تاج محل: محبت ہی نہیں، ہندوستانی تہذیب کی علامت ہے

ڈاکٹر یامین انصاری
دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز اور محبت کی لا زوال نشانی یو پی ٹورزم کے کتابچہ کی محتاج نہیں، بلکہ یہ کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ پر نقش ہے، دنیا میں ایسی عمارتوں کی کمی نہیں، جو تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور اپنے اپنے ممالک کی شان بھی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک لا زوال اور بے مثال عمارت تاج محل کے نام سے ہندوستان کے تاریخی شہر آگرہ میں واقع ہے۔ تاج محل اگر چہ بنیادی طور پر ایک مقبرہ ہے، جس کی تعمیر مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں کروائی تھی۔ تاج محل مغل طرز تعمیر کا ایک نادر و نایاب نمونہ ہے۔ اس کی تعمیراتی طرز فارسی، ترک، ہندوستانی اور اسلامی طرز تعمیر کے اجزاءکا انوکھا مرکب ہے۔ ۳۸۹۱ءمیں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی، بہترین تعمیرات میں سے ایک بتایا گیا۔ تاج محل کو ہندوستان کے اسلامی فن کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا گیا ہے۔ اس کی تعمیر تقریباً ۸۴۶۱ءمیں مکمل ہوئی۔ ۷۰۰۲ءمیں ایک بین الاقوامی مقابلے کے ذریعے طے پانے والے دورِ جدید کے سات عجائبات میں محبت کی اس بے مثال نشانی تاج محل کو بھی شامل کیا گیا۔اس کی خوبصورتی اور اس کی مقبولیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال اس تاریخی یادگار کے دیدار کے لئے تقریباً ۰۳ لاکھ افرادآگرہ پہنچتے ہیں۔ یہ تعداد ہندوستان کے کسی بھی سیاحتی مقام پر آنے والے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔تاج محل مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے اور ایک ایسی بے مثال عمارت ہے جو تعمیر کے بعد ہی سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی۔ محبت کی یہ لازوال نشانی شاعروں، ادیبوں، مصوروں اور فنکاروں کے لیے اگرچہ وجدان کا محرک رہی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک مقبرہ ہی ہے۔ ۴۷۸۱ء میں برطانوی سیاح ایڈورڈ لئیر نے کہا تھا کہ ’دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک وہ جنہوں نے تاج محل کا دیدار کیا اور دوسرے جو اس سے محروم رہے۔
اب اسے بد قسمتی کہا جائے یا محرومی کہ پوری دنیا کے سات عجائب میں شامل تاج محل اترپردیش کی بی جے پی حکومت کی چشم پوشی کا شکار ہوتا جا رہاہے۔ ہندوستان اور اتر پردیش کے لئے یہ فخر کی بات رہی ہے کہ دنیا کا ساتواں عجوبہ آگرہ شہر میں واقع ہے، لیکن اس شاہکار عمارت کو نئے دور حکومت میں یو پی کا محکمہ سیاحت بھول گیا ہے۔ دنیا بھر کی تمام حقیقتوں کو جھٹلاتے ہوئے یو پی کی یوگی حکومت کی نظر میں تاج محل جیسا کوئی سیاحتی مقام ہے ہی نہیں۔پہلے اسے ریاست کی ’تہذیبی وراثت‘ کی فہرست سے خارج کیا گیا اور اب اسے ریاست کی ’ٹورزم گائیڈ‘ سے نکال دیا گیا ہے۔ یو پی حکومت ہر سال وزارت سیاحت کا سرکاری کتابچہ جاری کرتی ہے۔ اس کتابچہ میں ریاست کے ہر بڑے سیاحتی مقام کے بارے میں تفصیلات ہوتی ہیں اور اس سیاحتی مقام کی تصاویر بھی اس میں شائع کی جاتی ہیں۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی یو پی ٹورزم نے کتابچہ جاری کیا ہے، لیکن اس بار تاج محل کو اس کتابچہ میں جگہ نہیں دی گئی۔جبکہ اس بار گورکھپور کے گورکھناتھ مندر کو جگہ دی گئی ہے۔ اس بار اس کتابچہ کا سر ورق بنارس میں گنگا آرتی کے نام وقف ہے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر صفحات بھی گنگا آرتی کے نام وقف ہیں۔ اس سے قبل جولائی میں ریاست کا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا تھا، جس میں ریاست کے مذہبی اور تقافتی مراکز اور شہروں کے فروغ کے لیے ’ہماری ثقافتی وراثت‘ کے نام سے ایک علیحدہ فنڈ مختص کیا گیا، لیکن ریاست ہی نہیں بلکہ ملک کی سب سے اہم ثقافتی اور سیاحتی عمارت تاج محل کو اس میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔ ٹورزم گائیڈ میں تاج محل کے بجائے متھرا، ایودھیا اور گورکھپور کے منادر شامل ہیں۔ غور طلب ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ گورکھپور سے آتے ہیں اور وہ وہاں کے گورکھناتھ مندر کے سربراہ بھی ہیں۔ اس سے قبل یوگی آدتیہ ناتھ تاج محل کے نمونوں کو بیرون ملک سے آنے والے سربراہان اور مہمانان کو تحفے میں دیے جانے کے خلاف اپنا موقف ظاہر کر چکے ہیں۔انھوں نے بہار کے دربھنگہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مودی کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ ہندوستان آنے والے مہمانوں کو تحفے میں تاج محل یا اسی طرح کی دوسری نشانیاں دینا ہندوستانی تہذیب کے خلاف ہے۔انھوں نے کہا تھا: ’پہلی بار ہم نے دیکھا ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم جب باہر جاتے ہیں یا کوئی سربراہ مملکت انڈیا آتا ہے تو وہ انھیں گیتا اور رامائن تحفے میں دیتے ہیں۔‘ حالانکہ حال ہی میں جب جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے ہندوستان کے دورے پر آئے تھے تو نریندر مودی نے انھیں احمدآباد میں ہند فارس فن تعمیر کی تاریخی حیثیت رکھنے والی سعیدی مسجد کی سیر کرائی تھی۔ در اصل یوگی آدتیہ ناتھ تاج محل کو غیر ہندوستانی تصور کرتے ہیںاور ان کے خیال میں یہ خوبصورت عمارت ہندوستان کے ماضی کی ثقافت کی عکاسی نہیں کرتی ہے، کیوں کہ یہ حملہ ااوروں نے بنوائی تھی۔ در اصل یوگی آدتیہ ناتھ کی سیاست کی بنیاد ہی نفرت پر مرکوز رہی ہے۔ وہ ہندوتوا کے اس بنیادی فلسفہ میں یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان صرف انگریزوں کے زمانے میں ہی غلام نہیں تھا، بلکہ یہاں مسلم سلاطین کی حکرانی کے و قت سے ہی ہندو غلام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے مرکز اور پھر جب یو پی میں واضح اکثریت کے ساتھ بی جے پی اقتدار میں آئی تو مغل اور دیگر مسلم حکمرانوں کے ناموں سے منسوب سڑکوں اور اسٹیشنوں کے نام تبدیل کرنے کی سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہاں تک کہ نصابی کتابوں میں شامل مغل حکمرانوں کے کارناموں کو مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ تاج محل کو یوگی حکومت نے سیاحتی مرکز کی فہرست سے باہر کرد یا ہے ، سوشل میڈیا پر لوگوں نے ایک بار پھر ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا نا شروع کر دیا۔یوگی کی صلاحیت اور ان کے طریقہ کار پر پہلے سے ہی سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں، لیکن یکے بعد دیگرے اپنے فیصلوں سے یو پی حکومت یہ ثابت بھی کر رہی ہے کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب یا قدیم ثقافتی ورثے میں یقین نہیں رکھتی۔ اسی لئے وہ سماجی شخصیات کے نشانے پر آ گئے ہیں۔ امریکہ میں جنوبی ایشیا کی تاریخ کی ماہر آڈری ٹرشچکے نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں تاج محل کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’اب جبکہ تاج محل تیجو مہالیہ مندر نہیں رہا، اس لیے اسے سیاحت کے سرکاری کتابچے سے ہٹا لیا گیا ہے۔‘ خیال رہے کہ انھوں نے ایک ٹوئیٹ میں دو چیزوں کو نشانہ بنایا۔ بعض سخت گیر ہندو تاج محل کو ’تیجو مہالیہ کا مندر‘ کہتے ہیں ،جبکہ بعض اسے ہزاروں سال پرانے شو مندر پر تعمیر عمارت کہتے ہیں۔ جب سے مرکز میں اور پھر یو پی میں بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے، اس طرح کے متازع اور بے بنیاد بیانات عام ہو گئے ہیں۔ مصنفہ اور سماجی کارکن سادھوی کھوسلہ نے ٹوئیٹ کیا:’ یہ انتہائی شرم کی بات ہے۔ میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکی ہوں کہ یوگی آدیتہ ناتھ یوپی میں اپنے خبط اور ترنگ میں اپنا ایجنڈا نافذ کر رہے ہیں۔‘ چوطرفہ تنقید اور سبکی ہونے کے بعد اترپردیش کے سیاحت کے شعبے نے کہا ہے کہ تاج محل کو نظر انداز نہیں کیا جا رہا ہے اور اسے کتابچے میں شامل کیا جائے گا۔
بہر حال ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ موجودہ حکمرانوں کے ذریعہ کی جا رہی تفریق اورنفرت کی سیاست سے ہندوستان کا بھلا نہیں ہونے والا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے بلا ضرورت کے تنازعات کو ہوا نہ دے کر تعمیراتی فکر کو فروغ دیا جائے۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ موجودہ حکمراں ملک کی تعمیر و ترقی کے سوالات کو در گزر کرنے کے مقصد سے عوام کو غیر ضروری مسائل میں الجھاناچاہتے ہیں۔ساتھ ہی وہ اپنی فکر اور اپنے نظریات کی حدود کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں۔کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہندوستان کی تہذیب و اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا جائے۔ کیوں کہ تاج محل جیسی لا زوال نشانی یو پی ٹورزم کے کتابچہ کی محتاج نہیں ہے، بلکہ یہ کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ میں موجود ہے۔
( مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ انقلاب کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر ہیں )