یہ آتش فشاں تھا جو پھٹ پڑا

ڈاکٹر یامین انصاری
دلتوں کا احتجاج وقتی غصہ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے وہ تمام عوامل کار فرما ہیں، جو گزشتہ چند برسوں کے دوران دلتوں پر مظالم کی نئی داستان لکھ رہے ہیں
۲ اپریل کا دن ملک کی تاریخ میں اپنے سیاہ نقوش چھوڑ گیا۔ اس دن پورے ملک میں دلت سراپا احتجاج تھے۔ کہیں جلسے، جلوس ہو رہے تھے، تو کہیں تصادم، کہیں سنگ باری ہو رہی تھی تو کہیںتوڑپھوڑ اور آتشزنی کے واقعات، کہیں پولیس کا عتاب ٹوٹ رہا تھا تو کہیں فائرنگ ، نتیجہ یہ ہوا کہ اس دوران تقریباً ۰۱ افراد کی جان چلی گئی۔ دلت تنظیموں نے صرف سوشل میڈیا کے ذریعہ پیر کے روز ’بھارت بند‘ کی اپیل کی تھی۔اس ’بھارت بند‘کی وجہ تو بظاہر سپریم کورٹ کا وہ حالیہ فیصلہ تھا جس میں برسوں سے رائج ایس سی ، ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے، لیکن اس غصہ کے پیچھے کئی دیگر وجوہات بھی تھیں۔ دلت طبقہ ایس سی ، ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کو ان کے حقوق کی پامالی اور استحصال کی راہیں کھولنے والا بتا رہا ہے۔ لہذا جس طرح ملک کی مختلف ریاستوں میں سڑکوں پر دلتوں کا غصہ نکلا، وہ کسی آتش فشاں کے پھٹنے کے مترادف ہی تھا۔
اس بڑے پیمانے پر احتجاج کی زمین ایک دن میں ہی تیار نہیں ہو گئی تھی۔ اس کے پیچھے وہ تمام عوامل کار فرما تھے، جو گزشتہ چند برسوں کے دوران دلتوں پر مظالم کی نئی داستان لکھ رہے ہیں۔ جس طرح ایک آتش فشاں پہلے اندرہی اندر ابلتا رہتا ہے اور جب اس میںآگ کی مانندموجود مادہ بے قابو ہو جاتا ہے تو ایک دن پھٹ پڑتا ہے۔ ۲ اپریل کو دلت برادری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔خاص طور پر گزشتہ تین چار برسوں کے دوران دلت طبقہ پر مظالم کا سلسلہ تیز ہوا ہے، ان کے استحصال کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کو شش کی گئی ہے، یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ بغیر کسی لیڈر شپ کے اور کسی کی سربراہی کے بغیر ’بھارت بند‘ اس قدر پر اثر رہا۔ اگر چہ کئی ریاستوں میں ناخوشگوار واقعات پیش آئے اور لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں۔ تشدد کو کسی بھی حالت میں جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا، لیکن اس سے پہلے اگر دلتوں کے ساتھ ہونے والے تشدد پر بھی اسی سنجیدگی کے ساتھ دھیا ن دیا گیا ہوتا تو کم از کم جانی نقصان سے بچا جا سکتاتھا۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح گجرات کے اونا میں دلتوں کوکھلے عام سڑکوں پر نہ صرف ننگا کرکے پیٹا گیا، بلکہ انھیں شہر بھر میں گھمایا گیا، انھیں رسوا کیا گیا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ حیدرآباد کے اسکالر روہت ویمولا کو کس طرح استحصال کے بعد خودکشی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ اس کی موت کے بعد بھی حکومت کا شرمناک اور مایوس کن رویہ دیکھنے میں آیا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہی ہم نے دیکھا کہ دلت طبقہ کے دولہا کو گاؤں میں گھوڑے پر بارات لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی، کہیں یہ بھی دیکھا گیا کہ مردہ جانوروں کی کھال اتارنے پر دلتوں کو پیٹ پیٹ کر نیم مردہ بنا دیا گیا۔ اسی سال مہاراشٹر کے بھیماکورے گاو ¿ں میں بھی ہم نے دیکھا کہ دلتوں کی ایک تقریب کے دوران تشدد برپا کیا گیا۔یہ ایک سلسلہ ہے، جو بہت عرصہ سے چلا آرہا ہے۔یہی ظلم و زیادتی کی داستانیں ہیں، جو کبھی بھی ’عمل کے رد عمل‘ کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ اس تھیوری کو موجودہ وزیر اعظم نے ہی گجرات میں اپنی حکمرانی کے دوران جائز ٹھہرانے کی کوشش کی تھی۔ آج ان کو خود اس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ برس ایک ہندی جریدے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی، جس کے اعداد و شمار کے مطابق، ہر ۸۱ منٹ میں ایک دلت کے خلاف جرم ہوتا ہے۔ اوسطاً ہر روز تین دلت خواتین عصمت دری کا شکار ہوتی ہیں، دو دلت مارے جاتے ہیں، اور دو دلت گھروں کو جلا دیا جاتا ہے۔۷۳فیصد دلت خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتے ہیں، ۴۵فیصد غذائیت سے محروم ہیں، فی ایک ہزار دلت کنبوں میں ۳۸ بچے پیدائش سے ایک سال کے اندر مر جاتے ہےں۔ یہی نہیں، ۵۴ فیصد بچے غیر تعلیم یافتہ رہ جاتے ہیں۔تقریباً ۰۴ فیصد سرکاری اسکولوں میں دلت بچوں کو عام بچوں کی قطار سے علیحدہ بیٹھ کر کھانا پڑتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ۸۴فیصد گاؤں میں دلتوں کو عام مقامات سے پانی لینے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
جہاں تک موجودہ تحریک کا سوال ہے تو دلت تنظیموں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد ان کے خلاف تشدد کے معاملوں میں مزید اضافہ ہوگا۔اسی لئے آہستہ آہستہ ملک میں دلتوں کی تحریک پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ در اصل تازہ ہنگامہ کی شروعات سپریم کورٹ میں پہنچے ایک معاملے سے ہوئی۔ معاملہ ۹۰۰۲ء میں، مہاراشٹر کے گورنمنٹ فارمیسی کالج میں ایک دلت ملازم کی جانب سے دو فرسٹ کلاس افسران کے خلاف قانونی دفعات کے تحت شکایت درج کرنے کا ہے۔ پولیس حکام نے تحقیقات کے لئے افسران سے تحریری ہدایات طلب کیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے انچارج ڈاکٹر سبھاش کاشی ناتھ مہاجن نے تحریری شکل میں کوئی ہدایت نہیں دی۔ جس کے بعد دلت ملازم نے سبھاش مہاجن کے خلاف ایک شکایت درج کرائی۔جس کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ سے ایف آئی آر کو رد کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن ہائی کورٹ نے اس عرضی کو ٹھکرا دیا۔جس کے بعد مہاجن نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جہاں ان کے خلاف ایف آئی آر ہٹانے کی ہدایت دی گئی اور ایس ٹی، ایس سی ایکٹ کے تحت فوری گرفتاری پر روک لگا دی۔ اس معاملے کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ایس ٹی ، ایس سی ایکٹ کے تحت کوئی گرفتاری نہیں کی جائے، بلکہ پیشگی ضمانت کی منظوری دی جائے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ملک کے کئی حصوں میں دلت تنظیموں نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے کہا کہ اس فیصلے کے بعد دلتوں کے خلاف ظلم و استحصال کے واقعات میں اضافہ ہو جائے گا۔ ساتھ ہی دلت طبقہ کے ذمہداران کا کہنا ہے کہ اگر پیشگی ضمانت مل جائے گی تو مجرموں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔
ایس سی ، ایس ٹی ( انسداد استحصال) ایکٹ کو۱۱ ستمبر، ۹۸۹۱ء کو ملک کی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کیا گیا تھا، جو ۰۳ جنوری،۰۹۹۱ءسے پورے ہندوستان (جموں و کشمیر کے علاوہ) میں نافذ کیا گیا تھا۔ یہ ایکٹ ہر اس شخص پر نافذ ہوتا ہے جو درج فہرست ذاتوںاور درج فہرست قبائل کا رکن نہیں ہے اوروہ شخص اس طبقے کے لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ اس ایکٹ میں ۵ شق اور۳۲ دفعات ہیں۔ یہ قانون درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل میں شامل افراد کے خلاف جرائم کی سزا دیتا ہے۔ یہ متاثرین کو خصوصی تحفظ اور حقوق فراہم کرتا ہے۔ اس کے لئے خصوصی عدالتوں کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس مضبوط قانون کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ حلقوں میں یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ در اصل موجودہ حکومت کی اصل منشا نہ صرف اس قانون کو کمزور کرنے کی ہے، بلکہ وہ پسماندہ اور سماج کے دبے کچلے لوگوں کو ملنے والے ریزرویشن کو ختم کرنا بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔لیکن ۲ اپریل کے زبردست احتجاج کے بعد حکومت بیک فٹ پر نظر آ رہی ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو خاص طور پر پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہنا پڑا کہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اور یہ محض افواہ ہے کہ حکومت ریزرویشن کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ اسی احتجاج کا نتیجہ تھا کہ ۲ اپریل کو ہی حکومت نے بحالت مجبوری سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی عرضی داخل کی۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے فی الحال ۰۲ مارچ کے اپنے فیصلے کو برقرار رکھا اور اگلی سماعت ۰۱ روز بعد مقرر کی۔ ویسے بھی اس مرحلے میں آ کر سپریم کورٹ کے لئے بھی یہ آسان نہیں تھا کہ وہ اپنا فیصلہ تبدیل کردے۔ ہاں اگر موجودہ بی جے پی حکومت واقعی اس ترمیم کے خلاف ہے تو وہ خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں آرڈیننس لاسکتی ہے۔ بہر حال اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت کیا رخ اختیار کرتی ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں