استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

انظر حسین قاسمی
اللہ تعالٰی نے حضرت انسان کو پیدا فرمایا، اس کوتمام مخلوقات پر فضیلت دی اورس کو مسجود ملائکہ ہونے کا شرف بخشا، اسی پر بس نہیں بلکہ دنیا کی تمام چیزیں دراصل اسی انسان کی ضرورت کے لئے خدا نے بنایا.
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ علم ومعرفت فہم وادراک اورتتبع وجستجو یہ وہ بنیادی اوصاف ہیں جن کی وجہ سے انسان باقی مخلوقات سے اشرف، اعلی اور ممتاز قرار پایا؛ کیوں کہ علم کی وجہ سے انسان کھرا کھوٹا، اچھا برا اور سچ جھوٹ کا ادراک کرتا ہے، چنانچہ جب ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے روئے زمین پر اپنا نائب بنانے کا فیصلہ فرشتوں کو سنایا تو سبھوں نے بیک زبان کہا :کیا آپ ایسی مخلوق پیدا کرنے کا اردہ رکھتے ہیں جو روئے زمین پر فساد برپا کرے اور آپس ہی میں دست و گریباں چاک کرے؟ اس وقت اللہ تعالٰی نے علم ہی کی بنیاد پر حضرت آدم علیہ السلام کی فرشتوں پر برتری ثابت کی.
حصول علم کے لئے ہر سماج ومعاشرہ اور ہر مذہب وملت میں استاذ کو معمار کا درجہ حاصل ہے، استاذ ایک مینار نور ہے جو ہمیں اندھیرے میں راہ دکھلاتا ہے، ایک سیڑھی ہے جو ہمیں بلندی پر پہنچادیتی ہے اور ایک گراں قدر تحفہ ہے جس کے بغیر ہم سب کچھ ہو کر بھی ادھورا اور ناتمام ہے. مذہب اسلام میں استاذ کے مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقام ومرتبہ کو ان الفاظ میں بیان کیا : کہ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں. (ابن ماجہ، ٢٢9) استاذ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی : کہ اللہ تعالٰی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی، اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا تھا اسی طرح لوگوں تک پہنچا دیا. (ابوداؤد. ٣٦٦) خیرالقرون کے زمانے میں استاذ کی عظمت کا اندازہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس قول سے بھی لگایا جاسکتا کہ آپ نے فرمایا ؛ کہ جس شخص نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں، (تعلیم المتعلم، ٤٦) خلیفہ ھارون رشید نے اپنے بیٹے مامون کو حصول علم کے لیے امام اصمعی کے پاس بھیجا، ایک دن خلیفہ کا گزر امام اصمعی کے پاس سے ہوا تو دیکھا کہ استاذ وضو کر رہے ہیں اور مامون استاذ کے پاؤں پر پانی بہا رہے ہیں تو خلیفہ ھارون رشید نے امام اصمعی پر ناراضگی کا اظہار کیا، کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو آپ کے پاس حصول علم وادب کے لیے بھیجا ہے آپ نے انہیں اس کا حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی بہائے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کا پاؤں دھوئے، (تعلیم المتعلم، ٥0-٥١)
یہ اور اس طرح کے سینکڑوں ایسے واقعات تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے ہوئے ہیں جن سے استاذ کے مقام ومرتبہ کااندازہ لگایا جاسکتا ہے، مگر جیسا کہ آج کی مادیت پرستی کے دور میں ہر چیز کی قدر وروایت گھٹتی اور بدلتی جا رہی ہے، استاذ جیسی محترم اور عظیم الشان ہستی کی بھی عظمت واہمیت اور ان کے تئیں احترام کے جذبات میں نمایاں کمی محسوس کی جا رہی ہے، آج ہماری درسگاہوں میں استاذ کاادب واحترام درسگاہ کی چہار دیواری تک سمٹتا نظر آتا ہے، اور درسگاہ کے باہر ان پر ہر طرح کے تبصرے اورایذا رسانی کو درست ہی نہیں بلکہ نئ نسل کی فکری بلندی اور تقلید لا حاصل سے آزادی سمجھی جاتی ہے، جبکہ مشہور مقولہ ہے ” با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب“ اور کہا جاتا ہے کہ” ادب ایک درخت ہے اور علم اس کا پھل ہے“درخت ہی نہ ہو تو پھل کہاں سے ملے گا.
اس سلسلے میں جہاں اساتذہ کو طلبہ کی صحیح راہنمائی کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ والدین، سرپرستان اور ادارے کے سربراہان کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ قوم کے نونہالوں کو اساتذہ کے مقام ومرتبہ سے آگاہ کریں اور سال میں صرف ایک دن اساتذہ کےاحترام کے لئے خاص نہ کرکے اکابر واسلاف کے اس نہج پر چلنے کی تاکید اور کوشش کرائیں جس جذبہ کے تحت ایک طالب علم اپنے استاذ کے گھر کی طرف پاؤں پھیلا نا تک گوارہ نہیں کرتے ہیں اور بعد میں اسی شاگرد کو دنیا شیخ الاسلام حسین احمد مدنی کے نام سے جانتی ہے. یقینا ان حضرات کی راہنمائی زیادہ مؤثر ثابت ہوگی.
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں