ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ملک سوچھ بھارت مہم کی تیسری سالگرہ منا رہا ہے ۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں عوام کو جوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ اس کے لئے ملک بھر میں مختلف پروگرام منعقد کئے جائیں گے، جس کے اختتام پر 2 اکتوبر کو وزیر اعظم نریندرمودی دیش سے خطاب کریں گے ۔ اسی دن مضمون نگاری، شورٹ فلم اور پینٹنگ کے لئے قومی انعام کے ساتھ سوچھ بھارت انعام دینے کا منصوبہ ہے ۔ یہ مہم ‘سوچھتا ہی سیوا’ کے نام سے چلائی جارہی ہے۔ اس کا مقصد عوام کو بیدار کر صفائی کی تحریک کو رفتار دینا اور ماحول کو صاف ستھرا بنانا ہے ۔ کھلے میں رفع حاجت کی عادت کو بدلنے کے لئے بیت الخلاء بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے گی ۔ مہم کے دوران 17 ستمبر کو دور درشن پر ‘ ٹوائلیٹ ایک پریم کتھا ‘ فلم کا پریمئیر منعقد کیا جانا ہے ۔ اس کو کامیاب بنانے کے لئے ہر شعبہ زندگی سے لوگوں کو بڑے پیمانے پر رضا کارانہ کام کرنے کے لئے شامل کیا جائے گا ۔ خاص طور پر عوامی اور سیاحتی مقامات کو صاف کرنے پر پہلی توجہ دی جائے گی ۔ اس میں صدر جمہوریہ سے لے کر عام آدمی تک حصہ لیں گے۔ مرکزی وزیر، گورنر، وزیر اعلیٰ، ممبران اسمبلی، مشہور شخصیات اور اعلیٰ افسران کی شرکت کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ تحریک کی اپنے علاقوں میں ہمت افزائی کے لئے اداکاروں، مزہبی رہنماؤں اور کارپوریٹ جگت کی ہستیوں کو آگے آنے پر زور دیا جا رہا ہے ۔
ستمبر کی 15 تاریخ سے شروع ہونےوالے سوچھ بھارت ابھیان کی افتتاحی تقریب میں موجود یونیسیف اور سرکاری اعلی افسران نے کہا کہ مودی سرکار کی طرف سے چلائی جارہی صفائی مہم سے غیر معمولی نتایج سامنے آئے ہیں۔ افسران کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہریوں میں صاف صفائی کے تیں زبردست بیداری آئ ہے۔ اس موقع پر پریس کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے یونیسیف واش کے سرپرست نیکولاس اوسبرٹ نے گندگی کے باعث ہونے والی اموات کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ بھارت میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2015 میں 1لاکھ 17 ہزار بچوں کی موت ڈائریا کی وجہ سے ہوئی یعنی ایک گھنٹے میں13 بچے ۔ یہ دنیا میں ڈائریا سے ہونے والی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات در کا 22فیصد ہے۔ انھوں نےبتایا کہ بھارت کے 39 فیصد بچے عدم غزاعت (کوپوشن) کے شکار ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ 11 فیصد مائیں بچے کی ولادت کے وقت اور15 فیصد نومولود صفائی کی کمی کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ آلودہ پینے کے پانی کی وجہ سے بھارت کو ہر سال بڑا اقتصادی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ عالمی بنک کی 2008 میں شائع رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ مناسب صاف صفائی کا انتظام نہ ہونے اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ملک کو سالانہ53.8 بلین ڈالر جو جی ڈی پی کا 6.4 فیصد تھا کا اس سال خسارہ برداشت کرنا پڑا۔
خراب سینی ٹیشن خاص طور پر کھلے میں رفع حاجت کا سیدھا اثر بچوں اور سماج کی صیحت پر پڑتا ہے۔ اس مسئلے سے نبٹنے کے لئے وزیر اعظم نے بیداری کی جو پہل کی ہے یونیسیف نے اس کا استقبال کیا ہے۔ 15 زیادہ آبادی والی ریاستوں میں یو نیسیف اس مشن کو مستقل جاری رکھے گی ۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اعداد کے مطابق85 فیصد سے زیادہ لوگ اب بیت الخلا ء کا استعمال کر رہے ہیں۔ سینی ٹیشن کا کوریج سوچھ بھارت مشن لانچ کے وقت 39 فیصد تھا اب بڑھ کر 67.5 فیصد ہو گیا ہے ۔ 239000 گاؤں اور 196 اضلاع کھلے میں رفع حاجت کی پریشانی سے نجات پا چکے ہیں ۔ یہ اپنے آپ میں بڑی کامیابی ہے ۔ یونیسیف نے تازہ آزاد سروے جو 12 صوبوں کے 10000الگ الگ خاندانوں پر مشتمل ہے میں پایا کہ کھلے میں رفع حاجت سے چھٹکارا پانے پر ایک خاندان نے وقت، دوائیوں پر خرچ اور جان لیوا بیماریوں سے حفاظت کے ذریعے سال میں پچاس ہزار روپے کی بچت کی ۔ سینی ٹیشن کو بہتر بنانے پر آنے والے خرچ اور فائدہ کا بھی مطالعے میں جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صفائی پر اگر ایک روپیہ خرچ ہوتا ہے تو اس سے 4.30 روپے بچتے ہیں ۔ تین سالوں میں حاصل ہوئے اس مقام کو کم نہیں آنکنا چاہئے ۔
ڈرنکنگ واٹر اینڈ سینیٹری وزارت کے سیکریٹری پرمیسورم ایر(آئ اے ایس) نے صحافیوں سے گفتگو میں سوچھ بھارت مہم کے تحت کیے جانے والے کاموں کی تفصیلی معلومات فراہم کرائی۔اور بتایا کہ حکومت ہند سو چھ بھارت ابھیان کو لیکر بیحد سنجیدہ ہے ۔جس کو لیکر سرکار کسی بھی قیمت پر کامیابی حاصل کر نا چاہتی ہے ۔مسٹر ایر نے مزید بتایا کہ بھارت سرکار کی تمام وزارتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر مہینے میں ایک بار آفس میں صفائی مہم کے تحت صاف صفائی کریں ۔ سرکار 2019 تک بھارت کو کھلے میں رفع حاجت سے آزاد (ODF) کرنا چاہتی ہے ۔ تھرڈ پارٹی سروے کے حوالے سے انھوں نے دعویٰ کیا کہ 91فیصد لوگ بیت الخلاء کا استعمال کر رہے ہیں ۔ پانی کی کمی کو مانتے ہوئے انہوں نے ODF گاؤں کو پانی مہیا کرانے میں فوقیت دینے کی بات کہی ۔ ان کے مطابق دیہی پین میں کم پانی خرچ ہوتا ہے، سرکار سوکھتا گڑھےوالے اور بایو ٹوائلیٹ کو فروغ دینا چاہتی ہے تاکہ پانی بچ سکے۔ ان کا ماننا ہے کہ مزاج بدلی بغیر ہم اس مہم میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ اس لئے سرکار نے ایڈوائزری جاری کی ہے اور مہم کے دوران اس پر زور دیا جائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب لوگ صفائی کی اہمیت کو محسوس کرنے لگے ہیں تبھی تو کئی گاؤں نے ٹوائلیٹ بنانے کے لئے دیئے گئے سرکار کے پیسے واپس کر دیئے بجنور ضلع کا مبارک پور گاؤں اس کی ایک مثال ہے ۔ انھوں نے گنگا خاص طور پر کوسی کے کنارے کم قیمت والے بایو ٹوائلیٹ بنانے کی بات کہی۔
سوال یہ ہے کہ بھارت میں وہ کونسے عوامل جو کھلے میں رفع حاجت سے نجات حاصل کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں ۔ ان پر غور کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اول یہ کہ سرکار اس معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے؟ پچھلے تین سالوں میں صفائی سے متعلق جو کام سامنے آیا اس میں کام کم دکھاوا زیادہ رہا ۔ لوگوں میں صفائی کرتے ہوئے فوٹو کھنچوانے کی ہوڑ نظر آئی ۔ پھر بھی کئی لوگوں نے اس پر سنجیدگی سے کام کیا اور اپنے علاقوں کو او ڈی ایف بنا لیا ۔ اس میں عوام کی بیداری کا دخل ہے ۔ سرکار جہاں پورا کنٹرول ہے وہاں اس میں کمی نظر آتی ہے ۔ مثلاً ریلوے، یہ اعداد آنے چاہئیں کہ کتنی ٹرینوں میں بایو ٹوائلیٹ بنائے گئے ۔ سرکاری عمارتوں، دفتروں، عدالتوں، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹاپ اور عوامی جگہوں و پبلک ٹوائلیٹ کا کیا حال ہے ۔ یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ گاؤں دیہات میں جن کے پاس زمین نہیں ہے ایک چھوٹی سی جگہ پر جھونپڑی بنا کر رہتے ہیں وہ ٹوائلیٹ کہاں بنائیں ۔ کیا سرکاری عملہ بغیر انتظام کئے لوگوں کو باہر جانے سے روک سکتا ہے ۔کیا اسے عورتوں کی کھلے میں رفع حاجت کرتے ہوئے فوٹو لینی چاہئے اور منع کرنے پر مار پیٹ کرنا چاہئے ۔آج بھی دیش میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ ٹوائلیٹ گندی چیز ہے اسے گھر سے باہر ہونا چاہیے یا پھر اس میں بھوت رہتے ہیں وغیرہ ۔ قدیم روایات کے مطابق ہون پوجا کا کچرا، استھیاں، انسانوں کی ادھ جلی اور جانوروں کی لاشیں، سولڈ اینڈ لکوڈ ویسٹ کو ندیوں میں بہایا جاتا ہے ۔ مزہبی رہنماؤں کے ذریعے ان روایتوں کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ جو دھرم گرو سوچھ بھارت مشن کی حمایت کرتے ہیں وہ ٹوائلیٹ کی وکالت تو کرتے ہیں لیکن ان کو ریتیوں کی مخالفت نہیں کرتے ۔
سرکاری اعداد وشمار کی بات کریں تو اب بھی 640867 گاؤں میں سے 401867 گاؤں کھلے میں رفع حاجت سے آزاد ہونے کے انتظار میں ہیں ۔ 511 اضلاع کو او ڈی ایف ہونا ہے ۔ اسی طرح سینی ٹیشن کوریج 67.5 فیصد ہونے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن دیش کی بڑی ریاستوں اتر پردیش، بہار، اڑیسہ، ہماچل پردیش اور کیرالہ میں یہ صرف 50 فیصد تک ہے ۔ کھلے میں رفع حاجت کے معاملے خود مودی جی کے پارلیمانی حلقہ میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لئے اور محنت اور توجہ کی ضرورت ہے ۔ ویسے اس بار سو فیصد کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے جو منصوبہ سازی کی گئی ہے اس سے حالات کے بدلنے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ سوچھتا ایکشن پلان کے تحت 76 وزرا کو اسے لاگو کرنے کے لئے 12000 کروڑ روپے دیئے گئے ہیں ۔ 100 مشہور مقامات کو صاف ستھرا کرنے کے لئے سوچھ آئیکونک پلیس نام دیا گیا ہے اس میں 20 جگہ ایسی بھی ہیں جو بہت دور ہیں ۔ نمامی گنگے پروگرام کے تحت 4500 گنگا کنارے کے گاؤں کو او ڈی ایف کیا جائے گا ۔ سوچھتا پکھواڑا میں تمام منسٹر اور ان کے شعبہ کام کریں گے ۔ ضلع سوچھ بھارت پریرک کے طور پر 600 نوجوان پروفیشنل نجی سیکٹر کے فنڈ کی مدد سے ضلع کو ڈولپ کریں گے ۔ اس منصوبے کو بروئےکار لانے کے لئے سوچھ بھارت کوش سے660 کروڑ روپے دیئے گئے ہیں ۔
ملک میں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے صفائی مہم پر اتنا زور دے رہی ہے ۔ اس وقت لوگ بےروزگاری، بھک مری، اقتصادی نا برابری، عدم رواداری، مہنگائی اور کاروبار کو لے کر پریشان ہیں ۔ کئی پر نوکری کے جانے کا خطرہ منڈرا رہا ہے ۔ ایسے میں سرکار بیت الخلاء بنوانے کی بات کر رہی ہے ۔ دراصل دونوں کی اپنی نوعیت الگ ہے ۔ روزگار اور کاروبار اچھا ہو اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن صفائی ایسا مسئلہ ہے جو اقتصادیات اور زندگی دونوں کو متاثر کرتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ صاف ہوا پانی سب کو ملے اور سینی ٹیشن کا مناسب انتظام ہو تاکہ ماحول صاف رہے ۔ صاف ماحول زندگی کے لئے ضروری ہے ۔ جی سکھی ہوگا تبھی جہاں کا سکھ مل سکتا ہے اس کے لئے اپنے حصہ کا کام کرنا ہی گا ۔