شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
رسول اللہ کی عمر مبارک جب چالیس کو پہنچی تو آپ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی کہ آپ تنہائی کو پسند کرتے اور زیادہ سے زیادہ وقت کوہِ حرا کی بلندی پر ایک غار میں گزارتے ، جہاں سے کعبۃ اللہ نظر آتا تھا ، اسی دوران ایک دن اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام پہنچے اور انھوں نے آپ کو سورۂ علق کی ابتدائی آیات سنائیں ، اللہ کے کلام کو اُٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ، پھر اس پیغام کو دوسروں تک پہنچانا بھی ایک دشوار کام تھا ؛ کیوں کہ جو لوگ شرک و بت پرستی کے خوگر ہوچکے تھے ، ان سے توحید کو تسلیم کرانا آسان نہیں تھا ، ان مشکلات کی وجہ سے آپ کو سخت پریشانی کا احساس ہوا ، آپ غارِ حرا سے اُتر کر سیدھے اپنی غمگسار رفیق حیات اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : مجھے اپنے آپ پر خوف ہوتا ہے ” Êنی ا ¿خشی علی نفسی“ ۔
حضرت خدیجہؓ نے جواب دیا : خدا کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ؛ کیوں کہ آپ کا حال یہ ہے کہ آپ رشتوں کا لحاظ کرتے ہیں ، قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ہیں ، لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں ، یہ بوجھ سامان کا بھی ہوسکتا ہے اور مالی واجبات اور ذمہ داریوں کا بھی ، جو لوگ نادار اور مفلس و محتاج ہوتے ہیں ، آپ ان کی ضرورت پوری کرتے ہیں ، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں ، اگر کوئی قدرتی آفت و مصیبت آجائے تو مصیبت زدہ لوگوں کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہیں ، ( بخاری ، باب کیف بدءالوحی عن رسول ، حدیث نمبر : ۳) — یہ وحی نازل ہونے کا پہلا واقعہ تھا ، اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے دنیا کے سامنے علوم نبوت کو پیش کرنے سے پہلے اخلاقِ نبوت کو پیش فرمایا ، آپﷺ کے مثالی اخلاق کی شہادت خود آپ کی پاک باز بیوی نے دی اور بیوی سے بڑھ کر اس معاملہ میں کس کی گواہی ہوسکتی ہے؛ کیوںکہ بیوی دن کے اُجالے اور رات کے اندھیرے ، خلوت و جلوت ، خوشی و غم اور تکلیف و آرام ہر حالت میں رفیق اور ساتھی ہوتی ہے ، انسان گھر سے باہر اپنی کمزوریوں کو چھپا سکتا ہے ؛ لیکن گھر کے اندر نہیں چھپا سکتا ۔
غور کیجئے کہ حضرت خدیجہؓ نے آپ کے جن اعلیٰ اخلاق کا ذکر فرمایا ، ان سب کا تعلق انسانی خدمت ، رحم دلی اور غریبوں اور کمزوروں کی مدد سے ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی نظر میں خدمت ِخلق کی کیا اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے دعوتِ ایمان سے بھی پہلے انسانیت کی خدمت کا کام لیا ، اسی خدمت نے دعوت کی راہ ہموار کی اور اخلاق و محبت کی تلوار کے ذریعہ دلوں کو فتح کیا گیا ، مکہ مکرمہ میں جب اس دعوت حق کا آغاز ہوا تو صرف ایک مرد مومن پیغمبر اسلام اسے ہوا، مکہ کی تیرہ سالہ زندگی ایسی گزری کہ مسلمان برسر عام نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت کی بھی انھیں اجازت نہیں تھی ، حضرت سمیہؓ کو مسلمان ہونے کی وجہ سے برسر عام شہید کردیا گیا ؛ لیکن کوئی ہاتھ نہیں تھا جو ظالموں کا پنجہ تھام سکے ، کوئی زبان نہیں تھی جو مجرموں کو روک سکے اور کوئی طاقت نہیں تھی جو اس خونِ ناحق کا حساب لے سکے ، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کس طرح دعوتِ اسلام کے لئے طاقت کا استعمال ہوسکتا تھا ؛ اس لئے دعوت ِدین کی فطرت میں یہ بات شامل رہی ہے کہ آہن و فولاد کے ذریعہ نہیں ؛ بلکہ اخلاق اور خدمت کے ذریعہ دلوں کو فتح کیا جائے ۔
اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدمتِ خلق دین کا ایک اہم ترین عمل اور اسلام کا نہایت اہم شعبہ ہے ؛ اسلام نے زکوٰة ، صدقۃ الفطر اور قربانی جیسی عبادت رکھی ، عبادتوں میں ہونے والی کوتاہیوں کے لئے مالی کفارات مقرر کئے اور مالی عبادت کی ایک خاص صورت وقف کی متعین کی گئی ، جو خدمتِ خلق کا ایک دائمی اور ابدی ذریعہ و وسیلہ ہے ، مسلمانوں نے وقف کے اس عمل کو ایسی وسعت دی کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں اور غیر مسلموں ، انسانوں اور حیوانوں سبھوں کو نفع پہنچانے کا سروسامان کیا گیا ، یہ ایک ایسی روشن تاریخ ہے کہ اقوام عالم میں شاید ہی اس کی مثال مل سکے ۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس دور میں بھی عالمی اور ملکی سطح پر مختلف مسلم تنظیمیں خدمتِ خلق کے کام میں سرگرم ہیں ، ہمارے ملک میں آفاتِ سماوی کے موقع پر نہ صرف ملی تنظیمیں ؛ بلکہ تعلیمی ادارے بھی خدمت ِخلق کا قابل قدر کام انجام دیتے ہیں ، موجودہ وزیر اعظم جناب مودی جی بہ مشکل ہی کبھی مسلمانوں کے بارے میں کلمۂ خیر کہتے ہیں ؛ لیکن گجرات میں جمعیۃ علماء ہند نے بلا امتیاز مذہب و ملت ریلیف کا جو کام کیا ، اس نے ان کو بھی اعتراف پر مجبور کردیا ، یہ بڑی خوش آئند بات ہے اور مسلمانوں کی اخلاقی فتح ہے ؛ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خدمتِ خلق کے کاموں کو اپنے مذہبی مراکز سے جوڑیں ؛ تاکہ لوگوں تک پیغام جائے کہ مسلمانوں کا یہ عمل کسی سیاسی اور مادی فائدہ کے لئے نہیں ہے ؛ بلکہ یہ قرآن و حدیث کی ہدایات اور اسلام کی تعلیمات کا اثر ہے۔
اس کی ایک مثال ہندوستان بھر میں بکھری ہوئی عیسائی اقلیت ہے ، جو صرف قدرتی آفات کے موقع پر ہی نہیں ؛ بلکہ ہمیشہ ہی انسانی خدمت کے کام کو انجام دیتی رہتی ہے اور غریبوں کی وقتی مدد کے علاوہ خاص کر تعلیم اور علاج کو لوگوں تک رسائی کا ذریعہ بناتی ہے ، اور ان سارے کاموں کو چرچ کے واسطہ سے کرتی ہے ، چرچ کے ذریعہ جب یہ کام انجام پاتا ہے تو سماج میں پوری عیسائی قوم کے تئیں ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور یہی عیسائیت کی تیز رفتار تبلیغ کا راز ہے ؛ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مدارس و مساجد کو خدمتِ خلق کا مرکز بنائیں اور اس کام کو قدرتی آفات و مصائب تک محدود نہ کردیں ؛ بلکہ مذہبی مقامات اور اداروں میں خدمتِ خلق کا مستقل شعبہ رکھیں ، جو ہمیشہ بلا لحاظ مذہب و ملت اپنے کام کو جاری رکھیں ۔
اس کی واضح مثال عہد نبوی کا نظام تھا ، جب مسجد نبوی ہی سے زکوٰة کی تقسیم ہوتی تھی ، یہیں سے غریبوں کی مدد کی جاتی تھی ، تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے بھی یہی مرکز ہوتا تھا ، غزوۂ خندق کے موقع پر جب بعض صحابہ سخت زخمی ہوئے تو ان کی تیمار داری اور علاج کے لئے مسجد نبوی میں خیمہ لگایا گیا ، جو مہمان آتے، مسجد ہی میں ان کے ٹھہرانے کا انتظام ہوتا اور ان کے کھانے پینے کا نظم کیا جاتا ، بنو نجران کے عیسائیوں کا وفد کئی دنوں تک مسجد میں مقیم رہا ، جن کو کوئی گھر میسر نہیں ہوتا، وہ بھی مسجد میں آکر سوجاتے ، غرض ہنگامی ضرورت کی بنیاد پر مسجد سے مہمان خانہ ، مسافر خانہ اور بے گھر لوگوں کے لئے آسرا گھر کا بھی کام لیا جاتا ، ایسا بھی ہوا کہ کوئی وفد خدمت اقدس میں حاضر ہوا ، ان کی شکل و صورت اور لباس و پوشاک سے انتہائی فقر و محتاجی عیاں تھی تو آپ نے خطبہ روک کر ان سے نماز پڑھوائی ؛ تاکہ لوگ ان کی اس حالت کو دیکھ کر مدد کی طرف متوجہ ہوں ، مسجد ہی میں تعاون کی اپیل کی جاتی اور یہیں لا لاکر جاں نثارانِ نبوت اپنا تعاون پیش کرتے ۔
غرض کہ مسجد جو مسلم آبادی کی پہچان ہے ، اسی کو آپ انے خدمت ِخلق کا مرکز بھی بنایا ؛ تاکہ لوگوں کو یہ خیال نہ ہو کہ مسلمان اس کام کو قومی جذبہ یا سیاسی و مادی مفاد کے لئے کرتے ہیں ؛ بلکہ ان پر یہ بات پوری طرح واضح رہے کہ مسلمانوں کا یہ عمل ان کے دینی جذبہ اور اسلام کی رحمدلانہ تعلیمات سے مربوط ہے ، ہندوستان میں ؛ بلکہ کسی بھی ملک اور خاص کر غیر مسلم اکثریت ملکوں میں خدمت ِخلق اور ریلیف کے کاموں کا یہی نہج ہونا چاہئے کہ مسلمان اپنے اس کام کا مرکز مسجدوں اور دینی درسگاہوں کو بنائیں ، وہیں غیر مسلم متاثرین کو بھی مدعو کریں ،پورے اکرام اور احترام کے ساتھ ان کو خوش آمدید کہیں ، ان کی ضیافت کریں اور ان تک اپنی اعانت پہنچائیں ، اس طرح انسانی خدمت کے ساتھ ساتھ دو اور مقاصد حاصل ہوجائیں گے ، ایک تو یہ اسلام کی خاموش دعوت ہوگی ، دوسرے: غیر مسلم بھائیوں کی غلط فہمیوں اور اسلام دشمن عناصر کے زہریلے پروپیگنڈوں کے دُور کرنے کا مؤثر ذریعہ بنے گا ، وباللہ التوفیق ۔