یہ کیسے ’’ لوگ ‘‘ ہیں، ان کو حیانہیں آتی!

نایاب حسن
اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کے 130؍رکنی وفد کے ساتھ چھ روزہ دورۂ ہند کے دوران مرکزی حکومت نے اپنی مہمان نوازی میں ساری توانائی خرچ کردی،انھیں مختلف مقامات کی سیر کروائی گئی، زراعت، ٹکنالوجی، واٹرمینجمنٹ،اسلحہ وغیرہ کے شعبوں میں نئے معاہدے ہوئے،گزشتہ سال ہند۔اسرائیل کے درمیان ہونے والے پانچ ارب کے ’’کاروبار‘‘میں مزید اضافے پر غوروخوض ہوا،اسرائیلی وزیر اعظم نے اس دوران سرکاری نمایندگان کے علاوہ صنعت،تجارت،بینکنگ سے لے کر بالی ووڈکے سٹارزتک کے ساتھ پارٹیز اور میٹنگیں کیں۔انھوں نے اپنی مختلف تقریروں میں کئی باتوں پر بار بار زور دیا ، بعض باتیں تو رسمی تھیں ،جو عام طورپر ایک ملک کا سربراہ دوسرے ملک کا دورہ کرتے ہوئے وہاں کے لیڈروں اور حکومت کو ’’پٹانے‘‘کے لیے کرتا ہے،مثلاً یہ کہ اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات کی قدیم تاریخ ہے،دونوں ملکوں میں بہت سی مماثلتیں ہیں اور ہم موجودہ تعلقات کو مزید آگے اور اونچائیوں تک لے جانا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور بلا شبہ ہندوستان جیسا ملک ان کے دامِ فریب میں آجاتاہے،جہاں سیاست کے کھلاڑی عموماً فہم و دماغ سے عاری ہوتے ہیں اور آج بھی ہمارے وزیر اعظم ہوں یا ملک کی اور کوئی بڑی شخصیت عموماً کسی بھی بڑے ملک کے رہنما سے ملتے وقت نفسیاتی مرعوبیت کا شکار ہوتی ہے اور اسی وجہ سے بہت سے معاملات قوم کے مفادات کو ملحوظ رکھ کرکیے جانے کی بجاے اُس ’’نیچرل دوستی‘‘ کو بڑھانے اور مضبوط بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں،جس کا زمینی سطح پر کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی نتن یاہو نے اپنے اس دورے کی متعدد تقریروں میں اس توسیع پسندانہ عزم کا اظہار بھی کیا،جو اسرائیل کا خاصہ ہے اور جس کی وجہ سے فی الحقیقت یہ ناجائز ریاست دنیا بھر میں اپنا منفی امیج رکھتی ہے،خاص طورپر اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے اسرائیل کا جو نقطۂ نظر اور طریقۂ عمل رہاہے،اس کا اظہار کرنے سے وہ اپنے آپ کو روک نہ سکے اور Raisina Dialogueکے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے جہاں انھوں نے کسی بھی ملک کی سیاسی ،دفاعی اورمعاشی مضبوطی کی اہمیت اور جمہوریت و تکثیریت کے فضائل گنوائے،وہیں براہِ راست اسلام کوبھی نشانہ بنایا اور کہا کہ ’’موجودہ وقت میں ہمیں ،ہماری زندگی،ہماری ترقی پسندانہ سوچ اوراکتشافی نظریے کو ریڈیکل اسلام سے خطرہ ہے اور ایسے خطرات عالمی نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے؛چنانچہ ہمیں ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک ساتھ آگے آناچاہیے اور اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہیے‘‘۔اس تقریر میں نتن یا ہوکے بیان کا لہجہ ،لفظوں کا انتخاب ،چہرے کے تاثرات ؛سب اس غرور اور مذہبی جنون کا اعلان کررہے تھے،جس کے زیرِ اثر گزشتہ نصف صدی کے زائد عرصے سے فلسطین کے اصلی باشندوں کے خلاف ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔
یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ظالم خود کو مظلوم بناکر پیش کررہا ہے اور جو مظلوم ہیں،انھیں ریڈیکل،انتہا پسند اور دہشت گرد قراردیا جاتا ہے اور دنیا اسے تسلیم بھی کرتی ہے۔مودی حکومت اسرائیل میں اس قدر دلچسپی کیوں لے رہی ہے اور اسرائیل ہندوستان سے اپنی نیچرل دوستی کا راگ الاپ کر کس دوستی کی جانب اشارہ کررہاہے،وہ اہلِ نظر کے لیے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،اصل حقیقت یہ ہے کہ آرایس ایس ہندوستان کو جہاں لے جانا چاہتا ہے اور اس کے منصوبے کے مطابق ہندوستان کو جیسا ہونا چاہیے،اس کی زندہ مثال وہ اسرائیل کوپاتا ہے،سو اسرائیل کو آر ایس ایس رول ماڈل مانتا ہے؛چنانچہ اس نے اپنے سیاسی بازو(بی جے پی)کو اس کام پر لگادیاہے کہ اسرائیل سے پینگیں بڑھائے اور معاش و تجارت اورزر اعت وغیرہ میں ساجھے داری کے پردے میں اُس ایجنڈے پر عمل کرے،جس پر چل کر اسرائیل دوسرے کے ملک پر قبضہ کرکے باقاعدہ ایک حکومت تشکیل دے چکاہے اور ہزاروں لاکھوں بے قصوروں کو تہہِ تیغ کرنے کے باوجود اب بھی دنیا والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا اور اپنی مظلومیت کا رونا روتا رہتا ہے۔آرایس ایس کے لیے اسرائیل ایک ملک یا قوم سے زیادہ بہت کچھ ہے،آر ایس ایس کی نظر میں اسرائیل وہ ہے،جہاں یہ لوگ ہندوستان کو لے جانا چاہتے ہیں،شروع سے ہی آر ایس ایس ہندوستان کو اسرائیل کے قریب لے جانے کی تدبیروں میں جٹا رہاہے؛چنانچہ اٹل بہاری واجپئی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم تھے،جنھوں نے2003ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریئل شیرون کی مہمان نوازی کی ،جبکہ مودی اب پہلے ایسے وزیر اعظم بن گئے ہیں،جنھوں نے تل ابیب کا دورہ کیااور اس کے بعد اب اسرائیلی وزیر اعظم کوبھی اپنے یہاں لمبے ٹورپر بلالیا،نئے دور میں اس سب رشتے داری کو قائم کروانے میں آر ایس ایس کے تیسرے چیف بالا صاحب دیورس کے بھائی بھاؤراؤ دیورس کا کردارغیر معمولی رہاہے۔ آر ایس ایس ۔اسرائیل کی فکری و نظریاتی وابستگی یا دوستی کا آغاز تو تبھی سے ہوگیا تھا،جب ایک طرف ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے نوبل اعزاز یافتہ مشہور سائنس داں البرٹ آئنسٹائن (Albert Einstein)کی سفارش کے باوجود اسرائیل کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، جبکہ اس وقت کے آر ایس ایس سربراہ ایم ایس گولوالکر نے تخلیقِ اسرائیل کی حمایت کی۔اسی زمانے سے آر ایس ایس کو ایسا لگا اور اب بھی اس کا ماننا ہے کہ اسرائیل دنیا میں واحد اسلام اور مسلمانوں کا پکا دشمن ہے اور انھیں ختم کرکے دم لے گا اور ظاہر ہے کہ نظریاتی و منصوبہ جاتی سطح پر خود آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی بھی اسی طرح کی ہے؛اس لیے آر ایس ایس ہمیشہ اسرائیل کے قریب ہونا چاہتا رہاہے؛چنانچہ سیاسی برتری کے اپنے موجودہ سنہرے دور میں وہ اس خواہش کو ہر ممکن طریقے سے عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔
1948ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شرمناک شکست کے بعد باقاعدہ اسرائیل کی تشکیل ہوگئی اور ہندوستانی حکومت نے بھی ستمبر 1950میں قانونی طورپر اسے ایک مستقل ریاست تسلیم کرلیاتھا،مگر سیاسی و ڈپلومیٹک پارٹنر بنانے یا اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا تعلق قائم کرنے سے احتراز کیاگیا ، آزادی کے بعد 41؍سال تک اسرائیل کے حوالے سے نہرو کی خارجہ پالیسی پر ہی عمل کیا جاتا رہا،مگرنرسمہاراؤ کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں آر ایس ایس نے حکومتِ ہند یا کانگریس کو بھی عربوں کے تعلق سے نہروکی پالیسی سے دست بردار کرنے پر آمادہ کرلیا؛چنانچہ جنوری1992ء سے ہند۔اسرائیل ڈپلومیٹک تعلقات کا باقاعدہ آغاز ہوگیا،جس میں دن بہ دن مضبوطی ہی آئی،کانگریس نے اپنے دورِ اقتدار میں ان تعلقات کو پوشیدہ طورپر نبھایا اور اب بی جے پی کھل کر انھیں celebrateکررہی ہے۔
نتن یاہوکے حالیہ دورے کی کئی تصویریں میڈیا میں وائرل ہوئیں مثلاً مودی سے ہاتھ اور گلے ملنے والی، سابرمتی آشرم والی، تاج محل گھومنے والی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ ان کا استقبال کیے جانے والی،مگر یہ سب تصویریں وہ تھیں ،جو میڈیا کے ذریعے لوگوں کے سامنے آئیں اور میڈیاوالوں نے ہی لی تھیں،البتہ ان سب میں ایک تصویر اور تھی جو18؍جنوری کو ممبئی میں Shalom Bollywoodپروگرام میں شرکت کے موقع پربالی ووڈ سٹارز،پروڈیوسرز،ڈائریکٹرز وغیرہ کے ساتھ خود نتن یاہو نے لی،انھوں نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ بالی ووڈ سلیبرٹیز،پروڈیوسرزاور سٹارزکے ساتھ ایک سیلفی لی جائے؛تاکہ لاکھوں لوگ ہماری اس دوستی کا مشاہدہ کریں‘‘پھر اس فوٹو کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’’کیامیری بالی ووڈسیلفی آسکرمیں لی گئی ہالی ووڈسیلفی کو پیچھے چھوڑسکتی ہے؟‘‘۔ اس تصویر میں نظرآنے والے زیادہ ترچہرے ہندی فلم انڈسٹری کے نابغہ افراد ہیں،جو رات دن انسانیت ،جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کی باتیں بھی کرتے ہیں اوراپنی سیکڑوں فلموں میں انھوں نے ہزاروں بے قصوروں کو بچایا،مظلوموں کی دادرسی کی اور بے بس و بے سہارا لوگوں کو آسرا دیا ہے،اب بھی مختلف سرکاری و غیر سرکاری اشتہارات میں لوگوں کو انسانیت نوازی کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں،مگر اس تصویرمیں ان کے چہروں کو دیکھیے، ایسا لگتا ہے کہ ایک خونی اور لاکھوں بے قصوروں کے قاتل کے ساتھ فوٹو کھنچواتے ہوئے وہ اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھ رہے ہیں؛بلکہ کئیوں نے تو سوشل میڈیا پر اس کا اظہار بھی کیا ہے،الغرض یہ سب ایکٹر ہیں اور بس ایکٹر ہیں ،اس کے علاوہ کچھ نہیں!مجھے اس پر بھی حیرت ہوئی کہ جب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ہندوستان کا دورہ کیاتھا،تو یہاں کے لبرل، جمہوریت پسند طبقے نے بڑا شور مچایا تھاکہ وہ اپنے ملک میں عوامی حقوق کو دبانے کے مجرم ہیں اور ان کا یہاں استقبال نہیں ہونا چاہیے،مگراب ،جب عالمِ انسانی کا مجرم نمبر ایک ہفتہ بھر ہندوستان میں گھومتا رہا،تو چند مذہب پسند مسلمانوں کے علاوہ کہیں کسی جمہوریت نواز، لیفٹسٹ وغیرہ کو احتجاج کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔بات بس یہی ہے کہ جمہوریت یا سیکولرز م اس دور میں ہر شخص؍جماعت اور قوم کے اپنے نظریہ و خیال کے تابع ہے،بات یہ بھی ہے کہ ایک مخصوص طبقۂ انسانی کے بارے میں موجودہ عالمی نظام اور طاغوتی میڈیا کے ذریعے یہ طے کردیا گیاہے کہ وہ جہاں بھی اور جس خطے میں بھی پایاجائے،ظالم ہی ہوگا ؛چنانچہ چاہے اس پر مظالم کے پہاڑ توڑے جائیں،بے گھر کیاجائے،ماوراے عدالت قتل کیاجائے اور زبردستی اس کے گھر؍وطن پر قبضہ کیا جائے،پھر بھی قصور اسی کا ہے اور اگر اس نے ایک حرفِ احتجاج بھی بلند کیا تو دنیا کے جمہوریت نواز بیگانے تو دور،خود بعض’’اپنے‘‘بھی اسے دہشت گردوں کی فہرست میں نتھی کردیتے ہیں!