نئی دہلی (ملت ٹائمز؍عامر ظفر)
بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل کی گئی اپیل پر آج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران تین رکنی اسپیشل بینچ کے جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیرنے بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کی عرض گزار بننے کی درخواست کو مسترد کردیااور انہیں حکم دیا کہ فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد اگر عدالت کو ضرورت محسوس ہوئی تو ان کے دلائل کی سماعت کی جائے گی ۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے دستاویزات کا ترجمہ داخل کرنے کے لئے فریقین کو ۱۲؍ ہفتوں کا وقت دیا ہے کیونکہ آج عدالت کو فریقین نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے کئے گئے ترجمہ پر ان کو بھروسہ نہیں ہے اسی کے ساتھ عدالت نے زبانی گواہی کاترجمہ کرنے کی ذمہ داری سرکار کے سپرد کی ہے اور انہیں بھی ۱۲؍ ہفتوں کا وقت دیا ہے ۔گلزار اعظمی سیکریٹری قانونی امدادکمیٹی جمعیۃعلماء کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئرایڈوکیٹ حذیفہ احمدی، ایڈوکیٹ ارشا دحنیف سپریم کورٹ میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010پر بحث کرنے کے لئے موجود تھے ،جب کہ مسلم پرسنل لا بورڈ ،وقف بورڈ اور دیگر کی جانب سے کپل سبل ،ڈاکٹر راجو دھون،اور دیگر سینئر وکلاء بھی موجود تھے ۔
خیال رہے کہ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ ء کی شب میں بابری مسجد میں مبینہ طور پر رام للا کے ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ ۱۴۵؍ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیراحمدفیض آبادی اور جنرل سکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کا تصفیہ گذشتہ برسوں الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دیا گیاتھا متذکرہ فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر آج سماعت عمل میںآئی ۔
یاد رہے کہ جمعیۃعلماء بطور عرض گزار سپریم کورٹ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف زیر سماعت پٹیشن میں شامل ہے ۔واضح رہے کہ معاملے کی گذشتہ سماعت (۱۶؍ کتوبر ۲۰۱۶) کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس،جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور جسٹس وی گوپالا گوڈا نے آبزرور کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے نچلی عدالت کے ڈیجیٹل ریکارڈ طلب کیئے تھے لیکن ڈیجیٹل ریکارڈ کی عدم دستیابی کے بعد آج عدالت نے رجسٹرار کو نوٹس جاری کیا ۔