محمد عمران
موسم گرما دھوپ کی تمازت میں اپنے سفر کا آغاز کرچکا ہے ،اور اس سفر میں زندگی کے ہرموڑپر پانی کی ضرورتیں شدت اختیار کرنے لگی ہیں لیکن پانی ضروریات کی تکمیل کرنے میں ناکافی ہورہا ہے۔ہرچہار جانب سے ایک شور برپا ہے۔انتہائی سنگین مسئلہ سامنے ہے۔پانی کے بغیر بھلازندگی کیسے ممکن ہوسکے گی۔یہ فکر بھی لاحق ہونے لگی ہے۔آج وطن عزیز کی مختلف ریاستیں پانی کی عدم فراہمی کی شکار ہیں،مہاراشٹر ان میں سرفہرست ہے۔مراٹھواڑہ کاحال تو بہت برا ہے۔پانی کی قلت کی وجہ سے وہاں بیس سے زائد افراد جاں بحق بھی ہوچکے ہیں۔ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔حکومت کی جانب سے بھی اس دکھ کی گھڑی یعنی پانی کی ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے اور لائق تحسین اقدام کرتے ہوئے اس کیلئے خصوصی انتظام بھی کیاگیا ہے۔ لاتور کے پریشان حال لوگوں کیلئے دس ویگن والی مال گاڑی میں پانی پہنچایا گیا ہے۔اس موقع پروہاں کے لوگ خوشی سے جھوم اٹھے ہیں اور پانی حاصل کرنے میں مگن ہوگئے ہیں۔اس افراتفری کے ماحول میں ایک جشن منانے کارنگ بھی نظرآیا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی ذہنوں میں آیا ہے کہ ویگن میں آیاپانی کتنے دنوں تک مگن رکھ سکے گا،کب تک ٹرینوں کے ذریعے لاتور میں پانی پہنچایاجاتارہے گا،کون اس کامستقل انتظام کرے گا،کون اس کی ذمہ داری لے گا۔اور کیا یہ کسی کے لئے بھی ممکن ہوسکے گا۔
موجودہ وقت میں پورا ملک خشک سالی کاشکار ہورہا ہے اور پانی کے ذخائر میں روز افزوں کمی واقع ہوتی چلی جارہی ہے۔ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں کل 91 آبی ذخیرے موجود ہیں لیکن ان میں صرف 24 فیصد پانی موجود ہے۔اگر ریاستوں کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ تلنگانہ،آندھراپردیش،ہماچل پردیش،مغربی بنگال،راجستھان،مہاراشٹرا،اڑیسہ،گجرات،جھارکھنڈ،اترپردیش، اتراکھنڈ، چھتیس گڈھ،مدھیہ پردیش،کیرالہ اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں پانی کے ذخائر کافی کم ہوئے ہیں ۔اس وقت ملک میں جو صورتحال ہے اس کے اعتبار سے محض دوریاستوں تریپورہ اور کرناٹک میں آبی ذخائر وہاں کی ضروریات کی تکمیل کے لئے کافی کہے جارہے ہیں ،ورنہ ہرجگہ کچھ کم یازیادہ ایک تشویشناک صورتحال موجود ہے۔
اگر بغور جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ آج پانی کی کمی کامسئلہ ایک لامتناہی سلسلے میں بدلتاہوانظر آرہا ہے،ہاں غور کیجئے ایک ایک کرکے جب زیادہ تر ریاستیں پانی کے قحط کے جال میں پھنس جائیں گی اور ایک دوسرے سے مدد کی طلبگار ہوجائیں گی تو پھراس وقت کون کس کی سنے گا ۔کون کس کی مدد کرے گا۔آج کی یہ انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ وقت کچھ اسی راستے پرگامزن بھی ہونے لگاہے۔پانی کی سطح بڑی تیزی کے ساتھ زمین کی نیچے اور بہت نیچے ہوتی چلی جارہی ہے،پینے کاپانی جوکل تک بیشتر مقامات پر بہت آسانی سے دستیاب تھا آج ان مقامات پر بھی اس کا حاصل کرنا آسان نہیں رہا۔اب توحال یہ ہوگیا ہے کہ دیگر روزمرہ کی ضروریات کیلئے بھی پانی کی کمیابی ایک سنگین مسئلے کی صورت میں سامنے کھڑی ہوگئی ہے۔کہنے والے تویہ بھی کہنے لگے ہیں کہ پانی کی کمی مستقبل قریب میں ایک عالمی مسئلے کی صورت میں سامنے آنے والی ہے اور یہی پانی کا مسئلہ تیسری عالمی جنگ کی وجہ بھی بننے والا ہے جس کی صورت نہات خطرناک ہوگی اور جس کے مضر اثرات دنیا کی تباہی کا سبب بنیں گے۔غور طلب امر ہے کہ آخر پانی کی اتنی کمی جب اتنی تیزرفتاری سے ہورہی ہے،تو اس کی بھرپائی کیلئے آخر کیاکیاجارہا ہے؟کیا اس سلسلے میں سچ مچ حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہیں ؟کیا عوام بھی ا س بابت واقعی فکرمند ہیں؟تولیجئے اس کا جواب بھی حاضر ہے کہ اس سلسلے میں جوکچھ بھی انسان کے اپنے اختیار میں ہے اس سے بھی اعلانیہ طور پر گریز کیاجارہا ہے۔ترقی کا خواب بننے والی اور سوسال بعد کا پلان تیار کرنے والی دنیا پانی کی حفاظت کرپانے میں کلی طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔
حالانکہ ہم بخوبی واقف ہیں دنیاکی کوئی تکنیک اور سائنس پانی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ہمارے سائنس داں یہ تو ضرور بتاتے ہیں اور سائنسی لیب میں بھی یہ اچھی طرح سمجھایا جاتا ہے کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملنے سے پانی بنتا ہے، لیکن کبھی کسی لیب میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے میل سے بنے پانی سے پیاس نہیں بجھائی گئی ،لیب میں پانی بناکر کسی انسانی ضرورت کی تکمیل نہیں کی گئی،ا س کیلئے یقینی طور پر قدرت کے عطاکردہ ذخیرے سے ہی ہرایک کومستفید ہوناپڑا ہے ۔چاہے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ماہر ہو،حکومتوں کا سربراہ ہو یا کوئی معمولی آدمی۔صاف ظاہر ہے کہ پانی ہمارے لئے محض اللہ کاعطیہ ہے،اس پر کسی اور کی اجارہ داری نہیں ہے۔اس ضمن میں آج سے چودہ سو سال قبل ہی اس بات کی مکمل طور پر تاکید کی جاچکی ہے کہ اللہ کے خزانے سے ہی دنیا میں پانی کاایک ذخیرہ موجود ہے،جوہرجاندار کی زندگی اور اس کی ضروریات کیلئے لازمی ہے، اور لازمی طور پر اس کی حفاظت بھی کی جانی چاہئے،اسے بے دریغ نہیں بہایاجاناچاہئے ۔یہ یاد رکھاجانا چاہئے کہ اللہ کی جانب سے صرف اپنی ضرورت کی تکمیل تک ہی پانی کااستعمال کرنے کی اجازت ہے،اس سے زیادہ کے استعمال پر مواخذہ کااعلان ہے۔ آخرت میں ایک بوند پانی کابھی حساب لیا جائے گا۔ان تمام ہدایات سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ ہر انسان کیلئے چاہے وہ جس حیثیت میں موجود ہو، پانی کا برمحل استعمال حد درجہ لازمی ہے۔اگرذمہ داریوں سے اجتناب کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یقینی طور پر پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہوگی اور پھر انسانوں کی ہی نہیں بلکہ چرند وپرند کی زندگی بھی دشوار ہوجائے گی۔اموات کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے گا۔
دنیا میں پانی کے جتنے بھی ذخائر موجود ہیں ان میں بادل ایک بہترین ذخیرہ ہے۔دنیا کا کوئی بھی ایسا جاندار نہیں ہے جس کو بادلوں کے پانی سے مستفید ہونے کا موقع نہیں ملتا ہو،دنیا کا کوئی ایسا خطہ ،قریہ،گاؤں یاشہر نہیں ہے جہاں بادل اپنی کروڑوں ٹنکیوں کا پانی لے کر نہیں پہنچتا ہو،اوروہاں کے کھیتیوں کی شادابی ،وہاں کے عوام کی خوشحالی اور ہرچہار جانب ہریالی کی وجہ نہیں بنتا ہو۔پہاڑوں پر برف کی بڑی بڑی چٹانوں کی موجودگی بھی پانی کا ایک بڑا اور اہم ذخیرہ ہے جسے اللہ نے ہمارے لئے محفوظ کردیا ہے۔پہاڑوں کی یہ برف اپنی رفتار سے پگھلتی ہے اور اس کاپانی مختلف شکلوں میں ڈھل کر ہم تک پہنچتا ہے،ہم اسے ندیوں میں ،نالوں میں اور دریاؤں میں دیکھتے ہیں،وہ ہمارے کھیتوں کی سینچائی کی کام آتا ہے،ہمارے لئے بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے،ہمارے کارخانوں کے لئے مفید ثابت ہوتا ہے اور وہی پانی صاف کرکے ہمارے پینے کے بھی کام آتا ہے۔پانی کا تیسراذخیرہ جو اللہ نے ہمیں بخشا ہے وہ زمین کے اندر موجود ہے۔اسے قدرتی طور پر مخفی رکھاگیا ہے،انسان نے کنواں کھود کر اس پانی کو حاصل کیااور ٹیوب ویل وغیرہ کا انتظام کیا،آج نئے نئے طریقے زمین سے پانی حاصل کرنے کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں ،لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پانی کی سطح کے نیچے چلے جانے سے بعض مقامات پر زمین سے بھی پانی حاصل کرنا مشکل ہونے لگا ہے۔حد تویہ ہے کہ ندی اور نالے بھی خشک ہونے لگے ہیں اور بادلوں سے بارش کاپانی ملنے میں بھی تیزرفتاری سے کمی ہونے لگی ہے۔اگر اس کے وجوہات کاجائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ترقی کے خمار میں اندھادھند آلودگی کو بڑھاوا دے کر ہم خود ہی ان تمام پریشانیوں کاسبب بن رہے ہیں۔کبھی خشک سالی کے شکار ہورہے ہیں تو کبھی پینے کے پانی کے بھی محتاج ہورہے ہیں۔
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ان تمام برے حالات کے باوجود بھی پانی کی اہمیت ہمارے دلوں سے ہنوز دور ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ پینے کیلئے اگر کوئی آدھاگلاس پانی دے تو اسے ہم اپنی توہین اور تہذیب کی خلاف ورزی سے تعبیر کریں گے لیکن دوگھونٹ پی کر چھوڑدیں گے اور سارا پانی پھینک دینے پر مجبور کردیں گے تووہ تہذیب کی علامت سمجھا جائے گا۔فیشن کے نام پر روزانہ کئی کئی بالٹی پانی سے نہائیں گے اور کبھی دن میں دوبار تین بار نہائیں گے جبکہ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے تو اس کو پانی کی بربادی سے تعبیر نہیں کریں گے بلکہ اپنی صفائی ستھرائی کی داد وصول کرنے کے منتظر ہوں گے ۔پانی کی بربادی کایہی حال بیت الخلاء میں بھی ہے کہ پانی کانل کھلا چھوڑدیا جاتا ہے،اکثر وبیشتروضوخانے کا بھی یہی حال رہتاہے کہ پانی افراط میں گررہاہے اور نہایت ہی متانت سے وضو کیاجارہا ہے۔گھروں میں اکثر ہی پانی کی ٹنکی بھرجاتی ہے،پانی گرتا رہتا ہے، بھلے ہی محلے والے دور سے دیکھ کر پانی کے موٹر کے بند ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں لیکن اہل خانہ اس سے بے خبر ہوتے ہیں،یقیناًیہ ان کی بے فکری کی علامت ہے۔جس پر جتنا بھی افسوس کااظہار کیاجائے وہ کم ہی ہے۔آج بڑی مستعدی سے گاڑیوں کاروزانہ دھویاجانا ،کتوں کو شاہانہ طریقے سے نہلایاجانا،آئی پی ایل جیسے مختلف کھیلوں میں پانی کا بے دریغ استعمال کیاجانا کیا واقعی اتنا ہی ضروری ہے کہ اس ضرورت پر مراٹھواڑہ جیسے علاقوں میں پانی کی شدید کمی کو بھی نظر انداز کیاجاسکتا ہے۔صرف مراٹھواڑہ ہی نہیں بلکہ کسی بھی خطے کی ضرورت کو سامنے رکھیں تو اپنا خود ساختہ فیشن ،حد درجہ بے فکری اور ماڈرن سلوک ہی پانی کی بربادی کی شکل میں نظر آئے گا، اس کے ساتھ ہی اس میں ضرورت مندوں کااستحصال بھی نظر آئے گا اور ہم خود ہی اس کے لئے قصوروار نظر آئیں گے۔اس لئے اگر سنجیدگی سے غور کیاجائے تومعلوم ہوگا کہ یہ پانی کی بربادی ہی پانی کی کمی کا سبب بن رہی ہے اور ہم بذات خود ہی اس کی وجہ بن رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں پانی کی قلت کے درد کو بڑے پیمانے پر محسوس کیاجارہا ہے،مباحثے بھی منعقد ہورہے ہیں،فکرمندی کا مظاہرہ کیاجارہا ہے ،اسی لئے آج اس سچ سے انکار کرنے کاکوئی جواز نہیں ہے کہ حکومت سے لے کر عوام تک ایک ایک فرد کو مستقبل میں پانی کی کمی کے خطرات سے آگاہی ہوچکی ہے۔اس کے پیش نظر یہ غور طلب پہلو فطری طور پر سامنے آتا ہے کہ اگر ابھی بھی ہماری حکومتوں نے بارش کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے فضاؤں میں پھیلتی جارہی بارش کو روکنے والی آلودگی کوکم کرنے کی جانب سنجیدہ پیش رفت نہیں کی ،پانی کی حفاظت کا معقول انتظام نہیں کیا اور عام آدمی نے پانی کے بے دریغ استعمال پر قدغن لگانے کابیڑہ نہیں اٹھایا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں حال بہت ہی برا ہوجائے گا اور بلاتفریق ہرآدمی اپنی بنیادی اور نظر انداز نہ کرسکنے والی ضرورتوں کے پیش نظر سائل کی طرح ادھرادھر دستک دیتے ہوئے یہی پوچھتا ہوا نظر آئے گا کہ’’تھوڑا پانی ملے گا‘‘؟یہاں یہ واضح کرنے کی ضرورت باقی نہیں ہے کہ اس کاجواب یا ردعمل کیا ہوگا۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار اینگلو عربک اسکول کے سینئر استاذ اور آزاد صحافی ہیں )
mohd1970imran@gmail.com