شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
ملک کے ایک صاحب نظر عالم، مقبول خطیب اور علوم اسلامی کے کہنہ مشق مدرس نے بابری مسجد کے پس منظر میں فقہ حنبلی کا حوالہ دیتے ہوئے مسجد کی دوسری جگہ منتقل کرنے کی رائے پیش کی ہے؛ تاکہ مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان سے بچایا جا سکے، اور باہمی منافرت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے، اس پس منظر میں حنبلی نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لئے بہت سے لوگ بے چین ہیں اور ان کا فکرمند ہونا فطری بات ہے۔
اس پس منظر میں عرض ہے کہ مسجد کی منتقلی یا مسجد کی مسجدیت ختم ہونے کے سلسلہ میں حنبلی مسلک کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لئے چند نکات پیش نظر رکھنا ضروری ہے:
(۱) اس سلسلہ میں امام احمد بن حنبلؒ سے ایک ہی قول منقول ہے یا ایک سے زیادہ؟
(۲) مسجد کی منتقلی کے سلسلہ میں جو رائے منقول ہے، اس کا خود فقہ حنبلی میں کیا درجہ ہے؟
(۳) اس رائے کے پیچھے جو دلیل ہے، وہ کس حد تک معتبر اور قابل قبول ہے؟
(۴) حنابلہ کا یہ نقطۂ نظر اُمت سواد اعظم کے خلاف تو نہیں ہے؟
(۵) کیا فقہ حنبلی میں اس بات کی گنجائش ہے کہ مسجد کو اس طور پر چھوڑ دیا جائے کہ وہاں غیر اللہ کی عبادت کی جانے لگے؟
الف: جہاں تک فقہاء حنابلہ کے نقطۂ نظر کی بات ہے تو اس سلسلے میں ان کے دو اقوال ہیں، ایک یہ کہ اگر کوئی مسجد ویران ہوجائے، وہاں سے آبادی ختم ہو جائے تب بھی مسجد مسجد باقی رہے گی؛ البتہ اس بات کی گنجائش ہوگی کہ مسجد کا ملبہ یا اس کا قابل استعمال سامان دوسری مسجد کو منتقل کر دیا جائے گا:
وعنہ الاتّباع؛ المسجد لکن تنقل آلٰتھا الی مسجد أخر ویجوز بیع بعض الآلۃ وصرفھا في عمارتہ (الانصاف علی ھامش المقنع:۱۶؍۵۲۲)
امام احمدؒ سے مروی ہے کہ مسجدیں بیچی نہیں جا سکتیں؛ البتہ اس کا سامان دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے، نیز ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض سامان فروخت کر دیا جائے، اور اسے اسی مسجد کی تعمیر میں خرچ کیا جائے۔ (الانصاف علی ھامش المقنع:۱۶؍۵۲۲)
علامہ محمد ابن قدامہ مقدسی ؒ فقہ حنبلی کے بڑے معتبر ترجمان سمجھے گئے ہیں، انہوں نے متعدد مواقع پر لکھاہے :
! ن المساجد لاتباع و! نما تنقل آلاتھا۔(المغنی:۵؍۳۶۷)
مسجدیں فروخت نہیں کی جائیں گی؛ البتہ اس کے آلات منتقل کئے جا سکتے ہیں۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا قول یہ ہے کہ اگر مسجد ویران ہو جائے، وہاں مسلمانوں کی آبادی ختم ہو جائے،آئندہ بھی اس کے آباد ہونے کی امید نہ ہو تو مجبوری کے درجہ میں اس کو فروخت کرنے کی گنجائش ہے:
فان قطعت منافعہ بالکلیۃ کدارانھدمت ۔۔۔۔۔ أو مسجد انتقل أھل القریۃ عنہ ۔۔۔۔۔ جاز بیع البعض وإن لم یمکن الانتفاع بشیء منہ بیع جمیعہ۔
اگر وقف کے منافع بالکلیہ ختم ہو گئے، جیسے کوئی مکان تھا، منہدم ہوگیا، یا مسجد تھی، اوراس آبادی کے مسلمان وہاں سے منتقل ہو گئے، تو اگر یہ ممکن ہو کہ اس کا کچھ حصہ بیچ کر بقیہ کی تعمیر کی جائے، تو کچھ حصہ کو فروخت کرنا جائز ہوگا، اور اگر اس سے بالکل نفع اٹھانا ممکن نہ ہو تو اس پورے کو بیچا جا سکتا ہے۔ (الشرح الکبیر:۱۶؍۵۲۲)
ب: مسجد کی منتقلی کے سلسلے میں امام احمدؒ کے اس قول کو خود فقہاء حنابلہ نے امام احمدؒ کا تفرد قرار دیا ہے؛ چنانچہ علامہ مرداوی حنبلی (متوفی ۸۸۵ھ) جو فقہ حنبلی کے معتبر شارحین میں ہیں، نے اس قول کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ ھو من المفردات‘‘ (الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علی مذہب الامام احمد بن حنبلؒ۷؍۷۸)
یعنی یہ امام احمد بن حنبلؒ کے تفردات میں سے ہے؛اس لئے اس قول کو بہت سے محقق فقہاء حنابلہ نے بھی قبول نہیں کیا ہے، اور اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ویران مسجد میں جو قابل استعمال چیزیں ہیں ، صرف ان کو دوسری مسجد کو منتقل کرنے یا دوسری مسجد کو حوالہ کرنے کی گنجائش ہے؛ چنانچہ ایک حنبلی قاضی نے مسجد کی منتقلی کا فیصلہ کیا تو دوسرے حنبلی المسلک قاضی نے اس پر سخت اعتراض کیا،ایک حنبلی فقیہ ہی سے اس بات کو سنئے:
۔۔فعارضہ القاضی جمال الدین المرداوی صاحب’’ الانتصار ‘‘ وقال: حکمہ باطل علی قواعد المذھب وصنف في ذالک مصنفا رد فیہ علی الحاکم سماہ ’’ الواضح الجلي في نقض حکم ابن قاضی الجلیل الحنبلي‘‘ ووافقہ صاحب ’’ الفروع ‘‘ علیٰ ذالک– (الانصاف علی المقنع:۱۶؍۵۲۴)
–تو قاضی جمال الدین مرداوی مصنف’ ’ الانتصار‘‘ نے اس سے سخت اختلاف کیا اور کہا کہ مذہب حنبلی کے قواعدکے لحاظ سے یہ فیصلہ غلط ہے، اور انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے ’’ الواضح الجلي في نقض حکم ابن قاضی الجلي الحنبلي ‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی تالیف فرمائی ،نیز فقہ حنبلی کی ایک اہم کتاب ’’الفروع ‘‘ کے مصنف نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
یہ بات کہ جب ایک جگہ مسجد بن جائے تو اب اس کی حیثیت تبدیل نہیں کی جا سکتی، وقف کے سلسلہ میں حنابلہ کے مقررہ اصول سے بھی مطابقت رکھتی ہیں؛ کیوں کہ امام احمد کے نزدیک جب کوئی چیز ایک بار وقف کر دی جاتی ہے تو وہ ہمیشہ وقف ہی باقی رہتی ہے، جب عام اوقاف کے لئے یہ حکم ہے تو مسجد کے لئے تو بدرجۂ اولی یہ حکم ہونا چاہئے؛ چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلی مقدسی فرماتے ہیں:
ولایجوز التصرف في الوقف بما ینقل الملک في الرقبۃ لقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم في حدیث عمرؓ لا یباع أصلھا، ولا یوھب، ولا یورث؛ لأن مقتضی الوقف التابید وتحبیس الأصل؛ بدلیل أن ذالک من بعض ألفاظہ والتصرف في رقبتہ ینافي ذالک۔ ( الکافی: ۳؍۵۸۰)
وقف میں ایسا تصرف جائز نہیں ہے،جس کا تعلق اصل شئی کی ملکیت منتقل کرنے سے ہو؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: اس کی اصل نہ فروخت کی جائے نہ ہبہ، اور نہ اس میں میراث جاری ہوگی، اور اس لئے بھی کہ وقف ہونے کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کی حیثیت ابدی ہو، اور اصل شئی کو باقی رکھا جائے کہ یہی بات حضورﷺ کے الفاظ سے مستنبط ہوتی ہے، اور اصل شئی میں تصرف کرنا اس کے منافی ہے۔
اس لئے امام احمدؒ کے یہاں اسی قول کو ترجیح ہونی چاہئے، جو دوسرے فقہاء کی رائے کے مطابق ہے؛ کیوں کہ یہ وقف کے عمومی اور بنیادی قاعدہ کے مطابق ہے۔
پھرحنابلہ کا یہ قول کہ ’’ مسجد کی حیثیت تبدیل ہو سکتی ہے‘‘ — جیسا کہ مذکور ہوا— اس وقت ہے، جب وہاں مسلمانوں کی آبادی ختم ہو گئی ہو، اور مسجد کی آبادی کی کوئی شکل نہ ہو؛ لیکن بابری مسجد او ر ایودھیا کی صورت حال یہ نہیں ہے؛ کیوں کہ ایودھیا میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے، اور متعدد مسجدیں وہاں موجود بھی ہیں اور آباد بھی؛ بلکہ جس شب مسجد میں مورتی رکھی گئی، اس روز بھی وہاں عشاء کی نماز ادا کی گئی تھی، اور اگر وہ جگہ مسلمانوں کو واپس مل جائے تو دوبارہ مسجد آباد ہو سکتی ہے؛ اس لئے فقہ حنبلی کی رو سے بھی یہ اس صورت میں داخل نہیں ہے،جس میں مسجد کو منتقل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ (جاری)
(ملت ٹائمز)