انتہا پسندی اور مشرق وسطی میں اسکے اثرات

ذاکر اعظمی ندوری
فلسطین پر یہودیوں کے غاصانہ قبضہ سے لیکر آج تک کی مشرق وسطی کی سیاسی صورتحال پر نظر رکہنے والا کوئی بھی انصاف پسند تجزیہ نگار اس وقت تک صحیح نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا جب تک کہ مختلف ادیان ومذہبی جماعتون کی جانب سے برپا کی جانے والی شدت پسندی پر ایک طائرانہ نظر نہ ڈال لے،کیا یہ حقیقت نہیں کہ فلسطین کی مقدس سرزمیں پر یہودیوں کا غاصبانہ قبضہ یہودیت کے ایک ایسے شدت پسندانہ اصول پر مبنی ہے جس کی رو سے اس تاریخی خطۂ ارض پر صرف یہودیوں کا حق ہے، کیونکہ یہودی ہی اس سرزمیں پر اللہ کے نمائندے ہیں، اگر کوئی ان کا ہم مذہب بہی اس غاصبانہ نظریہ کی مخالفت کی جرات کرے گا اسے یہودیت کا دشمن گردانا جانا جائے گا۔
جہاں تک مسلمانون کی بات ہے تو وہ مختلف مسلکی گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں جو خطے کے لئے مذہبی انتہا پسندی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، ایران جو مشرق وسطی میں شیعیت کا سب سے بڑا علمبردار ہے اسکے مذہبی طبقہ کا یہ دعوی ہے کہ اللہ کی زمین پر اسکی شریعت کا نفاذ صرف اسی کا حق ہے، لہذا اس نظریہ کی ترویج کے لئے مختلف قسم کے شدت پسندانہ ہتکنڈے آزمانا ایران کی ترجیحات میں شامل ہے، جب کہ اعتدال پسند شیعوں کی ایک بڑی اکثریت اس غیر حقیقت پسندانہ نظریہ سے اختلاف رکھتی ہیں مگر بد قسمتی انکی آواز ایران کے (State Sponsored) پروپگنڈہ کے سامنے بے اثر ہوجاتی ہے، کیا یہ حقیقت نہیں کہ لبنان کی حزب اللہ خطے میں ایرانی انتہا پسندی کی ایسی نمائندہ جماعت ہے جسے ایران کا بہر پور تعاون حاصل ہے؟ کیا ایران کی جانب سے یمن میں حوثی باغیون کی دامے درمے سخنے مدد سے عوام کی نمائندہ حکومت کا تختہ اس لئے نہیں پلٹا گیا تاکہ ولایت فقیہ کے نظریہ کو پورے خطے میں تہوپا جائے، اور اس کے لئے اگر ملک کے ملک بہی تباہ ہوجائیں تو بھی کچھ حرج نہیں؟؟؟
شام میں ایران اور اس کی پروردوہ جماعت حزب اللہ نے اپنی پوری طاقت ایک ایسی جاں بلب حکومت کو بچانے کے لئے جھونک دی جو زمان ومکان کے اعتبار سے بے اثر ہوچکی ہے،باوجودیکہ کے وہاں کی سنی اکثریت نے ایران کے شدت پسندان نظریے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جس کی پاداش میں لاکھوں بے گناہ عوام کا سفاکانہ قتل ہوا اور بڑی تعداد میں ملک سے ہجرت کرنا پڑا ایران اپنے ناپاک عزائم کی ترویج میں سرگرداں نظر آتا ہے،ولایت فقیہ کا یہی وہ شدت پسندانہ نظریہ ہے جس کے نتیجہ میں شام وعراق مذہبی انتہا پسندی کی آماجگاہ بنتے جارہے ہیں، داعش ہو یا القاعدہ جیسی دوسری سنی انتہا پسند جماعتیں وہ اعتدال پسندوں کو نشانہ بنانے کو عین جہاد تصور کرتے ہیں، کبھی سعودی عرب کی مساجد میں خود کش حملے کرتے ہیں تو کبھی مصر وترکی انکی سفاکیت وحیواں ت کا نشانہ بنتے ہیں، مذہبی انتہا پسندی در اصل احترام انسانیت کی دشمن ہے۔
جہاں تک امریکہ اور اسکے صدر اوباما کا تعلق ہے تو یہ کوئی رازہائے سربستہ نہیں رہا کہ یہی وہ امریکہ ہے جس نے ہمیشہ اسرائیل کی مدد کی، دنیا میں پائی جانی والی تمام شدت پسند جماعتوں کی ہمنوائی کی، اب یہی امریکہ جو کبھی ایران کو ’’شر کا محور‘‘گردانتا تہا اسی شر کے محوراور سعودی عرب کے ساتھ برابری کے سلوک کی بات کررہا ہے، کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ تاریخ کے ہر دور میں اسرائیل کے ساتہ کھڑا رہا، ایرانی اثر ونفوذ کو خطے میں تقویت دینے کے لئے مسلسل کوشاں رہا، مصر میں عوام کی منتخب کردہ جمہوری حکومت کا گلا گھونٹ کر وہاں ایک ایسے فوجی ڈکٹیٹر کو مسلط کردیا جس کی زندگی کا مقصد اولین اسرائیل کے مفادات کو (Protect) کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے، اب جب کہ سارے عالم پر امریکہ کی دوغلی پالیسی واضح ہوچکی ہے خواہ صدر اوبامامہ جتنی چاہیں لیپا بوتی کرلیں، دنیا واقف ہوچلی ہے کہ کون دہشت گردی کا شکار ہے اور کون دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے، امریکہ اپنے آپ کو ایک غیر جانبدار پارٹی کے طور پر پیش کررہا ہے جب کہ ظلم ہوتے وقت کے وقت خاموش رہنا اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا ظلم وشدت پسندی میں شراکت کے مترادف ہے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار اسلامک اسکالر اور تجزیہ نگار ہیں )