مولاناعبدالحمید نعمانی
گاندھی جی ایک بڑا نام ہے۔ چاہے موافق ہو یا مخالف، سب ان کی عظمت کو مانتے ہیں۔ ان سے اختلاف بھی کیا گیا ہے اور آج بھی کہا جاتا ہے، اور آئندہ بھی کیا جاتا رہے گا۔ یہ ایک جمہوری صحت مند سماج کی علامت ہے۔ صحت مند تعمیری مثبت اختلاف کے بغیر ذہنی ،فکری اور سماجی اصلاح و ارتقاء کا عمل صحیح سمت میں جاری نہیں رہ سکتا ہے۔ اس زمرے میں گاندھی جی بھی آتے ہیں، ان کی زندگی میں بھی اور بعد میں بھی ان کے دوستوں اور قریبی لوگوں تک نے گاندھی جی سے اختلافات کیے ہیں اور بذاتِ خود گاندھی جی نے بھی اختلاف کا برا نہیں مانا ہے۔ انھوں نے تو مخالفت و مذمت تک کو انگیز کیا ہے اور جارح نہیں ہوئے ہیں، گاندھی ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے ۔ لیکن جب گاندھی جی کے نام پر اپنے مقاصد کی تکمیل اور ان کے نام کا استعمال کرکے سماج کو بھرم میں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی تو ایک دیانت دار آدمی کے لیے اصل بات کو سامنے لانا ضروری ہوجاتا ہے ۔
سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ، سردار پٹیل وغیرہم کے نام کی طرح گاندھی جی کے نام کا بھی گذشتہ کچھ دنوں سے غلط استعمال کیا جارہا ہے اور یہ وہ لوگ کررہے ہیں جن کا فکر و کردار ان سے نہ صرف یہ کہ مختلف ہے بلکہ متضاد بھی ہے۔ گاندھی جی کو دو طرح سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک تو ان کی کھلی مخالفت و مذمت کرکے ۔ اور دوسرے ان کے نظریات کی غلط تعبیر و توضیح کرکے۔ کسی تنظیم کے واضح نظر یے کے بالکل مخالف نظریات پر کوئی تبصرے کیے بغیر گاندھی جی کو درمیان میں لانا بھی ان کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ایسی باتوں میں ’رام راجیہ‘ کی بات بھی ہے،آج کی تاریخ میں سنگھ کے نظریے سے وابستہ لوگ رام راجیہ کو ہندو و راشٹریہ کے ہم معنی بناکر پیش کرتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے موجودہ طرزِ حکومت جو سیکولرزم اور جمہوری آئین پر مبنی ہے کو ایک طرح سے مسترد کرنا ہے، گاندھی جی نے رام راجیہ کی بات آئین ہند کی توضیع سے پہلے ایک خاص تناظر میں کہی تھی۔ ہندوستان کے آئین کے نفاذ کے بعد بھی اگر گاندھی جی زندہ ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ وہ رام راجیہ کے بجائے کوئی اور اصطلاح استعمال کرتے اور اس کی تعبیر و تشریح، حالات وزمانے کے مطابق اپنے انداز میں الگ ہی رنگ اور آہنگ میں کرتے ۔ نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو نے ہندستانیوں سے مخاطب ہوکر کہا ہے کہ وہ گاندھی جی کے خوابوں کو پورا کرنے کے یہ متحد ہوجائیں۔ اس سے کسے اختلاف ہوسکتا ہے کہ گاندھی کے سپنوں کا بھارت وجود میں آئے۔ نائب صدر جمہوریہ کے بیان پر ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ جہاں سبھی برابر ہوں اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔ گاندھی جی کے نظریات اور آدرش لافانی ہیں، ان کے رام راجیہ کے خوابوں کو ٹھیک سے سمجھا جانا چاہیے اور حکومت اور عوام کو اس سمت میں مل کر نام کرنا چاہیے۔ رام راجیہ کا مطلب مثالی حکمرانی ہے، ایسی حکمرانی جہاں خوف نہ ہو۔ کوئی بھوکا نہ ہو، کہیں بدعنوانی نہ ہو، کسی کا استحصال نہ ہو ، کہیں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک ہو۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہر سطح پر رام راجیہ کی ایک ساتھ مل کر کام کریں۔‘‘اس بیان کی کئی باتیں اہم ہیں اور ہر ہندوستانی چاہے گا وہ ہونے چاہئیں۔ لیکن اس کے مدنظر ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ بھارت ،گاندھی جی کے خوابوں کا ملک بنے گا کیسے؟ منفی باتوں کی تردید کیے بغیر، اچھی باتیں، سوراخ والے گھڑے میں پانی بھرنے اور رکھنے کے ہم معنی ہیں۔ سماجی انصاف ، سماجی برابری اور ملک کے وسائل میں اس کے تمام شہریوں کے حسب استطاعت و صلاحیت، حصہ داری ،ہندستان کی متوازن و معتدل ترقی کے لیے یہ ضروری ہے۔ گاندھی جی بھی ملک کے وسائل میں منصفانہ حصہ داری کے حامی و قائل تھے۔ لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ اس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، ان کی نشاندہی کرکے دور کیے بغیر گاندھی جی کے خوابوں کا بھارت کیسے وجود میں آسکتا ہے۔ اس کی طرف ، نائب صدر جمہوریہ اور دیگر حضرات نے کوئی اشارہ تک نہیں کیا ہے۔ دلتوں کو مونچھیں رکھنے پر مارا پیٹا جاتا ہے۔ اقلیتوں خصوصاً مسلم اقلیت ، آدی واسیوں اور دیگر محنت کش طبقات کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، وہ قطعی طور سے سماجی انصاف اور سماجی برابری کے تصور و تقاضے کے منافی ہے۔ حتیٰ کہ سنگھ کے حلقے میں بھی سماجی برابری اور انسانی مساوات کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ہے۔ اس کا پورا لٹریچر انسانی اور سماجی مساوات کے تصور و اصطلاح سے خالی ہے، وہاں تو صرف سماجی ہم آہنگی اور معاشرتی تال میل کی بات ملتی ہے۔ نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو کا ہم ،ملک کے ایک اہم منصب پر فائز ہونے کے ناتے احترام کرتے ہیں، لیکن ہم ایک طالب علم اور ہندستانی ہونے کے حوالے سے اپنے سوال کا جواب نہیں پاتے ہیں۔ ہم نے جہاں تک گاندھی جی کو پڑھا ہے وہ رام کو غیر تاریخی مانتے ہوئے اپنے تصورکے رام کو ان سے الگ بتاتے ہیں اور رام راجیہ بھی ہندو راشٹر سے بالکل جدا۔ حضرت ابو بکر ؓ و عمرؓ کے طرز حکومت، خلافت راشدہ کی بات کرتے ہیں، یہ مثالی حکومت کا عملی حوالہ ہے، رام چندر کی مختلف علاقوں اور مذاہب میں مختلف شکلیں نظر آتی ہیں۔ یہ تریتاعہد کے تناظر میں جو آج سے ہزاروں ، ُبلکہ لاکھوں برس پہلے کا دور ہے، اس کے متعلق تاریخی تجزیہ کوئی آسان نہیں ہے۔ تا ہم یہ جاننا تو ضروری ہے کہ اُس عہد میں سخت ریاضت و عبادت کرکے جنت حاصل کرنے کی کوشش پر شودرشمبوک کے قتل کا حوالہ کیسے شامل ہوگیا ہے؟ اس طرح کے حوالے کی تردید و تنقید کے بغیر سب کے ساتھ مساوی سلوک کی بات کیسے با معنی ہوسکتی ہے؟ جب کہ آج کی تاریخ میں ملک کے آئین اور دیگر بہت سے قوانین کی توضیع کرکے سماجی امتیازاور بھید بھائو کا خاتمہ کرکے سماجی برابری تک رسائی کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اگرچہ عملی طور پر آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم آئینی و قانونی لحاظ سے تو مسئلہ حل کرلیا گیا ہے، ایسی صورت حال میں ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ موجودہ طرز حکومت اور آئین و قانون کی موجودگی میں ماضی کا حوالہ بغیر توضیح کے کیوں کر مفید و موثر ہوسکتا ہے۔ گاندھی جی نے چھوا چھوت کے خلاف جس مستعدی سے تحریک چلائی اور اس کے لیے اور اکثر یتی سماج کو قصور وار قرار دیتے ہوئے معافی تلافی کے لیے بار بار کہا ہے۔ اس کے مد نظر عزت کے ساتھ ملک میں تمام باشندوں کے لیے زندگی گزارنے کا تو راستہ نکل آنے کی پوری پوری گنجائش ہے لیکن اس سوال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اکثر یتی سماج کے چار طبقاتی نظام کو باقی رکھتے ہوئے، جس کے حامی گاندھی جی بھی تھے، صحیح طور سے سماجی اور انسانی مساوات کی راہ کیسے ہموار ہوسکتی ہے؟ اس سلسلے میں با باصاحب بھیم رائو امبیڈکر اور گاندھی جی اور دیگر حضرات کے درمیان جو تحریری و زبانی مباحث ہوئے ہیں، ان کے مطالعہ سے بات کو بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے، آئین ہند کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر چار طبقاتی نظام کو پوری طرح مسترد کرتے ہیں، جب کہ دیگر حضرات سماجی تال میل کرکے زندگی گزارنے کی بات کرتے ہیں۔ ہم کسی ایک ہی نقطۂ نظر اور نظام حیات کو اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ مسئلے کا عملی پہلو اور حل ہے، مگر گاندھی جی کے یہاں سماجی انصاف ،صبر و تحمل اور عدم تشدد کے سلسلے کی اتنی چیزیں ہیں کہ ان کے درمیان سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے کئی راستے آسانی سے نکالے جاسکتے ہیں، اور نہ صرف راستہ آسانی سے نکالا جاسکتا ہے بلکہ اس پر آرام سے چلا بھی جاسکتا ہے۔ اگر ملک میں پورے معنی میں گاندھی جی کی مثالی حکمرانی اور سپنوں کا بھارتی سماج وجود میں آجائے تو اس میں کوئی محروم نہیں رہ جائے گا۔
ایک طرف رام راجیہ کے نام پر ماحول بنانے کے لیے گاندھی جی کے خوابوں کو مل کر پورا کرنے کی بات کی جاتی ہے، تو دوسری طرف گاندھی جی کو مسلم تشٹی کرن کا جنم داتا قرار دیا جائے گا تو نظریاتی و عملی طور پر کیا صورت حال پیدا ہوگی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اختلافات ہوتے ہوئے بھی تشدد کے بغیر بات کرنے کے لیے ماحول بنانا گاندھی جی کو صحیح معنی میں خراج تحسین ہوگا۔ اس حوالے سے ہمیں تلاش کرنا ہوگا کہ گاندھی جی کہاں ہیں؟