شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اگر دنیا کے انصاف ور اور دانشمند ترین حکمرانوں کی فہرست بنائی جائے اور اس میں پہلا نام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہو تو تعجب نہ کرنا چاہئے ، بابائے قوم مہاتما گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ ہندوستان کو آزاد ہونے کے بعد وہی طریقۂ حکمرانی اختیار کرنا چاہئے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت مختلف پہلوؤں سے نہایت مکمل اور جامع تھی ، آپ کی شخصیت کا ایک اہم وصف یہ تھا کہ اقتدار نے کبھی آپ کو غیر متوازن نہ ہونے دیا ، یہ آسان نہیں کہ آدمی کرسیِ اقتدار پر متمکن ہو ، ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ اس کے قلم سے لکھا جاتا ہو ، کو ئی زبان اس کو چیلنج کرنے والی اور کوئی پنجہ اس کے دست استبداد کو تھامنے والا نہ ہو ؛ لیکن پھر بھی اقتدار کی ’’ اَنا ‘‘ اس کو بدمست ہونے نہ دے اور جاہ و اقتدار کا نشہ اس کے دل و دماغ تک رسائی نہ پاسکے ، یہ اسی وقت ممکن ہے کہ انسان اپنے ماضی کو یاد رکھے اور اپنی پرانی سطح کو فراموش نہ کرے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں پوری طرح یہ وصف موجود تھا ، وہ خلیفہ ہونے کے بعد اُمت کے ایک عام فرد کی طرح رہتے تھے ، لباس و پوشاک ہو ، کھانا پینا ہو ، لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور عمومی سلوک ہو ، معیارِ زندگی کے اعتبار سے انھوں نے اپنے آپ کو عام لوگوں کی سطح پر رکھا تھا ، اس کا اثر تھا کہ وہ غریبوں کا دکھ جانتے تھے اور ان کے لئے غریبوں کے مسائل ’’ جگ بیتی ‘‘ نہیں بلکہ ’’ آپ بیتی ‘‘ تھے ؛ اس لئے ہمیں ان کی زندگی میں عدل و انصاف ، مساوات و برابری ، غریب پروری اور کمزوروں اور زیر دستوں کی دستگیری کے جو نمونے ملتے ہیں، کہیں اور مشکل ہی سے ملیں گے۔
عتبہ بن فرقد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آذر بائیجان کی مہم پر مامور تھے ، فتح آذر بائیجان کے موقع پر انھوں نے کھجور اور گھی سے مرکب ایک خوش ذائقہ کھانا تیار کیا ، جسے ’’خبیص‘‘ کہا جاتا ہے اور اسے اپنے غلام سحیم کے ساتھ چمڑے اور کپڑے سے چھپا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا ، سحیم آئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا : کیا لائے ہو ، سونا یا چاندی ؟ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے غلاف ہٹایا گیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے چکھا اور فرمایا کہ عمدہ اور خصوصی طور پر بنایا ہوا معلوم ہوتا ہے ’’ ان ھذا لطیب اثر ‘‘ پھر دریافت فرمایا کہ تمام ہی مہاجرین نے اس سے آسودہ ہو کر کھایا ہے ؟ سحیم نے عرض کیا : نہیں ، یہ تو عتبہ نے خاص طور پر آپ کے لئے بنوایا ہے ، عام طور پر ایسی خوشامدانہ باتیں اربابِ اقتدار اور اصحابِ اختیار کو باغ باغ کر دیتی ہیں اور ان کے دل میں ایسے کارکنوں کی عزت بڑھ جاتی ہے ؛ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی ، آپ رضی اللہ عنہ نے فوراً عتبہ کو ایک غصہ بھرا خط لکھا کہ یہ جو بیت المال کا مال ہے ، یہ نہ تری محنت کا ہے اور نہ تری ماں اور ترے باپ کی محنت کا ہے ، ’’ لیس من کدک ولا من کد أمُّک ولا من کد أبیک‘‘ پھر تحریر فرمایا کہ میں وہی کھاؤں گا جس کو عام مسلمان آسودہ ہو کر کھائیں ۔ ( فتوح البلدان : ۴۰۲)
آج ان لوگوں کا تو خیر کیا ذکر ، جو صبح سے شام تک مادیت میں ڈوبے ہوئے ہیں ، جو خواب بھی روپیوں پیسوں کا دیکھتے ہیں اور جن کی بیداری کا ایک ایک نفس سیم و زر کی فکر میں گزرتا ہے ، اہل دین بھی کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو اسوہ بنانے کوتیار ہیں ؟ دینی مجلسوں اور محفلوں میں بھی من و تو اور ما و شما کا امتیاز موجود ہے ، بڑوں چھوٹوں کا فرق ہے ، اکابر و اصاغر کی تفریق ہے اور تقویٰ کی بنیاد پر نہیں ؛ بلکہ دولت و غربت اور شہرت و گمنامی کی نسبت سے دائرے قائم کر دیئے گئے ہیں ، جب معمولی سا اقتدار آدمی کو توازن سے محروم کر دیتا ہے تو ان لوگوں سے کیا گلہ جو اقتدار کی اونچی چوٹیوں پر پہنچنے کے بعد نیچے رہنے والوں کو دیکھ نہیں پاتے یاان کو اپنے مقابلہ کم قامت خیال کرتے ہیں ۔
انسان دوسرے انسان کو انسان سمجھنا چھوڑ دے اور کوئی ادنیٰ مخلوق تصور کرنے لگے یا خود اپنے آپ کو انسان سے بڑھ کر کوئی اور مخلوق خیال کرنے لگے تو دوسرے انسانوں کے غم کی چوٹ اپنے کلیجہ پر محسوس نہیں کرسکتا ، یہی چیز انسان کے مزاج کو غیر متوازن اور طریقۂ فکر کو نامنصفانہ بنا دیتی ہے ، پھر انسان اپنے ماضی کو بھولتا چلا جاتا ہے اور جوں جوں وہ اپنے ماضی سے دور ہوتا جاتا ہے ، کبر و تعلی بڑھتی جاتی ہے ، اس لئے جب انسان دولت و ثروت ، حکومت و اقتدار اور شہرت و ناموری کے بام پر چڑھنے لگے تو ہر زینہ پر قدم رکھتے ہوئے پچھلا زینہ اور اس زینہ کے نیچے بچھی ہوئی زمین کو دیکھتا جائے اور یاد رکھے کہ اس نے یہیں سے اپنا سفر شروع کیا ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے ہم نام فرمانروا حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ ہیں، ان کا نانہالی سلسلہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی سے ملتا ہے ، رجاء بن حیوہ ، حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے قدر شناسوں میں تھے ، انھیں کے مشورہ سے باگِ خلافت آپ کو سونپی گئی تھی ، زمانۂ خلافت میں رجاء ایک شب آپ کے پاس مقیم ہوئے ، ایک معمولی سا چراغ تھا جو روشن تھا ، چراغ بجھنے لگا تو رجاء اُٹھے کہ چراغ درست کردیں ، حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے قسم دی کہ رجاء ہرگز نہ اُٹھیں ، ناچار بیٹھ گئے ، خلیفۃ المسلمین خود اُٹھے اور چراغ درست فرمایا ، بنو اُمیہ کے ابتدائی دور ہی سے بادشاہان مملکت کی شوکت و سطوت جس طرح روز بروز بڑھتی جاتی تھی ، اس کے تحت حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا یہ عمل نہایت باعث حیرت تھا ، رجاء نے عرض کیا : آپ امیر المومنین ہونے کے باوجود چراغ درست کرنے کا کام کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میں جب اُٹھا تب بھی عمر بن عبد العزیز تھا اور جب واپس آیا تب بھی عمر بن عبد العزیز ہی تھا !!!
حضرت عمر بن عبد العزیز نے امیر المومنین ہونے کے بعد بھی اس کو یاد رکھا کہ وہ ’’ امیر المومنین ‘‘ بعد میں ہیں ، ’’ عمر بن عبد العزیز ‘‘ پہلے ، اگر انھوں نے عمر بن عبد العزیز ہونے کی حیثیت کو بھلا دیا ہوتا تو ان کے لئے چراغ بجھانے کے لئے اُٹھنا اور خود اپنی ضرورت پوری کرنا دشوار ہوتا ؛ لیکن ماضی کو یاد رکھنے نے ان کی زندگی کو ایک سادہ ، بے تکلف اور تصنع سے خالی مومن کی زندگی بنا دیا تھا ، یہ ایک ضروری وصف ہے جس کی قدم قدم پر ضرورت ہے ، رشتہ داروں سے رشتہ باقی رکھنے کے لئے ، دوستوں سے محبت کی فضاء قائم رکھنے کے لئے ، اپنے ماتحت کام کرنے والے مزدوروں اور ملازمین کا دل جیتنے کے لئے اور سب سے بڑھ کر اس لئے کہ خدا کے یہاں اس کا شمار کبر کرنے والوں میں نہ ہو!
(ملت ٹائمز)