ئی دہلی(ملت ٹائمز/پریس ریلیز)
۔ترجیحات کے تعین کے لیے قوموں کو صبر اور لائحہ عمل طے کر نے کی ضرورت پڑتی ہے۔ترجیحات کا تعین ایک خوشگوار مستقبل کا ضامن ہے۔علم ،نوکری،سوچ اور کردار کی سطح پر ترجیحات طے کی جانی چاہئیں ۔ناموافق ماحول میں کام کی شروعات اور پہل کر نے والا ہی فاتح قرار پاتا ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار آج یہاں سابق ایم پی (راجیہ سبھا)صابر علی نے اپنی رہائش گاہ 34میناباغ پر منعقدہ ایک نشست کے دورا ن کیا۔جس میں صوبۂ بہار ،دہلی یونیورسٹی،دہلی اور دہلی کے مختلف علاقوں سے آئے شرکاموجود تھے۔یہ نشست بنیادی طور پر دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کے مختلف مسائل اور امور کو مد نظر رکھ کرطے کی گئی تھی۔اس موقع سے شرکائے نشست نے فرداًفرداًاپنا تعارف پیش کیا اور مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا۔اس پروگرام کی قیادت دہلی یونیورسٹی کے کروڑی مل کالج کے سینئر استاذ ڈاکٹر راکیش کمار پانڈے نے کی ۔اس موقع سے ڈاکٹرراکیش کمارپانڈے نے موجودہ حکومت کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی اقلیت میں نہیں ہیں ،قابل غور یہ ہے کہ دوسری ہند وستانی اقلیتوں کے مسائل کے تئیں بھی حکومت کو کام کرنا پڑتا ہے البتہ مسلم اقلیت کے مسائل اپنی نوعیت کے اعتبار سے حکومتی ترجیحات میں ہمیشہ سے اول رہے ہیں ۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ مسلمانوں کو مین اسٹریم میں آنے نہیں دیا گیا،اس کے لیے ظاہر ہے این ڈی اے کو ذمے دار نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔یہ کمی کہیں نہ کہیں ہندوستان کی آزادی کے بعد سابقہ حکومتوں کی جانب سے رہی ہے ۔اس کے تدارک کے تئیں موجودہ حکومت بہت سنجیدہ ہے ۔انھوں نے مزید کہا کہ ملک کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی اولاًدو سطحوں پر ہونی چاہیے۔تعلیم اور معاش ۔تعلیم کا حصول اور علم سے ہمارا رشتہ یہ پہلی ترجیح ہے اور وہی خود کفیل تعلیم یافتہ لوگ معاشی تن و مندی لائیں گے۔
دہلی یونیورسٹی سے آئے ہوئے دانشوروں کے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد یحییٰ صبا نے دہلی یونیورسٹی میں اردوکی خالی اسامیوں کے حوالے سے منضبط لائحہ عمل اپنا نے پر زور دیا۔انھو ںنے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ دہلی یونیورسٹی سے ملحقہ جن کالجز میں پہلے اردو کی تعلیم دی جارہی تھی موجودہ وقت میں وہ اسامیاں یا تو ختم کردی گئیں یا تعطل کا شکار ہیں اور عرصے سے ان اسامیوں پر تقرری عمل میںنہیں آئی ہے۔سر دست یہ پہلو ہماری ترجیحا ت میں سب سے مقدم ہے ۔دہلی یونیورسٹی میں اردو مضمون سے وابستہ اساتذہ کو ہم تبادلۂ خیال کے لیے جلد مدعوکر یں گے تا کہ ہم اپنی بات کو منظم اور دستاویزی صورت میں انتظامیہ کے سامنے پیش کرسکیں ۔
شرکائے نشست نے اس موقع سے اقلیتی امور سے متعلق متعدد سوالات کیے جن میں ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کا تحفظ،ان کی تعلیم،تین طلاق،موب لنچنگ وغیرہ شامل تھے۔اس حوالے سے صدر مجلس جناب صابر علی نے وزیر اعظم کی حالیہ تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ این ڈی اے نے ہمیشہ غلط کو غلط کہا ہے ۔اس کے باوجود اگر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو یقینااسے بھی انصاف سے بالاتر نہیں سمجھاجائے گا۔ہمارے پاس سپریم کورٹ ہے ۔کوئی بھی فرد انصاف اور عدالت سے بچ نہیں پائے گا۔جرم اپنی فطرت میں محض جرم ہے۔ہمیں ایسے موقع سے کھلے ذہن سے سوچنا ہوگا اور اس کا عملی ثبوت بھی پیش کرنا ہوگا۔ہم جب اپنی سطح سے اوپر اٹھ کر سوچیں گے تو ہمارے بہت سارے مسائل خود بہ خود حل ہوں گے۔جناب صابر علی نے مختلف انداز اور دلائل سے اپنی باتوں کو پیش کیا اور مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام کو ایک وسیع المشرب ،آفاقی مذہب بتایا اور اپیل کی کہ ہمار ے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔
جناب صابر علی نے دہلی یونیورسٹی میں اردو کی مستقل تقرریوں کے ضمن میں بہار پبلک سروس کمیشن کے تحت بہار میں اردو اساتذہ کی تقرری پر بھی اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ دہلی یونیورسٹی میں تقرری کے ساتھ بہار میں ہونے والی ارد و اسامیوں کے تعلق سے بھی ٹھوس لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔
بہار کی موجودہ صورت حا ل پر مشتمل ایک سوال کے جواب میں جناب صابر علی نے کہا کہ تباہی جس پیمانے پر ہوئی ہے اس کی تلافی جلد ممکن نہیں ۔اس میں وقت لگے گا۔گائوں سے شہروں کارابطہ ختم ہوچکا ہے۔سڑکیں ،ریل اور نقل وحمل کے ذرائع پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں ۔ایسے میں اس تباہی سے صرف حکومت نہیں نپٹ سکتی،اس کے لیے پوری انسانی برادری کو یک جٹ ہوکر کام کر نا پڑے گا۔انھوں نے مشورہ دیا کہ مرکزی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرے اور مشترکہ طور کام کرے ۔دریں اثنا اقلیتوں کے تئیں پائی جانے والی حکومتی کوششوں اور فلاحی اسکیموں کو زیادہ مؤثر طور پر ہر خاص و عام تک کس طرح پہنچایا جائے اس پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ڈاکٹر ثمینہ خاتو ن نے تین طلاق کے حوالے سے ان مطلقہ خواتین کی معاشی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ،جو تین طلاق کے مسئلے سے جوجھ رہی ہیں ۔انھوں نے اس حوالے سے کہا کہ وہ مطلقہ خواتین کی فکری مندی ہر خاص و عام تک پہنچانا چاہتی ہیں تا کہ انھیں انصاف مل سکے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مطلقہ خواتین کے نان و نفقہ کی فراہمی کا حکومت انتظام کرے۔
نشست کے اہتمام و انصرام میں بی جے پی نوجوان طبقے کی نمایندگی محمد اکبر راعین نے کی ۔انھوں نے جناب صابر علی کو اقلیتی مسائل کو سنجیدگی سے لینے والا حوصلہ مند لیڈر قرار دیا اور کہا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ ہم نے اپنے مسائل کی نمایندگی کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے جو حق پرست ہے اور اپنی بے باکی کے لیے معروف ہے۔
دوران نشست جناب صابر علی کو جے این یو کے اسکالر عمران عاکف خان کی کتاب ’’نظیریں‘‘ پیش کی گئی ۔کے اس موقع پر مہمانان خصوصی کے علاوہ ایس زیڈ ہاشمی،اکبر راعین،احمد علی جوہر ،عارف اشتیاق،محمد محبوب عالم،سرفراز انور،محمد راشد،محمد آصف،محمد ساجد ،رئیس احمد خان،محمد ریاض،ڈاکٹر عبد الکریم ،شیلیش کمار،ہری چند،سنجیت کمار ساہو،نوشاد،راکیش ،عبد السمیع وغیرہ موجود تھے۔





