ممبئی (ملت ٹائمز؍پریس ریلیز)
ممنوع دہشت گرد تنظیم القائدہ سے تعلق رکھنے کے الزمات کے تحت گرفتار مشہور عالم دین مولانا انظر شاہ قاسمی و دیگر ملزمین کے خلا ف جن دفعات کے تحت مقدمہ چلے گا پر عدالت اپنا فیصلہ معاملے کی اگلی سماعت یعنی کے ۴؍ ستمبر کو کریگی نیز آج عدالت نے ملزمین کے وکلاء کو حکم دیا کہ وہ اس تعلق سے ان کے دلائل تحریری شکل میں اگلے چند ایام میں کورٹ میں داخل کریں۔
آج دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے اسپیشل این آئی اے جج سدھارتھ شرما کی عدالت میں ملزمین کی سخت حفاظتی بندوبست میں پیشی عمل آئی جس کے دوران عدالت نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی جانب سے مقرر کیئے گئے ملزمین کے وکلاء ایڈوکیٹ ایم ایس خان اور ایڈوکیٹ ساریم نوید کو حکم دیا کہ وہ فرد جرم (چارجیس)پر اپنے دلائل تحریری شکل میں عدالت میں داخل کریں نیز تمام وکلاء کے دلائل موصول ہوجانے کے بعد عدالت آگے کی کارروائی کا آغازکریگی۔
اس سے قبل کی سماعت پر ایڈوکیٹ ایک ایس خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ این آئی اے نے ملزمین کو کو القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے جبکہ اس تنظیم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے نیز ملزم انظر شاہ کے قبضہ سے تحقیقاتی دستوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی انہوں نے اس معاملے میں کوئی اقبالیہ بیان دیا ہے ۔
ایڈوکیٹ ایم ایس خا ن نے عدالت کو مزید بتایا تھاکہ جس سرکاری گواہ نے انظر شاہ کے خلاف بیان درج کرایا تھااور اپنے سابقہ بیان سے منحرف ہوچکا ہے اور اس معاملے کے دیگر ملزم محمد آصف نے بھی انظر شاہ کے تعلق سے کوئی بیان نہیں دیا ہے ۔
ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے عدالت کو ملزم محمد آصف کے تعلق سے بتایا کہ تحقیقاتی دستوں نے عدالت میں ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں پیش کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ملزم پاکستان ٹریننگ حاصل کرنے کے لیئے گیا تھا اور وہاں سے واپس آنے کے بعد اس نے دیگر ملزمین مین پیسے بھی تقسیم کیئے تھے ۔
واضح رہے کہ اسی سال کی ۶؍ جنوری کی شب نو بجے مولانا انظر کو دہلی پولس نے ممنوع تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور تحقیقاتی دستہ نے عدالت کو بتایا تھاکہ ملزم کو ممنوع تنظیم القاعدہ کے لیئے کام کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے فارغ مولانا عبدالرحمن جنہیں دیگر ملزمین کے ہمراہ ممنوع تنظیم القاعدہ سے تعلق کی بناء پر گرفتا ر کیا گیا تھا کے دفاع میں سینئر کریمنل وکیل نتیار راما کرشنن اور ایڈوکیٹ ساریم نوید نے بحث کی تھی اور عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عبدالرحمن کے خلاف یو اے پی اے کی دفعات کے تحت مقدمہ بنتا ہی نہیں کیونکہ تحقیقاتی دستوں نے ان کے خلاف جو ثبوت اکٹھا کیئے ہیں وہ قانون کی نظر میں قابل قبول ہے ہی نہیں ہیں۔