مولانا آزاد: ایک شخصیت ایک سیاست داں

محمد عمران

مولانا ابوالکلام آزادؒ ایک ہمہ شخصیت کانام تھا۔علم وسیاست ان کا میدان تھا۔وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔اسلام سے انہوں نے راہنمائی حاصل کی اور ایک سچے ہندوستانی کافریضہ تادم مرگ مخلصانہ و مدبرانہ طورپر ادا کرتے رہے۔ان کا طریقہ کار اپنی شناخت کرانا نہیں تھا،بلکہ ان کے طریقے ہی ان کو بلندیوں سے ہم کنار کرتے رہتے تھے۔یہاں یہ کہنا بے جا نہیں ہوسکتا کہ بلندیاں بھی مولانا آزاد کی ہم سائیگی کی وجہ سے تفاخر محسوس کرتی تھیں۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کا دل اپنی ذات کی حدود سے نکل کر اجتماعیت کے کرب کو محسوس کرتا ہے اور فرد کے مرہم کو اجتماعیت کے اعضاء پر لگے زخموں کے نشانات تک کو مٹانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔اور اس کو اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔مولانا آزاد کی شخصیت کے وجودکا مقصد بھی یہی تھا۔ان کی پوری زندگی متحدہ قومیت کی تشکیل پر محیط ہے۔
آج ہندوستان جن مجاہدین آزادی کا قدردان ہے ان میں شاذ و نادر بھی کوئی نہ ہوگا جس نے مولانا آزاد کی قدردانی نہ کی ہو۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سیاسی رہنماؤں میں بھی ان کی ایک رہنما کی حیثیت تھی۔مشکل حالات درپیش ہوں ،کوئی کشیدگی اپنا دامن پھیلانے لگے یا آپس کا کوئی تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہو،سب کا حل اکیلے مولانا آزاد کی شخصیت میں پنہاں تھا۔ادب،دین،سیاست یا صحافت جس میدان میں بھی انہوں نے اپنا قدم رکھا اسی میں ایک رہنما کی حیثیت اختیار کی۔ پنڈت جواہر لال نہرو بذات خود مولانا آزاد سے متاثر تھے۔اور سیاسی امور میں اکثر ہی ان سے مشورے لیتے تھے۔نہرو جی مولانا آز ادؒ کی سوجھ بوجھ کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ،،علم سیاست کی کتابیں مجھ سے زیادہ ہندوستان میں کسی اور نے نہیں پڑھیں۔میں تیسرے چوتھے سال یورپ کا بھی دورہ کرتا ہوں،جہاں سیاست کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ میں نے سیاست کے تازہ ترین علم سے واقفیت حاصل کرلی ہے ،لیکن جب ہندوستان پہنچ کرمولانا ابوالکلام آزادؒ سے باتیں کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب بھی بہت آگے ہیں۔،،
گاندھی جی نے 1920 میں جب عدم تعاون کی تحریک کی تجویز پیش کی تو مولانا آزاد نے غیر مشروط طور پر تجویز کو قبول کرلیا تھا ،جبکہ کچھ رہنما ابھی تامل کر رہے تھے۔بعد میں ان لیڈران نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور پھر گاندھی جی کے ہمنوا بنے۔مولانا کسی بھی چیز کی حقیقت کو فوراََ سمجھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ان کی دور اندیشی بھی لا ثانی تھی۔ گاندھی جی کی پیش کردہ تجویز کی ضرورت کو وہ پہلے ہی سے محسوس کرنے لگے تھے اس کا ثبوت الہلال میں ملتا ہے ،جس کے بعض مضامین میں اس قسم کا پروگرام پیش کیا جا چکا تھا۔ عدم تعاون تحریک کے پیش نظر ناگپور کا اجلاس دسمبر1920میں ہوا ،سب سے پہلے گرفتار ہونے والے رہنما مسٹر سی آر داس اور مولانا آزاد تھے۔مولانا آزادؒ جب رہا ہوکر آئے تو اس وقت کانگریس آپسی چپقلش کا شکار ہونے لگی تھی۔سوراج پارٹی کا قیام عمل میں آگیا تھا۔ آزاد ؒ کو یہ تفریق گوارا نہیں ہوئی۔انہوں نے تفریق کے نقصانات کے درد کو محسوس کیااور مفاہمت کی کوشش کی ۔ ان کی کوشش کو1923کے اسپیشل سیشن میں کامیابی بھی ملی۔متفقہ طورپران کی قائدانہ صلاحیت کا اعتراف کیا گیا اور 35سال کی عمر میں کانگریس کی صدارت کی ذمہ داری انہیں سونپ دی گئی۔تاریخ انہیں کانگریس کے سب سے کم عمر کے صدر کے طور پر یاد کرتی ہے۔رہنماؤں میں مفاہمت کا ان کا اصول ہمیشہ ہی تمام سیاسی رہنماؤں کے لئے ایک رہنما اصول کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔نمک قانون کی تحریک میں کامیابی ملنے کے بعد حکومت کی سختیوں میں اضافہ ہوا اور قانون حکومت ہندکا نفاذ بھی عمل میں آیا۔صوبوں کی خود مختاری کے معاملے میں کانگریس کا ایک طبقہ انتخابات کی مخالفت کر رہاتھا لیکن مولانا آزاد نے یہ باور کرایا کہ مخالفت سے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں پر نا پسندیدہ عناصر کو قابض ہونے کا موقع مل جائے گا،جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔اور اس کے برعکس انتخابات میں حصہ لینے سے عوام کی سیاسی تربیت ممکن ہو سکے گی ،جو مستقبل کے ہندوستان کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کرے گا۔ان کی اس دلیل نے کسی کے لئے انکار کا گوشہ نہیں چھوڑا۔ان کا نقطۂ نظر سب پر غالب رہا ۔انتخابات میں شرکت ہوئی اور کانگریس پنجاب اور سندھ کے علاوہ ہر جگہ اکثریت سے کامیاب ہوئی۔مولانا آزادؒ کی بصیرت کا یہ پہلو سیاسی رہنماؤں کی تربیت کے لحاظ سے معین و مدد گار ہے۔مولانا آزاد کی نظر میں ملک کی آزادی سب سے اہم تھی اور قومی یکجہتی کو ملک کی سلامتی کے لئے حد درجہ ضروری سمجھتے تھے۔ جب کبھی کانگریس میں کوئی پھوٹ پڑتی نظر آتی تومولانا آزاد ہٹ دھرمی سے باز رہنے کی تلقین کرتے تھے۔
مولانا آزادؒ وطن کی عظمت کے پیش نظر سیکولر روایتوں کی پاسداری کرنے میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔اس سلسلے میں ان کا نظریہ صاف اور واضح تھا۔ محض مذہبی عقائد کے اختلاف کی بنیاد پر وہ کبھی بھی سیاسی تفریق کے قائل نہیں تھے۔جنگ آزادی کے اوائل میں یہ گمان رواج پانے لگا تھا کہ مسلمان انگریز دوست ہیں اور ایک طبقہ اپنی غلط فہمی کی بنا پر مسلمانوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھنے لگا تھا۔ مولانا آزاد نے ان کی غلط فہمی دور کی اور اس حقیقت کا اعتراف کرایا کہ دوسرے ہم وطنوں کی طرح سے مسلمانوں میں بھی غیر ملکی تسلط سے نجات پانے کا جذبہ شدت کے ساتھ کارفرما ہے۔ان کی ان کوششوں کے نتیجے میں ہندو اور مسلمان انقلابیوں کو ساتھ آنے کا موقع ملا۔ مولانا آزاد نے مسلمانوں کوبھی اتحاد کے راستے پر لانے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ان کے مطابق اسلام صرف خدا شناسی کا ہی پیغام نہیں دیتا ہے بلکہ خود شناسی کا بھی پیغام دیتا ہے۔
مولانا آزاد ؒ نے جمہوریت اور غیر فرقہ ورانہ سیاست کا علم بلند کر رکھا تھا۔ان کے نزدیک غیر فرقہ وارانہ سیاست ہی سیکولرازم کا اصلی مفہوم ہے۔انہوں نے اپنے زور قوت سے ہندوستان کی متحدہ قومیت کا تصور پیش کیا تھا۔اور اس تصور کو عملی سانچے میں ڈھالنے کے لئے اپنی تمام تر ذہنی،علمی اور استدلالی صلاحیتوں کو صرف کیا تھا۔انہوں نے عالمگیر انسانی اخوت اور مساوات پر بھی زور دیا تھا۔ان کی سوچ کو ایک آفاقی سوچ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔مولانا آزادؒ نے اپنی متحدہ قومیت کے تصور کو پیش کرتے ہوئے مارچ 1940 میں انڈین نیشنل کانگریس کے رام گڑھ کے اجلاس میں کہا تھا’’…ہم میں اگر ایسے ہندو بد دماغ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک ہزار برس پہلے کی ہندو زندگی واپس لائیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ کبھی پورا ہونے والا نہیں ہے۔اگر اسی طرح مسلمان دماغ موجود ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اپنی اس گزری ہوئی تہذیب اور معاشرت کو پھر تازہ کریں جو وہ ایک ہزار برس پہلے ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے تو میں ان سے کہوں گااس خواب سے جس قدر جلد بیدار ہوجائیں بہتر ہے کیونکہ یہ ایک غیر قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی زمین میں ایسے خیالات اگ نہیں سکتے۔‘‘مولانا آزادؒ نے آگے کہاتھا کہ ایک ہزار سال تک مشترکہ زندگی گزارتے ہوئے ہم غیر محسوس طور پر متحدہ قومیت کے سانچے میں ڈھلتے چلے گئے ہیں۔اورایک دوسرے کے ساتھ اس طرح سے مل جل گئے ہیں کہ ایک کو دوسرے جدا کرنا نا ممکن ہوگیا ہے۔اگر کسی نے ایسی غیر فطری کوشش کی بھی تو اسے کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔قدرت اس سانچے پر اپنی مہر لگا چکی ہے اس لئے ہمارے لئے بھی یہی بہتر ہے کہ قدرت کے فیصلے کو قبول کرلیں اور ملک کی تعمیر میں لگ جائیں۔
آج کا ہندوستان بھی مولانا ابوالکلام آزادؒ کی رہنمائی کا طالب ہے۔مختلف سیاسی پارٹیاں انتشار کی زد میں ہیں۔وطن کو مختلف چیلینجوں کا سامنا ہے۔ایسے ماحول میں صرف ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جانا ملک کی سا لمیت اور ترقی میں رخنہ اندازی کے مترادف ہے۔سیاسی رہنماؤں کو چاہئے کہ مولانا آزاد ؒ کی سیاسی بصیرت سے استفادہ حاصل کریں اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملک کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے مفاہمت کی پالیسی کو اہمیت دیں۔ اور اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنا ہی بلاتفریق تمام شہریوں کی قوت کی علامت بن سکتا ہے۔فرقہ واریت جیسے گھناؤنے افعال سے نہ صرف اپنا دامن داغ دار ہونے سے بچائیں بلکہ اس بات کی تلقین و تبلیغ بھی کریں جس کے لئے مولانا آزاد ؒ تمام عمر کوشاں رہے تھے۔موجودہ ماحول میں ان کے اصولوں کو اپنا یاجانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی جان پڑتاہے۔
mohd1970imran@gmail.com

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں