اعتماد نیشنل فاو¿نڈیشن اور زینتھ ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام”مشاعرہ جشن آزادی “ کا انعقاد: سرچڑھ کہ بولتا ہے اردوزباں کا جادو

نئی دہلی(ملت ٹائمزپریس ریلیز)
اردو زبان اور ملک کی آزادی میں بڑا گہرا ربط ہے۔ اس شیریں و انقلابی زبان نے جابر انگریزوں کی ناک میں دم کر دیا تھا۔ اس دور کے شعراء، ادباءاور صحافیوں نے اپنے اشعار اور کالموں کے ذریعہ جدوجہد آزادی کو ایک نئی مہمیز دی۔آزادی کے متوالے شعراءنے اپنی نظموں اور غزلوں کے ذریعہ پورے ملک میں انقلاب برپا کردیا۔ہمارے رہنماو¿ں نے بھی ان اشعار کو اپنی تحریرو تقریر میں نہ صرف شامل کیا بلکہ آزادی کی شمع کو اس سے مزید روشن کرنے کی بھرپور سعی کی جس کی بنا پر ہم آج ہم آ زاد فضاو¿ں میں سانس لے رہے ہیں۔
مذکورہ بالاباتیں اعتماد نیشنل فاو¿نڈیشن اور زینتھ ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلڈرن پارک ، غفار منزل ، جامعہ نگر میں منعقد”مشاعرہ جشن آزادی “کی شمع روشن کرنے کے بعد متعدد شعراءنے دوران خطاب کہیں۔
مشاعرہ کے روح رواں و منفرد لب ولہجہ کے شاعرڈاکٹربسمل عارفی نے اپنے پرمغز خطاب میں کہا برطانوی حکومت کا خفیہ محکمہ اردو کی نظموں اور غزلوں پر گہری نگاہ رکھتا تھا کیوں کے ان نظموں میں آزادی کی روح رچی بسی تھی۔مجاہدین آزادی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے تھے۔یہ انقلابی زبان ہے جس نے ملک کو آزادی سے ہمکنار کرنے میں اہم ترین رول ادا کیا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اپنے نوعیت کے منفرد اس مشاعرہ کی صدارت ممتاز سماجی خدمتگار اصغر خان ایڈوکیٹ نے کی جبکہ مہمان ذی وقار کی حیثیت سے محمد اظہراختتام تک موجود رہے اور شعراءکی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
مشاعرہ کا باضابطہ آغاز وارث وارثی کے نعتیہ کلام سے ہوا۔خوش کلام شاعر نے بارگاہ نبوی میں سوزوگداز کے ساتھ گلہائے عقیدت پیش کی۔
ممتاز شاعرہ شہلا نواب نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ مشاعرہ کی نظامت کی۔ انہوں نے نوجوان شاعر راجیو ریاض سے مشاعرہ کی شعری روایات کا آغاز کیا۔ راجیو ریاض نے اپنے بہترین اشعار سے بہت دیر تک سامعین کو محظوظ کیا۔
مشاعرہ میں معروف و بےباک صحافی ڈاکٹر یامین انصاری کو ”مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ برائے صحافت “سے نوازا گیا۔ اس موقع پر شرکت کرنے والے تمام ہی شعراءکو توصیفی سند و شال کے ذریعہ اعزاز بخشا گیا۔
قارئین کے لئے یہاں منتخب اشعار پیش کئے جا رہے ہیں۔
راجیو ریاض
وہ قتل کر کے بھی بیٹھے ہوئے ہیں سنسد میں
میں ایک روٹی چرا کر تہاڑ جیل میں ہوں
وارث وارثی
ہزاروں رنگ کے پھولوں کا ہے گلدان کہتے ہیں
محبت اور یکجہتی کی ہے پہچان کہتے ہیں
یہ مندر ہے، یہ مسجد ہے ، یہ گرودوارہ
جہاں والو اسی منظر کو ہندوستان کہتے ہیں
دیپالی جین نے غریب کنواری لڑکیوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہا کہ
عمر نے دہلیز تن کی لانگ دی ہے اور ہم
آئینے میں جھریوں کو ڈھانپتے ہی رہ گئے

 

ظفر انور
رنگ حیات یوں بھی نمایاں ہوا ظفر
انسان کے لہو سے جلائے گئے چراغ
کنوینر مشاعرہ ڈاکٹر بسمل عارفی
حسن سے جب فریب کھایا ہے ، سنگ ریزروں سے دل لگایا ہے
دور رہ کر بھی پاس رہ کر بھی، عشق کو ہم نے آزمایا ہے
طارق متین
محبت کے شجر میں دشمنی کا پھل نہیں ہوتا
اگر ہم پیار سے رہتے تو گھر مقتل نہیں ہوتا
ہمارے کارناموں سے ملا ہے مرتبہ ہم کو
فضیلت اوڑھ لینے سے کوئی افضل نہیں ہوتا
نائب کنوینر مشاعرہ معین قریشی
اعلان جنگ کر تو رہے ہو مگر سنو
تم بھی نہیں رہوگے اگر ہم نہیں رہے
عہد وفا پہ سب رہیں قائم یہ شرط ہے
ہم بھی نہیں رہیں گے اگر تم نہیں رہے
سراج طالب
کہتا ہے کہ میں امن و اماں کا ہوں محافظ
جس شخص کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے
سنیتا رینا
کیفیت کوئی بھی ہو چہروں سے عیاں ہوتی ہے
کتنا دشوار ہے غم اپنا چھپائے رکھنا
ڈاکٹر فرمان چودھری
عالم غیب سے آواز نہیں آئے گی
آو¿ قرآن سے حل اپنے مسائل کرلیں
آئین احمد صدیقی
یہ موسم خوبصورت ہے مگر تم سا نہیں پھر بھی
نگاہیں تم پہ جا ٹھہریں تودیوانے کی کیا غلطی
ناظمہ مشاعرہ شہلانواب نے ”دلی نامہ“سے مشاعرہ کو نئی بلندی عطا کی۔
ہرصبح یہاں دلکش، ہر شام سہانی ہے
دلی جسے کہتے ہیں ولیوں کی نشانی ہے
الفاظ میں خوشبو ہے ، لہجے میں روانی ہے
اردو یہ میری اردو غالب? کی نشانی ہے
وحید اعظم
یہ بچے کون سے مکتب سے پڑھ کہ آئے ہیں
بڑوں کی اپنے جو تذلیل کرتے رہتے ہیں
ان کے علاوہ تحسین احمد صدیقی، شاہین احمد صدیقی، رعنا رضوی ،سمیت متعدد شعرا ءنے اپنے کلام سے سامعین کو دیر رات تک بیدار رکھا۔مشاعرہ پوری آب وتاب کے ساتھ جاری رہا جس کی ستائش چہار سو کی جا رہی ہے۔