دہشت گردی کے الزام سے مزید تین مسلم نوجوان کی ہوئی باعزت رہائی ،جمعیة علماءکی کوششوں کا دخل

نئی دہلی(ملت ٹائمزعامر ظفر)
دہلی کی خصوصی این آئی اے عدالت نے آج یہاں 2010 دہلی جامع مسجد بم دھماکہ معاملے سے تین مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کرتے ہوئے بقیہ ملزمین کے خلاف فرد جرم عائد کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت شروع کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے ۔
آئی ایم دہلی بم دھماکہ معاملے کے متعدد ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیة علماءمہاراشٹر (ارش مدنی)قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے بتایا کہ آج دہلی کی پٹیالہ ہاﺅس عدالت میں واقع خصوصی عدالت نے ملزمین سید اسماعیل آفاق، عبدالصبور اور ریاض احمد سعیدی کو نا کافی ثبوت کی بناءپر مقدمہ سے ڈسچارج کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے ۔گلزار اعظمی نے بتایا کہ ایڈوکیٹ ایم ایس خا ن نے خصوص جج سدھارتھ شرماکومعاملے کی گذشتہ سماعت پر بتایا کہ ملزمین کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا ہے کیونکہ ان دھماکوں کی سازش رچنے میں ان کے کردار کا کسی بھی ملزم اور گواہ نے ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی ملزمین موقع واردات سے گرفتار کیئے گئے تھے بلکہ بم دھماکو ں کے ایام میں میں دہلی سے ہزاروں کلو میٹر دور ان کے اہل خانہ کے ہمراہ بنگلور میں سکونت پذیر تھے ۔
گلزار اعظمی کے مطابق دوران بحث ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے عدالت کی توجہ تحقیقاتی ایجنسیوں کی جانب سے لگائی گئی دفعات کی جانب بھی مبذول کرائی جن کا اطلاق ان ملزمین پر قطعی نہیں ہوتا کیونکہ وہ ان بم دھماکوں کی سازش میں نہ تو شامل تھے اور نہ ہی ان کے قبضہ سے کسی بھی طرح کے ہتھیار ضبط کیئے جانے کا کوئی ثبوت استغاثہ عدالت میں پیش کرسکی ہے ۔گلزار اعظمی نے کہا جمعیة علماءاس معاملے میں گرفتار ملزمین عادل احمد، محمد اسرار خان، کفیل احمد ،بشیراحمد، محمد شکیل،آفتاب عالم، کمال احمد و دیگر کو قانونی امداد فراہم کررہی ہے ۔
عدالت نے آج ایک جانب جہاں تین مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے ڈسچارج کرکے انہیں راحت پہنچائی ہے وہیں دوسرے ۱۱ ملزمین جسمیں یاسین بھٹکل ودیگر شامل ہیں کے خلاف تعزیرات ہند، آرمس ایکٹ ، یو اے پی اے قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرکے ان کے خلاف فرد جرم عائد کرتے ہوئے معاملے کی سماعت شروع کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے ۔
واضح رہے کہ ۹۱ ستمبر ۰۱۰۲ءکو دہلی کی تاریخی جامع مسجد کے گیٹ نمبر ۳ پر فائرنگ اور مسجد سے قریب ایک کار میں بم دھماکہ انجام دینے کے معاملے میں ۴۱ ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کیا تھا ، ملزمین پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ مسجد میں غیر ملکیوں کو داخل ہونے کی اجازت امام بخاری کی جانب سے دیئے جانے سے دلبرداشتہ تھے اور انہوں نے اسی وجہ سے غیر ملکی سیاحوں کو نشانہ بنانے کے لیئے اس واردات کو انجام دیا تھا۔