ہندوستان کے 800 شہروں میں ا یک ساتھ جمعیۃ علماء ہند(م)  کا تاریخی امن مارچ ،فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کے خاتمہ کیلئے سبھی طبقات سے متحدہونےکی اپیل

نئی دہلی(ملت ٹائمز/محمد قیصر صدیقی)
مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کے خاتمے کے لیے آج جمعیۃ علماء ہند کی مختلف یونٹوں کی جانب سے ملک گیر پیمانے پر آٹھ سو سے زائد شہروں میں’’ امن مارچ ‘‘منعقد ہوا ۔جس کی قیادت جنتر منتر پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور پونہ میں مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے کی ۔اس موقع پر ملک کے تمام بڑے شہروں دہلی ، ممبئی ،پٹنہ، بنگلور، چپنی، حیدرآباد، کلکتہ ، پونے ، لکھنو، گوہاٹی ، امپھال وغیرہ میں بھی ہزاروں مظاہرین نے پر امن طریقے سے مارچ کیا اور پلے کارڈ کے ذریعہ اپنے احساسات دنیا تک پہنچائے ۔ گلبرگہ سے لے کر گوہاٹی تک ہر طرف انسانوں کی بھیڑ سڑک پر امنڈآ‏ئی ۔ یہ فرقہ پرستی ،ماب لنچنگ اورزہریلے بیانات کے خلاف وسعت کے اعتبار سے ملک کا تاریخی مظاہر ہ تھا، یہاں تک کہ سیلاب زدہ علاقہ دھانیرہ گجرات میں ہندو اور مسلمانوں نے مشترکہ طور مارچ نکال کر یک جہتی و یگانگت کا مظاہر ہ کیا۔ لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں جو پلے کارڈس اٹھا رکھے تھے ان پر چند نعرے کچھ اس طرح لکھے تھے ’’ نفرت مٹاؤ ،دیش بچاؤ ، مذہب کے نام پر غنڈہ گردی نہیں چلے گی ،نہیں چلے گی‘‘*جمعیۃ کا پیغام ۔ نفرت کی آگ بجھاؤ‘‘ ’’پیار محبت زندہ باد ۔ فرقہ پرستی مرداباد‘‘ ہاتھ میں لے کر ہاتھ چلیں، ہندو مسلم ساتھ چلیں *فرقہ پرستی مٹانا ہے، بھارت کو چمکانا ہے * پلے کارڈ کے ذریعہ بھارت کی عام جنتا کو یہ بھی پیغام دیا گیا کہ’’ جنتا میں ہو الفت پیار، ہو چاہے جو بھی سرکار‘‘
یہاں جنتر منتر نئی دہلی پر منعقد پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے کہا کہ ہندستان ہمار ا وطن ہے، اس کے چپہ چپہ سے ہمیں پیار ہے ،اس ملک کی سب سے بڑی پہچان کثرت میں وحدت ہے،یہاں صدیوں سے مختلف تہذیبوں اور مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں ،انگریز جیسی جابر حکومت بھی ہمارے اس امتیاز کو پوری طرح ختم کرنے میں ناکام رہی ۔صدر جمعیۃ علما ء ہند نے کہا کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں ایک طویل عرصے سے کچھ ایسی قوتیں سر اٹھائے ہوئی ہیں جو دستور کی پامالی،قانون کے عدم احترام اور ملک میں ایک مخصوص فرقے کو تشدد کا نشانہ بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔یہ لوگ امن و امان کے دشمن اور مادر وطن کے ماتھے پر کلنک ہیں۔ ان کاسب سے بڑا ٹارگیٹ ہے کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں خوف کی نفسیات پیدا کی جائے ۔ اس صورت حال میں جمعیۃ علماء ہند خاموش نہیں بیٹھ سکتی اور آج ملک کے گوشے گوشے میں امن مارچ نکال کر مذہبی مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے تمام اہل وطن کو آواز دیتی ہے کہ وہ آگے آئیں اور امن کے لیے ہماری مشترکہ کوششوں میں شریک ہوں۔ صدر جمعیۃ علما ء ہند نے کہا کہ جو شخص جو امن و امان کو غارت کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ کسی ایک فرقے کا نہیں بلکہ ملک کا دشمن ہے، ایسے تمام عناصر کی طرف سے سرکاروں اور انتظامیہ کی چشم پوشی ملک کو انارکی اور عدم استحکام کی طرف لے جا سکتی ہے ،اس لیے جمعیۃ علماء ہند مطالبہ کرتی ہے کہ فسطائیت اور تشدد پسندوں کے اس ننگے ناچ کو فورا روکا جائے اور امن وامان کو استحکام بخشا جائے کیوں کہ اس کے بغیر ملک ترقی کی طرف گامزن نہیں ہوسکتا ۔صدر جمعےۃ علماء ہند نے اس بات کو صاف ہمارا پروگرام کسی حکومت کے خلاف نہیں ہے ، ہم لوگوں کو لوگوں سے جوڑنے کے لیے نکلے ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے پونے میں امبیڈکر مجسمے کے نکلے ہزاروں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا ہمارا یہ’’ امن مارچ‘‘ اس سوچ او رنظریہ کے تحت منعقد ہو رہا ہے کہ نفرت کا جواب محبت سے ہی دیا جاسکتا ہے ۔ملک میں بڑھتی ہوئی تاریکی صرف امن اور محبت کے ذریعہ ہی کافور ہو سکتی ہے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں کہ بلکہ خود مرکزی سرکار نے اعداد و شمار جاری کرکے پارلیامنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں فرقہ وارانہ اور نسلی تشدد کو فروغ دینے والے واقعات میں 41فی صد کااضافہ ہو ا ہے ۔ میرا سوال ہے کہ دنیا کے سامنے یہ بھی آنا چاہیے کہ سرکار نے اب تک اس پر کیا اقدامات کیے؟ملک میں آج جارحانہ سیاسی اور سماجی ماحول قائم ہے ، اس کو ہوادینے میں خود سر کار سے وابستہ بعص افراد و کارکنان پیش پیش ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ آج پورے ملک میں شہر شہر ،قریہ قریہ جمعیت علماء ہند کے بینر تلے امن کا قافلہ نکلا ہے ، اب ملک چلانے والوں کوسوچنا ہے کہ وہ ’’ قافلہ امن ‘‘کے ساتھ ہے یا رہزنوں کے ساتھ؟ایسے رہزن جو ملک کے امن ، انسانیت اور قدیم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کردینا چاہتے ہیں ؟یہ طاقتیں ملک اور اس کی قدیم روایت کو نقصان پہنچار ہی ہیں، وہ ملک کے نوجوانوں کو برین واش کررہی ہیں جسے کسی صور ت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند اس بات کو واضح کردینا چاہتی ہے کہ امن و امان کے قیام کے لیے ہماری یہ تحریک کسی شخص کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہندستان کو بنانے اور بچانے کے لیے ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ اس ملک کی اکثریت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کے اند ر اعتماد بحال کرے ۔ آج کی تحریک ملک کے اجتماعی شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے کہ وہ آج کہاں کھڑا ہے ؟ہمیں متحد ہو امن ،بھائی چارہ کو مضبوط کرنے اورمظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوکر لڑنا ہو گا ۔ آج کا یہ امن مارچ ہم سے کہہ رہا ہے کہ ’’ہاتھ میں لے کر ہاتھ چلیں، ہندو مسلم ساتھ چلیں‘‘
جنتر منتر پر دیگر خطاب کرنے والوں میں مولانا نیاز احمد فاروقی ، مولانا عابد قاسمی صدر جمعےۃ علماء دہلی ، مولانا جاوید قاسمی ناظم اعلی جمعےۃ علماء دہلی، ڈاکٹر سعید الدین ، مولانا اسلام قاسمی، مولانا داؤد امینی ، قاری عبدالسمیع اور قاری محمدعارف دہلی، ڈاکٹر پرویز میاں، حاجی اشراق وغیرہ نام قابل ذکرہیں ۔ د یگر بڑے شہروں میں مولانا ندیم صدیقی ( ممبئی ) مولانا افتخار قاسمی ( بنگلور) مولانا حافظ پیر شبیر احمد ( حیدر آباد) مولانا عبدالسلام قاسمی ( کلکتہ ) مولانا حافظ بشیر احمد ( گوہاٹی ) مولانا قاسم ( پٹنہ ) مولانا متین الحق اسامہ( کانپور) مولانا حکیم الدین قاسمی ( پرتاپ گڑھ ) مولانا ڈاکٹر اسلام الدین قاسمی (دہرادون) حاجی ہارون ( بھوپال ) مولانا شبیر ( جھجھنوں) مولانا اشرف ( بھونیشور ) مولانا ابوبکر رانچی ( جھارکھنڈ )مولانا عبدالمومن( دھرم پور تری پورہ )مولانا رمضان ( جودھپور ) مولانا محمد مدنی ( دیوبند) عبدالقادر (نینی تال ) مولانا الطاف ( رڑکی ) مولانا یحیے کریمی ( نوح میوات ) مولانا علی حسن ( چندی گڑھ ) مولانا اسجد قاسمی ( احمد آباد ) مولانا رفیق قاسمی ( بڑودہ ) وغیرہ نے امن مارچ کی قیادت کی ۔