بچوں کی محافظت : ایک مسئلہ

محمد عمران
گروگرام کے ریان پبلک اسکول میں بڑے ہی جابرانہ و ظالمانہ انداز میں معصوم پردیومن کا قتل کیے جانے کے بعد ملک میں بچوں کی محافظت کا مسئلہ بہت ہی سنگین ہوگیاہے۔ مذکورہ سانحہ کے بعد اس بات کو لے کر ہر شخص فکرمند ہے کہ جس تعلیمی ادارے میں بچوں کے مستقبل کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے،جس تعلیمی ادارے میں بچے سب سے زیادہ محفوظ ومامون سمجھے جاتے ہیں اور جس تعلیمی ادارے میں والدین اپنے جگر پاروں کو پہنچا کر اطمینان قلب حاصل کرتے ہیں ، وہیں سے آج ان کے قتل ہوجانے کی خبر کیوں ملی ہے؟سوال تو یہ بھی پیداہورہاہے کہ اسکول بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام کیوں ہونے لگے ہیں؟ اورکیااب بچوں کی محافظت پر واقعی سوالیہ نشان لگ گیاہے؟
اس سوال پر غور کرتے ہوئے اس پہلو کومدنظر رکھنا بھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ پردیومن کو کس نے قتل کیا اور کیوں کیا؟ حالانکہ اشوک نام کے بس کنڈکٹر کی گرفتاری اور اس کے اقبال جرم کے بعد بھی کوئی اس بات کوہضم کرنے کوتیار نہیں ہے کہ اشوک ہی پردیومن کاقاتل ہے۔کیونکہ بچوں کے بیت الخلاءمیں اس کے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے،اپنی فطرت کے مطابق وہ نہ تو غصہ کرتا ہے اور نہ ہی جھگڑالو ہے بلکہ شواہدین کے مطابق اس نے پردیومن کو اسپتال تک پہنچانے میں بھی مدد کی تھی۔اسی لئے عمومی حلقوں میںاس کے اقبال جرم کو اس کے اوپر اسکول کا دباؤ سمجھا جارہا ہے اور ایک چھوٹی مچھلی کو آگے بڑھاکر بڑی مچھلیوں کو بچانے کی کوشش سے تعبیر کیا جارہا ہے۔حالانکہ پردیومن کے والد نے حقائق کا پتہ لگانے کے لئے کورٹ کادروازہ بھی کھٹکھٹایاہے۔اورانکوائری کاسلسلہ بھی جاری ہے۔امید تو یہ ضرور کی جانی چاہئے کہ دودھ کادودھ اور پانی کاپانی ہوجائے گا ،ممکن ہے خاطی کو اس کی سزا بھی مل جائے۔لیکن معصوم بچے کے ساتھ جوہوا وہ کیا کم تکلیف دہ ہے،اس حادثہ نے بچوں میں جوعدم تحفظ کے احساس کوجنم دیاہے اس کی بھرپائی کیا ممکن ہوپائے گی؟
بچوں کو اغوا کرنے والے ،ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے اور ان کا قتل کرنے والے کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بچہ قدرت کی بے شمار عظیم نعمتوں میں سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وہ اگرخوشی کے عالم میں خوشی کو دوبالا کرتا ہے تو غم کی حالت میں بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ کی لکیریں پھیرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ وہ دلوں کو جوڑتا بھی ہے اور محبت و یکانگت کی راہ ہموار بھی کرتا ہے۔اس کا روپ دلکشی کا سبب ہوتا ہے ۔ کسی بھی زبان کا کوئی بھی شاعر و ادیب ایسا نہیں ہوگا جس نے اپنی تخلیقات میں والہانہ انداز میں اس حقیقت کا اظہار واعتراف نہ کیا ہو اور بچوں سے محبت کی تبلیغ نہ کی ہو۔ دینی بنیاد ہو یا دنیوی معیار ہر جگہ بچوں کے لئے شفقت کی مثال و ترغیب موجود ہے۔ وہ بچہ ہی تو ہے جو غصّے کی شدت میں بھی اپنے بڑوں کو یو ٹرن لینے پر مجبورکردیتا ہے اور محبت کی شاہراہ پر چلادیتا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جب انسان درندگی کی حد کو پار کرنے لگتا ہے اور اپنی شیطانی طاقت کا استعمال ان بھولے بھالے بچوں پر کر تا ہے تو یک لخت یہ بھی بھول جاتا ہے کہ بچّے معصوم ہوتے ہیں اوریہ تو کوئی قصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ اسی لئے یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر کبھی کوئی ذاتی اغراض کے حصول کے لئے یا گناہوں کا چشم دیدبن جانے پر معصوم بچوں کا بہمیانہ قتل کردیتا ہے تو یقنی طور پر انسانیت بھی بلبلا اٹھتی ہے۔
گزشتہ دنوں پردیومن کے قتل اور ایک پانچ سالہ معصوم بچی کے جنسی استحصال کی خبر سے جو سنسنی پھیلی ہے اس نے دلوں کو پژمردہ تو کیا ہی ہے، ساتھ ہی متحیر بھی کیاہے۔ سب کا ایک ہی سوال ہے کہ جو ہوا وہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟ پہلے تو اسی بات کا یقین نہیں ہوا کہ بھلا یہ کوئی یقین بھی کرنے کی بات ہے۔لیکن افسوس صد افسوس یہی سچ ہے۔ اس انسانیت سوز سانحہ کے انجام پانے کے بعدبار بار دل میں یہی خیال آرہاہے کہ ایسا کرتے ہوئے کیا ان حیوانوں کے دل پتھر کے ہوگئے تھے؟ کیا ایسا کرتے ہوئے انہیں ایک بار بھی ترس نہیں آیا ہوگا؟ کیا ان کے ہاتھ لرز نہیں اٹھے ہوں گے؟ کیا ان کا ذہن واقعتا بالکل ہی مفلوج ہوگیا تھا؟ آئیے! میرے ساتھ آپ بھی سوچئے اور غم کے سمندر میں یونہی غرق ہوتے جائیے۔نہ تو کوئی کنارہ ملے گا اور نہ ہی کوئی سطح مل پائے گی۔ ہائے افسوس !کیا دنیا سے ایسے ظالمانہ رویے کا کبھی خاتمہ بھی ہوپائے گا؟ کاش! کوئی اس سوال کا مثبت جواب دے پاتا۔
ایک ہی بات ہے جو ہر زاویے سے سامنے آتی ہے اوروہ یہ ہے کہ انسان کے اندر سے انسانیت،ذمہ داروںسے ذمہ داری اور محافظوں سے محافظت ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اور اسی طرح جس کے اندر جو خوبیاں ہونی چاہئے تھیں یا وہ جس کا مکلف تھا اسی سے پہلو تہی کرنے لگا ہے ۔ سفاکیت کا اس قدر غلبہ ہوگیا ہے کہ والدین کی قدر وقیمت،بڑوں کی تعظیم اور پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ کی اہمیت بھی اب اس کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن اخبارات میں ماں باپ کے ساتھ ظلم وزیادتی ، پڑوسیوں کے گھروں میں ڈاکہ اور قتل ، عورتوں کی بے حرمتی ،معصوم بچّوں کا اغوااور ان کا قتل وغیرہ کی خبریں سرخیوں میں جگہ بناتی ہیں۔ ایسی خبریں خوب پڑھی بھی جاتی ہیں اور ان مظالم کے خلاف کبھی چھوٹے تو کبھی بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کئے جاتے ہیں ۔ قانون بناکر ایسے جرائم کو روکنے کی مانگیں بھی کی جاتی ہےں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اس کی زبردست گونج بھی سنائی دیتی ہے ۔قانون بھی بنتے ہیں۔ لیکن جرائم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔بلکہ دیکھنے میں تویہ آتا ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود جرائم کی نت نئی شکلیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس لئے اس امر کو سمجھنا ہوگاکہ کسی بھی معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کے لئے اجتماعی طور پر مخلصانہ اور مثبت کوششیں لازمی ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اس نوع کے جتنے بھی حادثات اور واقعات رونما ہوتے ہیںوہ ہمیشہ ہی ملک اور دیرینہ تہذیب و تمدن کی شرمساری کا سبب بنتے ہیں۔ آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ملک میں بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کے خلاف سخت قانون بنے، ان کی حفاظت کو بہرصورت یقینی بنایا جائے۔مجرمین کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہو۔اور یہ بات شدت سے محسوس کی جائے اور کرائی بھی جائے کہ ملک کے بچے صرف اپنے والدین کے ہی بچے نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ مستقبل کے ہندوستان کے معمار اور محافظ بھی ہوتے ہیں۔ان کی پوشیدہ صلاحیتیں بروئے کار آتی ہیں تو ملک بھی ترقی کرتا ہے ۔ لہٰذااس یقینی امر کو سمجھنا ہوگا اور اس کے لئے بچوں کی محافظت کے قانون کا عملی نفاذ جن کے بھی ہاتھوں میں ہے ان کو بھی سست روی کے دلدل سے بہر صورت باہر نکلنا ہی ہوگا۔
پردیومن کااصل قاتل کون ہے ،یہ تو تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔لیکن ماحول اور حالات کی سنگینی نے جیسی صورتیں اپنائی ہیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب معاشرے میں کچھ بھی ہوجانا بعید از قیاس نہیںہے ۔ آج معاشرے کی خرابیوں نے ایسی شدت اختیار کرلی ہے کہ کوئی بھی خرابی پراگندہ ذہنیت کے لوگوں کو خرابی نہیں لگتی ہے۔ اور انتہا تو یہ ہوگئی ہے کہ ان کے کسی بھی حد تک جانے کے امکان سے انکار کی گنجائش حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہی سمجھا جانے لگا ہے ۔پردیومن قتل معاملے کے بعدایک طرف جہاں اسکو ل کی کوتاہیاںسوالوں کے گھیرے میں آگئی ہیں ، وہیںان پر کارروائی کاسلسلہ بھی جاری ہے۔یقینی طور پر اس معاملے کو انجام تک پہنچانا ضروری بھی ہے تاکہ بچوں کے مستقبل اور ان کی محافظت کا یقین دلوں میں بیٹھ سکے،کوئی بچہ اسکول جانے سے گھبرائے نہیں اور والدین کوبھی یہ محسوس ہونے لگے کہ ’ودیا کے مندر‘ میں واقعی تعلیم کے مقاصد کوہی اولیت دی جاتی ہے۔
حالانکہ پردیومن معاملے کے بعد ہندوستان کا ہرطبقہ حرکت میں آگیاہے۔حکومت ہند سے لے کر ریاستی حکومتوں تک،سی بی ایس ای اور عدالتوں سے لے کر تعلیمی اداروں تک۔ اس بابت جہاں بچوں کی محافظت کے لئے مختلف ہدایات جاری کی گئی ہیں ،وہیں ان پر عمل کرنے کی شروعات بھی ہوگئی ہے۔سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے سے لے کر اسکولوں کے تمام اہل کاروں کے پولیس ویریفکیشن تک کی ابتدا ہوگئی ہے۔یقینی طور پر اس کی سخت ضرورت بھی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ کیا محض اسکولوں میں ہی بچے غیر محفوظ ہیں؟کیا گھروں میں،محلّوں میںاور موجودہ ماحول میں جابجا بچوں کی محافظت کا مسئلہ ایک تشویش کا امر نہیں ہے؟ کیاجنسی استحصال، قتل، اغوا اور بچہ مزدوری جیسے دیگر معاملے بھی غور وفکر کی دعوت نہیں دیتے ہیں؟ اس لئے حق تویہ ہے کہ بچوں کی محافظت کو اسکول کی چہار دیواری تک محدود کرکے مطمئن ہوجانے کی بھول نہ کی جائے ، بلکہ اس سلسلے میں ایک عام بیداری کی مہم کی سنجیدہ شروعات بھی کی جائے۔
(مضمون نگار اینگلو عربک اسکول کے سینئر استاذ اور آزاد صحافی ہیں)
mohd1970imran@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں