ہمارا موقف بہت مضبوط،حقائق اور دستاویزات کی بنیاد پر ہوگا عدلیہ میں فیصلہ :مولانا ارشدمدنی

نئی دہلی 8فروری(ملت ٹائمز پریس ریلیز)
ہندوستان اور ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ کے سب سے بڑے مقدمہ یعنی بابری مسجد ملکیت تنازعہ کی سماعت آج ایک بار پھر سپریم کورٹ آف انڈیا میں عمل میںآئی جس کے دوران جمعیة علماءہندکی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ وہ معاملے کی روز بہ روز سماعت کیئے جانے کے لیئے تیار ہیں بشرطیکہ فریق ثانی مقدمہ کے تعلق سے ان کی جانب سے الہ آباد ہائی کورٹ میں داخل دستاویزات مہیا کرائیں۔
چیف جسٹس دیپک مشراءکی سربراہی والی بینچ جس میں جسٹس عبدالنظیر اور جسٹس بھوشن کے روبرو جمعیة علماءہند کی جانب سے سینئر وکلاءڈاکٹر راجو دھون، ڈاکٹر راجو رام چندر اور اعجاز مقبول پیش ہوئے، جس کے دوان ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں جمعیة علماءو دیگر مسلم فریقین کی تیاری تقریباً مکمل ہوچکی ہے، لیکن ہندو فریقین نے ابتک ان کتابوں کی نقول عدالت میں پیش نہیں کی ہے جسے انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں داخل کیا تھا۔
اعجاز مقبول نے بتایاکہ ایسی درجنوں کتابیں ہیں جن کا ترجمہ کرکے ہندو فریقین کو مسلم فریقین کو مہیا کرانا ہے جسے انہوں نے ابتک نہیں داخل کیا ہے جس پر عدالت نے ہندو فریقین کو حکم دیا کہ وہ دو ہفتوںکے اندر ان تمام دستاویزات کو مع ترجمہ رجسٹری میں جمع کرائیں۔
جمعیة علماءکے وکیل اعجاز مقبول کی درخواست پر عدالت نے مداخلت کار بننے کے لیئے پر تول رہے بی جے پی ایم پی ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی عرضداشت پر کوئی کارروائی نہیں کرنے کی گذارش کی جسے عدالت نے قبول کرتے ہوئے ان تمام مداخلت کاروں کی درخواستوں کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ پہلے فریقین کے دلائل کی سماعت کی جائے اور پھر اس کے بعد اس تعلق سے فیصلہ کیا جائے گا۔
عدالت عظمی نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اگلی سماعت کی تاریخ ۴۱ مارچ ۸۱۰۲ مقرر کی ہے۔
اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا سید ارشد مدنی نے کہا ہے کہ ہم پوری طرح تیار ہیں اور دیگر زبانوں میں جو دستاویزات تھیں ان کے ترجمے کا کام بھی تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ تاخیر تو دوسرے فریقین کی طرف سے ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہہندستانی مسلمانوں نے ہمیشہ قانون کا احترام اور عدلیہ پر اپنے اعتماد ویقین کا اظہار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کی طرف سے عدالت کے کسی حکم کی کبھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ البتہ فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے مسلسل عدلیہ اور آئین کی توہین ہوتی رہی ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارا موقف بہت مضبوط ہے۔ ہمیں مکمل یقین ہے کہ عدالت اس معاملے میں دستاویزات اورحقائق کی بنیاد پر انصاف کرے گی۔ انہوں نے اخر میں کہا کہ ہم ملک کے پر امن شہری ہیں ، عدلیہ کے تمام تر فیصلوں کا احترام کرتے آئے ہیں اور اس معاملے میں بھی عدالت عظمیٰ کا جو فیصلہ ہوگا ہم اسے قبول کریں گے۔
بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث میں جمعیة علماءکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجو دھون، ڈاکٹر راجو رام چندرنے بحث کی جبکہ ان کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ طاہر، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قراة العین، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر موجود تھے ۔
واضح رہے کہ23 دسمبر1949ءکی شب میں بابری مسجد میں مبینہ طور پر رام للا کے ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ145 کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیة علماءاتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادیؒ اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسمؒ شاہجاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کا تصفیہ 30 ستمبر2010ئ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دیا گیاتھا ۔متذکرہ فیصلے کے خلاف جمعیة علماءہند نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس کی آج سماعت ہوئی۔
اس معاملے میں جمعیة علماءہند اول دن سے فریق ہے اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد دائر مقدمہ میں جمعیة علماءاتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدینؒ فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسمؒ شاہجاں پوری نچلی عدالت میں فریق بنے تھے پھر ان کے انتقال کے بعد حافظ محمد صدیقؒ (سیکریٹری جمعیة علماءاترپردیش) فریق بنے لیکن دوران سماعت ان کی رحلت کے بعد صدر جمعیة علماءاتر پردیش مولانا اشہد رشیدی فریق بنے جو عدالت عظمی میں زیر سماعت اپیل میں بطور فریق ہیں ۔
جمعیة علماءہند نے صدر جمعیةعلماءمولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر30 ستمبر 2010ئ کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو جس میںا س نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا کہ خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا پھر اس کے بعد دیگر مسلم تنظیموں نے بطور فریق اپنی عرضداشتیں داخل کی تھیں۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل اپیل میں سب سے پہلا مدعہ جمعیة علماءہندنے یہ اٹھایا کہ جب کسی بھی فریق(ہندو اور مسلم)نے بابری مسجد ملکیت کو مختلف حصوں میں بانٹنے کا مطالبہ ہی نہیں کیا تو عدالت نے ایسا فیصلہ کیوں دیا اور نہ ہی عدالت نے فیصلہ صادر کرتے وقت آرکلوجیکل انڈیا کی رپورٹ کی مدد لی جس میں یہ بتایا کہ گیا ہیکہ جس جگہ بابری مسجد تعمیرکی گئی تھی وہاں کبھی رام مندر یا کوئی اور مندر تھا ہی نہیں۔