صومالیہ میں ترکی کے سب سے بڑے فوجی اڈّے کا افتتاح، ترکی کی بڑھٹی عسکری طاقت کا ایک اور ثبوت

موگادیشو (ملت ٹائمزایجنسیاں
ترکی نے ہفتے کے روز صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں بیرون ملک اپنے سب سے بڑے فوجی اڈّے کا افتتاح کیا۔ یہ پیش رفت صومالیہ کے ساتھ تعلقات کو مستحکم بنانے اور مشرقی افریقہ میں اپنے وجود کی بنیاد ڈالنے کے سلسلے میں سامنے آئی ہے۔
فوجی اڈے کے افتتاح سے قبل ایک سینئر ترک ذمے دار نے بتایا کہ اس اڈے میں ترک افسران صومالیہ کے 10 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو تربیت دیں گے۔ افتتاح کے موقع پر ترکی کی فوج کے چیف آف اسٹاف خلوصی آکار بھی موجود تھے۔ترکی کے شمال مشرقی افریقہ کے ساتھ تعلقات سلطنت عثمانیہ کے زمانے سے ہیں تاہم صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت حالیہ چند برسوں میں صومالیہ کی حکومت کے قریبی حلیف کے طور پر سامنے آئی ہے۔

ہفتے کے روز افتتاحی تقریب کے دوران صومالی وزیراعظم حسن علی خیری نے عسکری تربیت کا مرکز کھولے جانے پر ترکی کی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ خیری کے مطابق یہ بیرون ملک ترکی کا سب سے بڑا تربیتی ادارہ ہے جہاں ایک دفعہ میں 1000 فوجیوں کو تربیت فراہم کرنے کی گنجائش ہے۔ فوجی اڈے میں کھیلوں کا جمنازیم اور جاگنگ ٹریک بھی شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق انقرہ حکومت نے صومالیہ میں سکیورٹی امداد یا سیاسی جماعتوں کی اعلانیہ حمایت کے بجائے انسانی امداد پر بنیادی توجہ مرکوز رکھی جس نے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سال 2011 میں قحط اور خشک سالی کے عروج کے وقت ترکی نے انسانی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور صومالیہ کے عوام کے دل جیت لیے۔ اس کے علاوہ ترکی صومالیہ میں اسکولوں، ہسپتالوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مصروف ہے جب کہ صومالی طلبہ کو ترکی میں تعلیم کے لیے اسکالر شپ بھی پیش کی جا رہی ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن دو مرتبہ موگادیشو کا دورہ کر چکے ہیں۔ سال 2011 میں جب انہوں نے پہلا دورہ کیا تو وہ صومالیہ کا دورہ کرنے والے پہلے غیر افریقی سربراہ بن گئے۔ جی ہاں اس ملک کا دورہ جس کو 20 برسوں سے جاری جنگ اور خانہ جنگی نے تباہ کر دیا۔

دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی لین دین میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سال 2010 میں صومالیہ کے لیے ترکی کی برآمدات کی مالیت صرف 51 لاکھ ڈالر تھی۔ تاہم گزشتہ برس کے دوران اس میں نمایاں بڑھوتی ہوئی اور اس کی مالیت 12.3 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔ صومالیہ کو اشیاء برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھ برسوں کے دوران ترکی 20 ویں نمبر سے پانچویں پوزیشن پر آ گیا۔
یاد رہے کہ بیرون ملک موجود ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے رسوخ کے خاتمے کے لیے ایردوآن حکومت جو کوششیں کر رہی ہے صومالیہ ان کوششوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں ترکی میں انقلاب کی ناکام کوشش کے بعد صومالیہ کی کابینہ نے دارالحکومت موگادیشو میں گولن سے متعلق اسکولوں اور ہسپتالوں کی فوری بندش کے احکامات جاری کیے۔
صومالیہ کی فوج کو متعدد غیر ملکی فریقوں کی سپورٹ حاصل ہے جن میں اقوام متحدہ ، افریقی یونین اور امریکا شامل ہیں۔ یہ تمام فریق ایک قومی فوج تیار کرنے میں موگادیشو حکومت کی مدد کر رہے ہیں جو شدت پسند صومالی تنظیم حرکت الشباب کا مقابلہ کر سکے۔
حرکت الشباب کو 2010 میں دارالحکومت موگادیشو سے نکال دیا گیا تھا تاہم اس کی جانب سے کیے جانے والے خونی حملے صومالیہ میں امن کے استحکام کی راہ میں مرکزی رکاوٹ ہیں۔
صومالیہ کے وزیر اطلاعات نے ترکی کے نئے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکا اور برطانیہ ہمیں لاکھوں ڈالر دے رہے ہیں تاہم کسی نے بھی ہمارے فوجیوں کی تربیت کے لیے خصوصی اور جدید مرکز قائم کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کا یہ فوجی اڈہ آئندہ 50 سے 100 برس کے دوران خدمات کا سلسلہ جاری رکھنے والا ادارہ ثابت ہوگا۔

 

SHARE