طلاق شریعت کا مسئلہ ہے ،اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا،مسلم پرسنل لاء میں مداخلت نا قابل قبول:دارالعلوم دیوبند 

کورٹ کے فیصلے کی کاپی پڑھنے سے پہلے کچھ کہنا جلد بازی: مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی
دیوبند(سمیر چودھری)
تین طلاق پر طویل جرح کے بعد آج آئے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر علماء دیوبند نے عدالت کے فیصلہ کو حیران کن قررا دیتے ہوئے دوٹوک اندازمیں کہاکہ شریعت میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور عدالت کے فیصلہ کو پوری پڑھنے کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کا جو موقف ہوگا اس کی تائید کی جائے گی۔
عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کاپی ملنے تک فیصلے کے بارے میں کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگی۔ مہتمم موصوف نے واضح کیا کہ تین طلاق خالص شرعی مسئلہ ہے جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انسانی قانون نہیں ہے بلکہ یہ قرآن اور حدیث سے ثابت ،لہٰذا اس میں کسی بھی طرح کی مداخلت ناقابل قبول ہے۔مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہاکہ پارلیمنٹ کو اس پر قانون سازی کرنے سے قبل اچھی طرح سے سوچنا چاہئے۔
دارالعلوم وقف دیوبند کے صدر مہتمم و مسلم پرسنل لاء بورڈر کے سینئر نائب صدر بزرگ عالم دین مولانامحمد سالم قاسمی نے کہاکہ آج سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے طلاق ثلاثہ کے حوالہ سے جو فیصلہ سنایا ہے اس سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی آئندہ 10؍ ستمبر کی میٹنگ میں تبادلہ خیال کیا جائے گا اور اس معاملہ میں آگے کیا قدم اٹھایاجائے گااس کالائحہ عمل تیار کیاجائے گا۔ مولانا نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ملک کا آئین تمام مذاہب کے لوگوں کو مذہبی آزادی کاحق دیتاہے اور کسی کے بھی پرسنل لاء میں مداخلت سراسر غلط ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہاہے کہ تین طلا ق پر سپریم کورٹ کا فیصلہ توقع اور امید کے مطابق آیاہے۔انہوں نے ایک سوال کے جوا ب میں کہاہے اب حکومت قانون سازی سے پہلے دس مرتبہ سوچے گی کہ کیا کہ قانون بنائے جائے اور کس طرح ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کی سوچ اوفکر کو شامل کرے گی ، ملک کو سیکولرزم اور جمہوریت کی بقا ضروری ہے اور مجھے امید ہے کہ حکومت اسی تناظر میں قانون بنائے گی، سیکولرزم اور جمہوریت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنائے گی۔مولانا نے حکومت سے یہ بھی امید ظاہر کی ہے کہ حکومت جمعیۃ علماء ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بھی قانون سازی میں شریک کرے۔