے کر ہر طرح کی چوری کریں

جہاں مِل مالکان ہر طرح کا استحصال کریں ۔۔۔۔۔

اور جہاں صحافی لفافہ صحافی ہوں ، بلیک میلنگ کرکے اک وسیع و عریض سلطنت قائم کر لیں ۔

جہاں ججز کے دامن آلودہ و ناپاک ہوں

جہاں حکومت کیا اپوزیشن ہر دامن میں سو سو نہیں بلکہ اتنے چھید ہوں کہ دامن کہتے لفظ شرمائیں

جہاں جرنیل کے پاؤں میں سب پاؤں سما جائیں ۔۔۔۔

جب عالم یہ ہو تو یکا یک صادق اور امین کے پلڑے میں کسی ایک کو تولنا بڑا عجیب لگتا ہے ۔؛

ذہن میں سوال تو اٹھاتا ہے کہ کیا واقعی مقصود محض صفائی ہے ؟؟

تو یقیناً خوش آئند ہے

دیر آید  درست درست آید  ہے !

اس صفائی سے سار گند صاف ہو جائے گا

ہو جانا چاہئیے !

جب بہت سا گند صاف ہو گیا تو باقی کی صفائی لوف خود کر لیں گے ۔ خود کو صاف رکھنا ۔۔۔ رہنا سیکھ جائیں گے !

لیکن مقصود صفائی تو نظر نہیں آ رہی !

ورنہ انصاف اور میزان ایک نقطے پر مرکوز تو نہ ہوتے !

اس پلڑۓ میں جب آپ ایک کو تول کر جھوٹا اور بد دیانت ثابت کر دیں گے تو کیا ہو گا؟

کیا وہ چین سے بیٹھ جائے گا ؟؟

وہ بھی محدب حدثے سے آپ کی ہر خامی اور عیب کو ڈھونڈھے گا !

بلکہ محدب حڈثے کی کیا ضرورت ہے سب عیب و ہنر سب کے عیاں ہیں

یہاں حمام میں تو سب ننگے ہیں !

تو کیا رفتہ رفتہ سب چلے جائیں گے ؟؟

سب نااہل قرار پا جائیں گے ؟؟

پھر تکڑی آخر ان کے ہاتھ میں ہوگی جن کی صداقت اور امانت کو تولنے کی نہ آپ کو اجازت ہے اور ہمت اور جرات !

جب معاملہ یہ ٹھہرا کہ نسبتاً کم گلا سڑا سیب چن لیا جائے !

اور سیاسی انتشار کی بجائے ملک میں سیاسی استحکام ہو اور وہ جو ہر وقت ملک میں وکٹ اب گری کہ اب گری کی اعصاب شکن کیفیت ہے اس سے عوام کو نجات و سکون ملے !

تو کیوں نہ سیب چننے کا اختیار اور فیصلہ عوام کا ہو جو بوقت ضرورت اس سیب کو سیاسی انتقام لے کر وقت کے کوڑے دان میں ڈال سکیں !

آخر کب تک ہم اس مفروضے پر آنکھیں بند کرکے یقین کریں گے کہ گندا صرف سیاستدان ہے !

اک آخری اور دہرائی ہوئی بات ۔۔۔۔ وہ گندا سیاستدان پھر بھی اچھا ہے جس کو مشکل مشکل و محال پلڑے میں تولنے کا حق و اختیار تو ہے ناں ہمیں ۔۔۔۔

وہ ٹوٹی پھوٹی جمہوریت بھی لاکھ درجے بہتر ہے جس میں کچھ مشکل و محال باتیں کہہ دینے کی اجازت ہے مجھے !

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں