قتل بہ جذبۂ رحم اور سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
انسان کے لئے مادی اعتبار سے سب سے قیمتی شئے اس کی زندگی ہے، زندگی کا چراغ گل ہوتے ہی دنیا کی ساری نعمتیں اس کے حق میں معدوم ہوجاتی ہیں؛ اس لئے دنیا کے تمام مذاہب اور مہذب قوانین میں زندگی کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، اسلام کی نظر میں جان اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور انسان خود اپنی جان کا مالک نہیں؛ بلکہ وہ اس کا امین ہے، نہ وہ دوسروں کی جان سے کھیل سکتا ہے اور نہ خود اپنے وجود کو ختم کرنے کا حق رکھتا ہے، حضرت ابو ہریرہ ص سے روایت ہے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے آپ کو دھاردار آلہ سے ہلاک کرلے تو یہ آلہ قیامت کے دن اس کے ہاتھ میں رہے گا، جس کووہ ہمیشہ ہمیش دوزخ میں اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا: ’’…ومن قتل نفسہ بحدیدۃ، فحدیدتہ في یدہ، یتوجأ بہا في بطنہ في نار جہنم خالدا مخلدا فیہا أبدا‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الطب، باب شرب السم والدواء بہ، حدیث نمبر: ۵۷۷۸، صحیح مسلم، کتاب الإیمان، حدیث نمبر: ۳۱۳) خود کشی کے حرام ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ مہلک ہتھیار ہی کا استعمال کیا گیا ہو، اگر کوئی زہریلی شئے اس مقصدکے لئے کھائی جائے یا پی جائے تو ٹھیک اسی طرح اس کی بھی ممانعت ہے: ’’ومن تحسی سما فقتل نفسہ، فسمہ في یدہ، یتحساہ في نار جہنم خالدا مخلدا فیہا أبدا‘‘ (حوالہ سابق)، یعنی جو زہر کھاکر خود کشی کرے، اللہ تعالیٰ قیامت میں وہی زہر اس کے ہاتھ میں دے دیںگے، وہ ہمیشہ اسے پیتا رہے گا۔
خود کشی تو بہر حال انسانی زندگی کا قتل ہے، اگر خود کشی نہ کرے؛ لیکن موت کی تمنا کرے اور اللہ تعالیٰ سے موت کا طلب گار ہو تو بھی درست نہیں، آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کسی شخص کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اس کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے: ’’لایتمنی أحدکم الموت إما محسنا فلعلہ یزداد، وإما مسیئا فلعلہ یستعتب‘‘ (صحیح البخاری، کتاب التمنی، باب ما یکرہ من التمنی، حدیث نمبر: ۷۲۳۵)؛ اس لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام میں نہ دوسرے کے قتل کی اجازت ہے اور نہ اپنے آپ کے قتل کی۔
اس وقت عالمی سطح پر کچھ لوگ اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ انسان کو اپنی مرضی سے مرنے کا حق دیا جائے، خاص کر اگر کوئی مریض تکلیف سے پریشان ہو، یا اس کے ورثہ تیمار داری سے عاجز آچکے ہوں تو ایسے مریض کو مرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے، اور اگر مریض یا اس کے متعلقین ڈاکٹر سے اس عمل میں تعاون کی خواہش کریں تو ڈاکٹروں کو بھی اس میں مدد کرنے کی اجازت ہونی چاہئے، اس عمل کو یوتھنیزیا (Euthabasia) کہتے ہیں، عربی زبان میں یوتھینیزیاکو ’’قتل بدافع الشفقۃ‘‘ اوراُردو میں ’’قتل بہ جذبۂ رحم‘‘ کہا جاتا ہے، بنیادی طور پر یوتھینزیا کی دو صورتیں قرار دی گئی ہیں، ایک فعال: یعنی ایکٹیو یوتھینزیا، دوسرے: غیر فعال جس کو پیسو یوتھینزیا(Passive) کہتے ہیں — ’’فعال یوتھینزیا‘‘سے مراد یہ ہے کہ مریض کو ایسی دوا دی جائے یا انجکشن لگایا جائے، جو جلد سے جلد اس کو موت کی نیند سلادے، اور’’غیر فعال یوتھینزیا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اس کا علاج روک دیا جائے؛ تاکہ خود بخود کم وقت میں اس کی موت واقع ہوجائے، اسی کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی مریض مصنوعی آلہ تنفس پر ہو، ابھی اس کا دماغ زندہ ہو اور یہ جاننے کے باوجود اس سے آلہ ہٹا لیا جائے کہ اس کے ہٹانے کی وجہ سے مریض کی موت واقع ہوجائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ قدیم مذاہب میں بودھ دھرم اور کنفیوشس میں اپنی مرضی سے مرنے کی اجازت تھی؛ لیکن یہودیت، عیسائیت اور اسلام تینوں ابراہیمی مذاہب میں ایسے عمل کو نادرست قرار دیا گیا ہے، موجودہ دنیا میں نیدرلینڈ اور امریکہ کی ریاست ’’اورے گون‘‘ (Orgon) میں اس کی اجازت حاصل ہے، آسٹریلیا کے شمالی علاقہ میں بھی کچھ عرصہ کے لئے قانونی طور پر اس کی اجازت دی گئی تھی؛ لیکن پھر واپس لے لی گئی، ان کے علاوہ پوری دنیا میں قانونی طور پر یوتھینیزیا ممنوع تھا، ہندوستان میں ’ارونا ‘نامی نرس ۴۲؍سال سے کومہ کی حالت میں رہ کر دنیا سے گزر گئی، وہ مظلوم ایک وحشیانہ حملہ کی وجہ سے اس حالت کو پہنچ گئی تھی؛ چنانچہ سپریم کورٹ میں درخواست دی گئی کہ اس کے لئے ’’رحمدلانہ ہلاکت‘‘ کی اجازت دی جائے، اورمئی ۲۰۱۱ء میں عدالت کا فیصلہ آیا کہ ’’فعال یوتھینیزیا‘‘ ایک غیر قانونی عمل ہے، جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، فیصلہ کی تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غیر فعال یوتھینیزیا کے بارے میں عدالت نرم گوشہ رکھتی ہے، اور اس کا رجحان ہے کہ اس کی اجازت ہونی چاہئے، سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد سے اصحاب دانش، طبی اخلاقیات کے ماہرین اور سماجی تنظیموں کے درمیان بحث چھڑ گئی تھی کہ اس عمل کو جائز ہونا چاہئے یا نہیں ؟ لیکن ۹؍مارچ۲۰۱۸ ء کو اپنے سابقہ موقف کے بالکل برعکس سپریم کورٹ نے قتل بہ جذبۂ رحم کی اجازت دے دی، چیف جسٹس دیپک مشرا کے زیر صدارت پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے یہ فیصلہ دیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی مریض کسی پیچیدہ اور مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے شدید تکلیف واذیت کا شکار ہو تو مریض کی خواہش پر،اس کے رشتہ داروں کے کہنے پر یا ڈاکٹر از خود فیصلہ کر کے مریض کو ہمیشہ کے لئے موت کے نیند سُلا سکتا ہے۔
یوتھینزیا کو جائز قرار دینے کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ایک تو اس قتل کا مقصد مریض کو تکلیف پہنچانا نہیں ہے؛ بلکہ اس کو تکلیف سے بچانا ہے؛ اس لئے اس کی اجازت ہونی چاہئے، دوسرے: انسان اپنی جان کا مالک ہے؛ اس لئے اسے اپنے آپ کو ختم کرلینے کا اختیار ہونا چاہئے — اسلام کا اصولی نقطۂ نظر یہ ہے کہ زندگی انسان کی ملکیت نہیں؛ بلکہ اس کے ہاتھوں میں اس کے خالق کی امانت ہے؛ا س لئے اسے اپنی خواہش کے مطابق اپنی زندگی کے معاملہ میں تصرف کرنے کا حق نہیں، دوسرے: انسان کی زندگی سے صرف اسی کے حقوق متعلق نہیں ہوتے؛ بلکہ اس کے متعلقین کے حقوق بھی متعلق ہوتے ہیں، خود کشی چاہے جس جذبہ سے کی جائے، اس سے ان دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور بعض اوقات ان کے حقوق بھی مارے جاتے ہیں، تیسرے: اس سے بعض سماجی مفاسد کے پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے؛کیوںکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات ورثہ مورث کو جلد موت کی نیند سلا دینا چاہیں، یا ان کی کوشش ہو کہ مریض کے علاج پر زیادہ خرچ کرنے کی نوبت نہ آئے، اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو ان کے قتل کے لئے قانونی راستہ کھل جائے گا،سپریم کورٹ میں مریض، اس کے ورثہ اور ڈاکٹروںسبھی کو اس کا مجاز قرار دیا گیا ہے، یہ بہت سے خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اوپر جو حدیثیں گذری ہیں، وہ اس فعل کے حرام و نادرست ہونے پر بالکل واضح ہیں؛ اس لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ چاہے نہایت تکلیف دہ بیماری سے انسان دو چار ہو، پھر بھی اس کے لئے خود کشی جائز نہیں: ’’لو أصابہ مرض لا یطیقہ لفرط ألمہ لم یجز قتل نفسہ‘‘ (قواعد الأحکام، ص: ۸۵) اسی طرح اگر ایک شخص دوسرے کو اجازت دے کہ وہ اسے قتل کرڈالے تب بھی اس کے لئے حکم دینے والے شخص کو قتل کردینا جائز نہیں اور ایسے شخص پر اگرچہ قصاص واجب نہیں ہوگا؛ لیکن دیت واجب ہوگی (دیکھئے: رد المحتار: ۱۰؍۲۵۵)۔
ہاں اُس صورت میں شبہ ہوسکتا ہے، جب کسی مریض کا علاج ترک کردیا جائے، یعنی غیر فعال یوتھنیزیا کا راستہ اختیار کیا جائے؛ کیوںکہ علاج کرانا محض مباح ہے، واجب نہیں،تو اس کو درست ہونا چاہئے ؛ لیکن جو بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ مقصود رشتۂ زندگی کو جلد ختم کردینا ہو تو علاج پر قدرت کے باوجود علاج ترک کردینا جائز نہیں؛ کیوںکہ رسول اللہ ا نے علاج کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، آپ ا نے ارشاد فرمایا: ’’یا عباد اللہ ! تداووا فإن اللہ لم یضع داء إلا وضع لہ شفاء‘‘ (سنن الترمذی، کتاب الطب، باب ما جاء في الدواء والحث علیہ، حدیث نمبر: ۲۱۷۲) — رہ گیا علاج کا مباح ہونا، تو جو چیزیں جائز ہوتی ہیں، وہ مقصد کے تابع ہوتی ہیں، اگر کسی خلاف شریعت مقصد کے لئے اس کو کیا جائے تو وہ فعل بھی گناہ ہی ہوگا،جیسے بازار جانا مباح ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص شراب پینے کے لئے بازار جائے تو شراب پینا تو حرام ہے ہی، اس مقصد کے لئے اس کا بازار جانا بھی حرام و گناہ ہے ؛ چنانچہ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جو چیزیں جائز و مباح ہیں، مقصد کے اعتبار سے ان کا حکم متعین ہوگا: ’’وأماالمباحات فإنہا تختلف صفتہا باعتبار ما قصدت لأجلہ‘‘ (الأشباہ والنظائر: ۱؍۷۸)، اس کی ایک نظیر ’’ کھانا ‘‘ ہے، کھانا عام حالات میں واجب نہیں ہے، مباح ہے؛ لیکن اگر ایک شخص اضطراری کیفیت میں مبتلا ہو، پھر بھی کچھ نہ کھائے، یا شدید بھوک کے باوجود روزہ نہ توڑے، یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو فقہاء لکھتے ہیں کہ وہ گنہگار ہوگا؛ کیوںکہ گویا اس نے خود کشی کی ہے: ’’من امتنع أکل المیتۃ حال المخمصۃ أم صام ولم یأکل حتی مات أثم؛ لأنہ أتلف نفسہ‘‘ (مجمع الأنہر: ۲؍۵۲۴) — اس لئے صحیح بات یہ ہے کہ یوتھنیزیا کی دونوں ہی صورتیں ناجائز ہیں اور قتل بہ جذبۂ رحم کی اجازت دینا نہایت پُر خطر فیصلہ ہے، جس سے بڑے مفاسد پیدا ہو سکتے ہیں۔
(ملت ٹائمز)